اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
توصیف بنام اقبال:
جب مسلمانوں نے ترک کئے احکام المتعال اورپسِ پشت ڈالی شریعتِ سید بشروصاحب جمال، اورکئے انہوں نے اقدارِ اسلامی پامال، آیا ان پر بدترین زوال، فرنگیوں نے جب دیکھی یہ صورتحال، چلی انہوں نے شاطرانہ چال، بچھایا عیاری سے ایسا جال، کئے بغیر جنگ و جدال، کرلئے شہر کے شہریرغمال، اور ہوگئے مسلط گروہِ مغضوب و ضال، مسلمانوں کے پاس تھی نہ کوئی ڈھال، گزرتے رہے یونہی ماہ و سال، نہیں ملتی جس کی تاریخ میں کوئی مثال، تاتار نے بھی کیاتھااگرچہ دجلہ و فرات کوخون سے لال، لیکن اب توہے نہ رکنے والا زوال، کیونکہ امت تو ہے بس گروہ جُہال، اہل بصیرت توہیں بس خال خال، پیدا ہوئے اُس وقت بعض رجال، جن میں سے ایک تھا ڈاکٹر محمد اقبال علیہ رحمۃ المتعال، چمکا افق پرجو مثلِ ہلال، شاعری تھی جس کی باکمال، فکر تھی جس کی پُر جمال، نہیں تھی جس میں حب دنیا و مال، جو تھا عاشق رسول( ﷺ ) و حضرت بلال(٭)، اس پرمخفی نہ تھا قوم کا احوال، جب دیکھا شاہین ہے بغیر پر و بال، بلکہ ادھڑ گئی ہے اس کی کھال، لیتے ہیں بس یہ طوطا فال، رہ گئے ہیں صرف ظاہری مقال یعنی جل تو جلال آئی بلا کو ٹال، لیکن نہ تھی کوئی عملی صورت حال، اس کوہوا بہت رنج وملال، دیا الٰہ آباد میں خطبہ فقید المثال، دکھایا ان کو ماضی کااحوال، کہاہے یہ قرآن و سنت چھوڑنے کا وبال، دکھائی مسلمانوں کو راہ اعتدال، رہنمائی کی جانب فکرصالح و نیک اعمال، کیا حیات صحابہ سے استدلال اوربتایا فلسفہ عروج وزوال، کہا کہ اگرتم مل کرکروقتال توکفار کی کیامجال، کہ چھین لیں تمہارے اموال، جس نے کیا مغربی افکار کا ابطال، ڈاکٹرانصاریؒ نے بھی انہیں کیاخط ارسال، ان سے پوچھا ایک سوال، کیامغرب سے حاصل کروں علمی کمال، آپ نے دورکیا ان کا اشکال، علوم اسلامیہ کا مغرب سے ملنا ہے محال، چاہتے ہو اگر کوئی کمال، کرو محنت غدو وآصال، جب ہوا اقبال کا وصال، جان دے کر ہوگیا لازوال۔
اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فناہوا، حبشی کو دوام ہے
قبال اور شاعری:
حدیث مبارکہ میں بعض بیان کو جادو کہاگیا ہے۔ ان من البیان لسحرا۔ بعض بیان (تو)جادو ہیں یعنی وہ جادو کی طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس حدیث کے دو مفہوم ہیں :
ایک تو یہ کہ وہ جادو کی مانند حرام ہیں یعنی ایسا کلام جونفسانی خواہشات اورسفلی جذبات ابھارے اس کلام سے تواس شخص کے پیٹ کاپیپ سے بھرجانابہتر ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
لان یمتلی جوف رجل قیحا خیر لہ من ان یمتلی شعرا۔ (مشکوٰۃ۔ ٤١٠)
کسی شخص کے پیٹ کا پیپ سے بھرا ہونا اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھراہوا ہو۔
دوسرا یہ کہ اس کلام کی تاثیر جادوکی طرح ہوتی ہے۔ محاورۃً اس سے مراد یہ ہوگا کہ غیر مرئی اورغیر محسوس طریقے سے وہ کلام دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ شاعری ایک ایساہی فن ہے جس میں الفاظ کے ذریعے تخیل پر منظرنگاری کی جاتی ہے اورشاعر الفاظ سے اپنے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرتاہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعری انسان کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک مہمیز کا کام کرتی ہے یعنی انسان کے جذبات کوابھارتی ہے۔ اس میں آگ لگانے کی قوت بھی ہے اور آگ بجھانے کی بھی۔
شاعری کاذکر حدیث مبارکہ میں بھی آیاہے۔ ان من الشعر حکمۃ۔ (مشکوٰۃ، ص٤٠٩)بیشک بعض اشعار میں حکمت ودانائی ہے۔ حدیث مبارکہ میں اچھے کلام کو اچھائی اوربرے کلام کو برائی سے تعبیرکیاگیا ہے۔ الشعر کلام حسنہ حسن وقبیحہ قبیح۔ (مشکوٰۃ، ص٤٠٩)شعرایک کلام ہے جس کا اچھا کلام عمدہ اورحسین اور براکلام برا ہے۔
شاعری کوعموما عقل اور استدلال، حکمت ودانائی کے اظہار کاذریعہ نہیں سمجھاجاتابلکہ اس کے ذریعے محض دل کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جاتی ہے۔ اورویسے بھی ہر شاعر اتنا ذی علم اورفصیح اللسان نہیں ہوتا کہ اپنے علوم کو اشعار کے قالب میں ڈھال سکے۔ لیکن جب ہم علامہ اقبال کے کلام کامطالعہ کرتے ہیں تووہ ہمیں اپنے کلام میں بامقصدیت کے ساتھ ساتھ علم و عمل کی نورانی شمعیں روشن کرتے، بلند تخیلات کے جواہر دلوں کے طاق پر سجاتے اورسحرانگیز اثر طریقے سے جذبات کا رخ اچھائی کی جانب کرکے انسان کی کردار سازی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اقبال اس تاریخی حقیقت سے کماحقہ آگاہ ہیں کہ مکہ کی خواتین اپنے جنگجوؤں میں جذبہ حرب کو پیدا کرنے اور بڑھانے کے لئے ان کے سامنے رزمیہ اشعار پڑھتی تھیں جنہیں سننے کے بعد وہ دیوانہ وار میدان جنگ میں کود پڑتے۔ اقبال اسی شاعری سے پیداشدہ عارضی اور وقتی تبدیلی کو عقل و شعور(ذہنی پروسیس )سے گزار کر نظریات میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بالآخر ان نظریات و افکار کو اعتقادات کی شکل وصورت میں ڈھال کر انسانہ بنادیاجائے۔
بالاختصار جب ہم علامہ اقبال علیہ رحمۃ المتعال کی زندگی پرنظردوڑاتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ آپ علیہ رحمۃ المتعال اپنے کلام سے قوم وملت کوبیدار کرتے ہیں۔ جسے ہم زبان اور قلم کے ساتھ جہاد سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ ان المؤمن یجاھد بسیفہ ولسانہ۔ (مشکوٰۃ :٤١٠) مومن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتاہے۔ اورویسے بھی جب کوئی شاعراخلاص نیت، صدق لسان، صمیم قلب، تطہیر باطن اوراستغناء نفس سے حضور ﷺ کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار لکھتاہے اوراپنی شاعری کو دین اسلام کی نشر و اشاعت، حق کی ترویج اور باطل کے خلاف جنگ میں استعمال کرتاہے توایسے شاعر کی مدد کے لئے اللہ رب العزت فرشتوں کو نازل کرتاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حق میں دعافرمائی۔ اللھم ایدہ بروح القدس۔ (متفق علیہ) اے اللہ تو جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے حسان کی مدد فرما۔ یعنی حضرت حسان رضی اللہ عنہ جنہوں نے اپنی شاعری سے حضور ﷺ کی مدح سرائی کی اور آپ ﷺ پر کئے گئے طعن وتشنیع کے جوابات دیئے ان کی مدداللہ رب العزت نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے کی۔ حضور ﷺ کا فرمان زندہ جاوید ہے اب جب بھی کوئی شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ کے نقش قدم پر چلے گا وہ اس حدیث میں کی گئی دعاکا مصداق ٹھہرے گایعنی ان کی مدد کے لئے بھی یقینافرشتے نازل ہوں گے(انشاء اللہ العزیز)۔
اقبال اور شیکسپیئر
یہاں یہ ذکر کرنا بے جانہ ہوگا کہ انگریز ایک شیکسپیئر پر نازاں ہیں جس نے صرف انگریزی زبان میں نے نام کمایا ہے لیکن ایک غلام قوم میں آزاد مردِ حرایسا بھی پیدا ہوا، جوفکری تخیلی صلاحیتوں کا مالک، ہفت زبانوں میں ایسافصیح وبلیغ کہ انگریزی، عربی، اردو، فارسی میں تو ان کا کلام سند مانا جاتاہے۔ اقبال اپنے نام کی طرح بلند ہمت، بلند خیال، بلند کردارہیں اورانہوں نے اپنی شاعری سے مسلمانوں کی فکری، علمی، عملی، قلبی، روحانی، باطنی، ظاہری، رہنمائی فرمائی۔ اقبال بیک وقت مفکر، فلسفی، شاعر، انشاپرداز، مصنف، مورخ، مصلح، صوفی، عالم ہے۔ لہذا علامہ اقبال کا مقام بہت بلند ہے جسے ہمالیہ سے تعبیر کیاجائے تو اس میں مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ اور ان کے سامنے شیکسپیئر کی مثال ایک چھوٹی چٹان سے زیادہ نہیں ہے اس کے پاس فکر اور قوت تخیل اقبال کے ہم پلہ نہ تھی۔ اقبال نے بیک وقت انسان کو متاثر کرنے والی چاروں طاقتوں سے کام لیا۔ یعنی سائنس، شاعری، مذہب اور فلسفہ۔ علامہ اقبال کے اشعارمیں فصاحت لسان اوربلاغت کلام کے ساتھ ساتھ آیات قرآنیہ کی تفسیر، احادیث نبویہ ( ﷺ ) کی تشریح، سائنسی توضیحات اور فلسفیانہ تصورات پائے جاتے ہیں۔ اقبال اپنے کلام سے قوم وملت کواس کاکھویاہوا مقام اورشاندار ماضی یاددلا کررلاتاہے اوراس قوم کو خواب غفلت سے بیدارکرتا اور اس کے مردہ ضمیرکوجھنجھوڑتاہے تاکہ یہ دوبارہ عروج حاصل کرلے۔
اقبال کا تصورمومن
اقبال کے نزدیک مومن کی زندگی اسلام کا آئینہ ہے۔ خواہ کتنی مشکلات راستہ میں حائل ہوں مومن اپنے ارادہ خیر سے ہرگزنہیں ٹلتا۔ خواہ اس کا جان ومال کچھ بھی باقی نہ رہے۔ مومن کے ارادے بلند، عزائم پختہ، مقاصدنیک، دل پاک مثل آئینہ ہوتاہے۔ اس کا کردارہر قول وفعل اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے تابع ہے۔ وہ کسی حالت میں بھی صراط مستقیم سے نہیں ہٹتا ہے۔ عبادات، رسومات، معاش، تجارت، سیاست، حکومت الغرض دنیا کے ہر شعبہ میں منشاء الہی، احکام الٰہی اورخوشنودی رسول اللہ ﷺ کومقدم سمجھتا ہے۔ اوراسلامی شاہراہ پر گامزن رہتاہے۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مؤمن فقط احکام الٰہی کاہے پابند
اقبال کے نزدیک” یقین محکم، عمل پیہم اورمحبت” زندگی کے جہاد میں مردان خدا کی شمشیریں ہیں۔ یقین کامل(جس کا دوسرانام ایمان ہے۔ یہ ایمان کی پختگی ہی ہے جس سے انسان مومن بنتاہے)شریعت اسلام کے اوامرونواہی، اطاعت رسول اللہ ﷺ، عمل پیہم اور محبت(حُبِّ الہی ورسول ﷺ)۔ یہی وہ تلواریں تھیں جن کی وجہ سے درندہ صفت، وحشی اوردنیا بھر کے عیوب میں مبتلا عرب خیرالامم اوربے نظیر قوم بن گئے۔
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
جہاں تک ظاہری ساز وسامان کاتعلق ہے توکفار کے برعکس مومن کواس شمشیر کی اس قدرضرورت نہیں جتنی یقین کامل کی ہے جس میں اس کا عقیدہ پختہ ہو۔ ظاہری ہتھیار اورتلوار کے بغیر بھی مومن دل میں وسوسہ یاناکامی کا خوف لائے بغیر میدان جنگ میں کود پڑتاہے۔
کافر ہے توشمشیر پہ کرتاہے بھروسہ
مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی
مومن ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی روشنی پر عمل پیرار ہتاہے اورکبھی بھی غیر اقوام ومذاہب کی مادی ترقی اورنمائشی جاہ جلال سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔
فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مؤمن
قدم اٹھا !یہ مقام انتہائے راہ نہیں
اقبال کی آفاقیت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اوروہ اپنے پیش کردہ تصور مومن کی طرح کسی ایک مقام، مکان اورزمان میں مقید نہیں ہیں۔ وہ ماضی حال اورمستقبل تینوں کو عارفانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ کسی ایک فن، کسی ایک شعبہ، کسی ایک مسلک اور کسی ایک قومیت کے نہیں بلکہ وہ سب کے ہیں۔ بالفاظ اقبال
مؤمن کے جہاں کی حد نہیں
مؤمن کا مقام ہر کہیں ہے
نیز اقبال کے نزدیک مومن بے اختیار اورمجبورنہیں ہے۔ جبری بے اختیاری انسان کو بے عملی کی طرف لے جاتی جب کہ اختیار واقتدار عمل وجدو جہد کی طرف لے جاتاہے۔ اقبال جبر واختیار کو بھی خودی کے نظریے کے تحت دیکھتاہے۔ جبرکانظریہ انسان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیتاہے جب کہ اختیاراپنی اوردوسروں کی تقدیر بدل دیتاہے۔ اورایسے بااختیار مومن جن کی نگاہیں دوسروں کی تقدیربدل دیں ان کے زوربازو کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زوربازو کا
نگاہ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبال کا تصورخودی
اقبال زندگی بخش اورحیات آفریں قدروں کی ہمیشہ حمایت کرتے ہیں۔ جس میں انفرادی اوراجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں کونہایت خوبی سے سمویاگیاہے۔ وہ فرد کی خودی پر بڑا زوردیتے ہیں۔ مسلمان کو خودی اورخودشناسی کادرس دیتے ہیں کہ تواپنے مقام کو پہچان یہ کائنات تیرے لئے بنی ہے تو اس کائنات یا ملک کے لئے نہیں بناہے۔ خلق لکم ما فی الارض جمیعاً۔ جسے اقبال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
نہ توزمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے، تونہیں جہاں کے لئے
مگرفرد کی خودی کوضبط نفس اوراطاعت الٰہی کے تابع رکھنا چاہتے ہیں۔ فرد کی خودی سوال سے ضعیف ہوجاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلم کے ہاتھ سے اگر سلطنت بھی جاتی رہے توپرواہ نہیں کر تا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے کبھی روگردانی نہیں کرتا۔ مسلمان حکومت کے حصول کے لئے دوسری طاقت اور اقوام کی گداگری نہیں کرتا۔ مسلمان سلطنت کوکسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کے لئے تیارنہیں ہوسکتا۔ جب تک وہ خود اپنے زوربازو اورفضل الہی سے حاصل نہ کرے۔ اس کے لئے ایسی بادشاہی جو دوسری اقوام کے زیرسایہ یا مدد سے ملے وہ قومی ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔ اقبال مسلمانوں کے دوبارہ عروج کے آرزو مندتھے لیکن یہ عروج فرنگیانہ تہذیب اپناکر یاکسی شہنشاہ کی سرپرستی حاصل ہو تو یہ ان کے نزدیک گداگر ی اورکاسہ لیسی کے سواکوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ جماعت کی خودی دوسروں کی غلامی یادوسروں کا دست نگر ہونے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے اقبال حریت اورخواعتمادی پر زور دیتے ہیں۔
نگاہ فقرمیں شان سکندری کیاہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے!
مزید یہ کہ اقبال کی خاص بات اسلاف کا منہج اورماضی پر فخر ہے۔ ان کاتصورحیات دراصل اسلامی اقداروروایات پرمبنی ہے۔ اقبال کے سارے افکار کا دارومدار دین پر ہے۔ اقبال کے یہاں یہ چیز محض وجدانی طورپر نہیں بلکہ وہ اس مقام پر جدیدوقدیم فلاسفر اور موجودہ سائنسی علوم کا مطالعہ کرنے کے بعدفائزہوئے ہیں۔ اقبال اس حقیقت سے بھی کماحقہ آگاہ ہیں کہ فزکس ودیگرعلوم سائنس جن پر موجودہ زمانہ میں اہل یورپ کوناز ہے ان علومِ سائنس کے موجد اللہ کے حضور سجدہ ریزی کرنے والے مسلمان ہی تھے جن کے نقش قدم پر یورپ کے سائنسدان چل رہے ہیں۔ نیز یہ تمام سائنس کے کرشمے اسی صدائے بازگشت کُن فَکانَ کی تشریح ہے۔ اقبال مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مسلمان! تواسلام کی حقیقت اورمسلم کے مقام سے آگاہ ہوجا۔ اگرتواپنی حقیقت ومقام اورمقصد حیات سمجھ لے تو تو اس قول کے مصداق من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے مصداق بن کر گویا خدا کا ترجمان ہوسکتاہے۔ اس راز کو علامہ اقبال ان الفاظ میں عیاں کرتے ہیں :
تورازکُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پہ عیاں ہوجا
خودی کارازداں ہوجاخداکاترجماں ہوجا
وطن پرستی (مذہب کا کفن)
اقبال وطن سے محبت کرتے ہیں۔ ہندوستان کی محبت اور اسے آزاد کرانے کی خواہش ان کے اند ربدرجہ اتم موجود تھی۔ اوراس محبت کواقبال اسلام سے متصادم نہیں سمجھتے لیکن وہ وطن پرستی کے قائل نہیں ہیں۔ اقبال کے نزدیک دین مقدم ہے وطن موخر۔ انسان کی سب سے پیاری چیزاس کی جان عزیز سے بھی دین اسلام مقدم ہے۔ وطن چھوڑا جاسکتاہے، حتی کہ جان بھی قربان کی جاسکتی ہے لیکن دین نہیں۔ وہ مسلمانوں کو محبت اخوت کا درس دیتے ہیں۔ جب وطنیت اسلامی اخوت اوراتحاد کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے۔ توپھر وہی اقبال اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اسے مذہب کا کفن قراردیتے ہیں۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کاہے وہ مذہب کا کفن ہے
صفات شاہین:
شاعر مشرق، مفکراسلام، مسلمانوں کو شاہین کے نام سے موسوم کرنے والے، اس کی صفات مسلمانوں میں دیکھنے کے آرزومند۔ شاہین علامہ اقبال کا سب سے محبوب پرندہ ہے جو دنیاوی آسائشوں، دلبرانہ اداؤں، عاشقانہ نغموں اور پُرتعیش محلوں سے پرہیز کرتاہے جو اس کو تن آسانی کی طرف مائل کرکے اس کی پرواز میں کوتاہی لاتی ہیں۔ کیونکہ وہ نیلگوں آسمان کی لامتناہی وسعتوں کا دلدادہ ہے اورفطری طورپر راہبانہ زندگی کاعادی ہے۔ اقبال شاہین سے زیادہ اس کی صفات کے زیادہ قائل اوردلدادہ ہیں۔ کیونکہ یہ پرندہ اسلامی فقر کی تمام خصوصیات اپنے اندرسموئے ہوئے ہے اورآپ اس کی غیرت(کسی کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا)، راہبانہ زندگی(اپنا آشیانہ نہیں بناتا)، بلندپروازی(تمام پرندوں میں سب سے اونچی اڑان بھرتاہے)، تیزنگاہی(انتہائی اونچی اڑان بھرتے ہوئے نیچے اپنے شکار کو صاف اورواضح دیکھ لیتاہے) کے اوصاف بندہ مؤمن میں بھی دیکھناچاہتے ہیں۔
نہیں تیرانشیمن قصر سلطانی کے گنبدپر
توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر
اقبال اورتصوف
رازی عقل و استدلال اوررومی باطن کی صفائی کادرس دیتے ہیں۔ اقبال کے بنیادی خیالات اگرچہ اسلامی تصوف خصوصاً رومی کے تصوف سے ماخوذ ہیں ہیں۔ اقبال رومی کے ہمنواہیں کیونکہ معرفت کا تعلق عقل سے نہیں دل سے ہے۔ اے خدا تومجھے ایسی عقل سے بے نیاز کردے جوتیری محبت کے جنوں سے خالی ہو۔ تو مجھے اپنی محبت کا دیوانہ بنادے جیسا کہ تونے بزرگان سلف کونوازاتھا۔
خرد کی گتھیاں سلجھاچکا میں
میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
لیکن یہ صاحب جنوں ہونا اور اسرار معرفت کی عقدہ کشائی بڑی کٹھن ہے۔ بدقسمتی سے آج ہماری خانقاہوں میں توحید و رسالت، شریعت کے رموز، اسلامی تعلیمات، جہاد، اخوت، عدل وانصاف پر روشنی نہیں ڈالی جاتی اورہمارے مدارس میں حالانکہ ماضی کے مقابلے میں جدید ٹیکنالوجی اور سہولتیں زیادہ ہیں لیکن یہ علم وعمل میں پستی کاشکارہیں۔ ظاہری علوم کی ترویج کا تو کسی قدراہتمام ہے لیکن اصلاحِ باطن، تزکیہ نفس اورکردار سازی پر الاماشاء اللہ ذراتوجہ نہیں دی جاتی۔ یعنی کہ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی۔ حالانکہ ایک وقت تھا یہی خانقاہیں اسرار معرفت وحقائق کا خزانہ تھیں اورانہیں مکتبوں میں افکار عالیہ کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کابھی اہتمام تھا۔ وہ خانقاہ اورمدرسہ جہاں دل میں درد، جذبے اوراسلام کی تڑپ پیدانہ ہو اس درسگاہ اورخانقاہ سے اقبال بیزار ہے۔ اقبال بے علم صوفیوں اوربے عمل عالموں سے بیزار ہیں۔
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
ان سب کے باوجود اقبال ناکامی پر مایوس نہیں ہوتے۔ مایوسی گناہ ہے۔ مایوس ہونا مومن کی شان سے بعید ہے۔ لاتقنطوا من رحمۃ اللہ۔ وہ اپنی برباد کھیتی سے ناامید نہیں ہے۔ اگرآج بھی مسلمان اسلاف کے منہج پر عمل کرتے ہوئے اپنے دل کی کھیتی کوایمان کی چاشنی، توبہ کے آنسوؤں، نماز کے نور، ذکر ودرود شریف کی غذا اورعشق نبی ﷺ کی خوشبوؤں سے مزین کرلیں تو یہ بہت زرخیز زمین ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرانم ہو تویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
تبصرے بند ہیں۔