الیکشن بائیکاٹ یا بڑی سیاسی غلطی

الطاف حسین جنجوعہ

سال 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی کی بلندخواہشاتی، دلچسپ اور منفرد تقاریروں نے ملک بھر میں ایسی لہر چلائی کہ ہرسوں بھارتیہ جنتا پارٹی ہی مقبول ترین دکھائی دینے لگی۔ بڑے میڈیا گھرانوں کے آشرواد اور آر ایس ایس کی مدد سے بھاجپا نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ہر طرح کاپبلسٹی اسسٹنٹ بروئے کار لایا۔ ’مودی لہر‘نے بی جے پی کو غیر معمولی اور تاریخی جیت سے ہمکنار کروایا۔ ’مودی لہر‘کے سیلابی ریلے میں بھاجپا کے اُن امیدواروں کو بھی جیت ملی جوکہ آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھی انتخابات نہ جیت سکے تھے۔

پارلیمانی انتخابات کے بعد یکے بعد دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی کنول کا پھول کھلتا جارہاتھا۔ نومبر۔ دسمبر2014کوجموں وکشمیر اسمبلی انتخابات ہوئے، یہاں بھی یہ حالات زعفرانی خیمہ کے حق میں نظر آرہے تھے۔ اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے ریاست کی دو بڑی علاقائی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھاجپا کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے عوام سے ووٹ مانگنا شروع کیا۔ انتخابی مہم کے دوران بھاجپا کو Power Corridoorسے دور رکھنے کا مدعا ہی سرفہرست رکھاگیا۔ اس دوران نیشنل کانفرنس کی طرف سے متعدد لیڈران نے یہ بیانات بھی آئے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور پی ڈی پی کی اندرونی ساز باز ہے اور دونوں علاقائی ومذہبی کارڈ کھیل رہی ہیں۔ پی ڈی پی کے بھی ایسے ہی جوابی بیانات سامنے آئے۔ خیر بعد میں ایسے حالات وواقعات بنے کہ پی ڈی پی کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے الائنس کا کڑواہ گھونٹ پینا پڑا۔ نیشنل کانفرنس سمیت سبھی حزب اختلاف جماعتوں نے اس کو غیرمقدس الائنس قرار دیا۔

سال 2015سے لیکرجون2018حکومت گرنے تک حزب اختلاف بالخصوص نیشنل کانفرنس لیڈران کے لگاتار بیانات آتے رہے کہ پی ڈی پی  نے بھارتیہ جنتا پارٹی سہارا دیکر اقتدار میں ’گناہ۔ ‘کیا ہے۔ پی ڈی پی پر یہ الزامات لگائے کہ اس نے ایسی تاریخی غلطی کی ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ تین سالوں میں کشمیر کی اکثریتی آبادی نے بھی اس الائنس کو تسلیم نہ کیا۔ بہر کیف بی جے پی نے حکومت بناکرجموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ پارٹی نے اس کا فائیدہ اٹھاکر اپنے اصل ایجنڈہ کی عمل آوری، اس میں حائل رکاوٹوں، قانونی پیچیدگیوں کو باریک بینی سے سمجھااورمشاہدہ کیا۔

جون 2018کو جب لگا کہ اب کافی کچھ سمجھا جاچکا ہے کہ تو اقتدار سے بھاجپا نے کنارہ کشی اختیار کر کے گورنر رول کا نفاذ عمل میں لایا۔ چونکہ مرکز میں واضح اکثریت کے ساتھ بی جے پی کی حکومت ہے، اس لئے کسی بھی ریاست میں گورنر راج کا مطلب، دہلی سرکار کے فرمان پر عمل آوری ہے۔ پہلے این این ووہرا گورنر تھے جنہوں نے جزوی طور اسی فارمولے پر عمل کیا لیکن ناگپور اور دہلی کی ہاں میں ہاں ملانے سے کلی طور اتفاق نہ کیا جس کی وجہ سے راتوں رات انہیں باہر کا راستہ دکھا کر بی جے پی قیادت نے اپنے دستِ راست اور سب سے بھروسے مند ستیہ پال ملک کو بہار سے یہاں لاکر راج بھون کی کمان تھمائی۔ گورنر ستیہ پال ملک کی بیک گراؤنڈ چونکہ سیاسی ہے اس لئے انہوں نے یہاں آکر ایک بیروکریٹ کی بجائے سیاستدان کے طریقہ سے حالات وواقعات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن کشمیر میں عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپریشن میں سختی برتی گئی اور ساتھ ہی حریت قیادت واعلیحدگی پسندوں پر بھی مکمل پکڑبنائی گئی۔

ستیہ پال ملک کی سربراہی والی گورنر انتظامیہ نے نئی دہلی کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے ہرحال میں بلدیاتی وپنچایتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ آئین ِ ہند کی دفعہ35-Aجس کے تحت جموں وکشمیر ریاست کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں (غیر ریاستی شہری مالکانہ حقوق اور یہاں سرکاری ملازمتیں حاصل نہیں کرسکتے)، کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے پر ریاست کی بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے الیکشن بائیکاٹ کر دیا۔ اس نے الیکشن میں حصہ لینے کی یہ شرط رکھی کہ اگرمرکزی سرکاریہ یقین دہانی کرائے کہ دفعہ35-Aسے چھیڑچھاڑ نہ کی جائے گی تو وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے۔ مرکز نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ پی ڈی پی نے سوچاکہ نیشنل کانفرنس نے ایسا کر کے بڑا سیاسی پتہ پھینکا ہے اور اس سے کشمیری عوام کی حمایت اس کو حاصل ہوجائے گی، تو پی ڈی پی نے بھی الیکشن بائیکاٹ کر دیا۔ دونوں جماعتوں کو اس کا کیا فائیدہ ہوا اور کیاہوگا اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن فی الوقت جونقصان نظر آرہا ہے، وہ یہ کہ دونوں جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر صوبہ کے اندر بلدیاتی چناؤ میں کامیابی حاصل کی۔

اب تک 250سے زائد بی جے پی سے وابستہ امیدوار بلامقابلہ متعدددمیونسپل، کونسل اور کارپوریشن کے وارڈوں سے بلامقابلہ کامیاب قرار دیئے جاچکے ہیں اور 20اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ سرینگر میونسپل کارپوریشن کا میئر بی جے پی سے ہوگا۔ پارٹی ریاستی صدر راویندر رینہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 20اکتوبر کے بعد کشمیر میں طمطراق کے ساتھ کنول کا پھول کھلے گا۔ یاد رہے کہ آج تک کشمیروادی کے اندر بی جے پی نے کسی بھی الیکشن میں جیت درج نہ کی تھی۔ بی جے پی نے ایسے حالات پیدا کئے کہ علاقائی سیاسی جماعتوں نے غلطیاں کیں اور ان غلطیوں سے بھرپور فائیدہ اُٹھایا۔ پی ڈی پی نے جہاں بی جے پی کو حمایت دیکر حکومت بنواکر اگر بڑی غلطی کی تو نیشنل کانفرنس نے بھی الیکشن بائیکاٹ کال دیکر ’گناہ کبیرہ‘کا ارتکاب کیا ہے۔

اگر یہ جماعتیں بائیکاٹ نہ کرتیں تو کشمیر صوبہ سے بی جے پی کے لئے ایک بھی نشست جیتنا ممکن نہ تھا۔ ان انتخابات کو ’کشمیر مسئلہ‘اور ریاست کے دیگر سیاسی معاملات سے جوڑنے کا اس لئے کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ اربن لوکل باڈیز اور پنچایتی اداروں کا مقصد صرف علاقائی تعمیر وترقی اور لوگوں کے چھوٹے مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ ادارے کوئی قانون نہیں بناتے۔ قانون سازی کا اختیار صرف قانون سازیہ(اسمبلی اور کونسل) کو ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی اس غلطی سے بلدیاتی اداروں میں تاریخی متوقع کامیابی کے بعد اب پنچایتی چناؤ میں بھی بھاجپا کے حوصلے ساتویں آسمان پر ہیں اور اس کو ’پارلیمنٹ سے لیکر پنچایت تک‘ قبضہ کی مہم کافی حد تک کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

جموں وکشمیرریاست کے لوگوں کی یہ بدقسمتی کہئے یا بدبختی کہ ان کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے لیڈران نے ہمیشہ نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کئے۔ ایسے فیصلوں کی وجہ سے ریاست کے حالات واقعات اس ڈگر پر پہنچے ہیں۔ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کب تک قوم کے ٹھیکیدار کہلانے والے ہمارا سودا کرتے رہیں گے، کب تک ریاستی عوام کا استحصال ہوتارہے گا……آخر کب تک؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔