شہروں کے نام تبدیل کرنے کی سیاست

سید منصورآغا

مودی سرکار کے مجوزہ پروجیکٹوں میں جس کا بہت شوررہا، دو سواسمارٹ سٹی بنانے کا تھا۔ جن میں سے ابھی تک ایک بھی وجود میں نہیں آیا۔ البتہ کئی شہروں کے نام بدل دئے گئے۔ اسمارٹ سٹی ایسے منصوبہ بند شہرکوکہتے ہیں جس میں تمام سہولتیں چٹکی بجاتے دستیاب ہوں اوراس کی فضا ہراعتبار سے صحت بخش ہو۔ یہ بلٹ ٹرین جیسا ہی ایک تصورہے۔ ظاہر ہے عوام سے وصول کئے گئے ٹیکس سے اگرایسا کوئی شہر کبھی بن بھی گیا تو وہ صرف انتہائی دولت مندوں کیلئے ہوگا۔ غریب عوام کا اس میں گزرہوابھی توصرف سبزی فروشی، گھریلو خدمت گزاری اورجھاڑوپوچھا وغیرہ کرنے تک محدود ہوگا۔ بہرحال دکھانے کو ہوگا کہ ہمارے پاس بلٹ ٹرین بھی ہے اوراسمارٹ سٹی بھی۔ جنتا کا کیا ہے۔ دورسے دیکھے گی اورخوش ہولے گی۔ رواں سال کی بجٹ تقریرمیں ان شہروں کی تعداد 99 بتائی گئی تھی۔ اعلان کیا گیا تھا کہ پہلے مرحلے کیلئے 20 شہر چن لئے گئے ہیں۔ بقول شاعر یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’بستی بسانا کھیل نہیں ہے؍ بستے بستے بستی ہے۔ ‘‘ مگرپچھلے چار، پانچ سال میں جس رفتار سے کام ہوا اس سے تو پچاس سال میں بھی ناکافی ہونگے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب خود کچھ نیا کرنا حکمرانوں کے بس کا نہیں ہوتا تودوسروں کے کئے ہوئے کاموں پر اپنی تختیاں لگادیا کرتے ہیں۔ آزادی کے بعدسے ہی ہمارے ملک میں نیا شہرتوایک آدھ ہی بسا ہے، البتہ قدیم شہروں کے نام بدل کرنئے نام رکھنے کے آسان نسخہ پرخوب عمل ہورہا ہے۔ چنانچہ بمبئی کانام ممبئی، مدراس کا چنَّئی، تروندرم کا تھرواننت پورم وغیرہ۔ اس کے ساتھ ایک لہر مسلم ناموں سے موسوم شہروں اورقصبوں کے نام بدلنے کی چل رہے۔ چنانچہ احمد نگراب صرف نگررہ گیا، آگرہ کا آرام باغ، رام باغ ہوگیا، مہاراشٹرکا ضلع بیر(عربی لفظ معنٰی کنواں) اب بیڑ ہوگیا، اسی ضلع کا قصبہ مومن آباد امباجوگائی بن گیا اوردولت آباد کودیواگری کہا جانے لگا۔ حال ہی میں راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا نے ریاست کے بیس ایسے گاؤں کے نام تبدیل کرنے کا اعلا ن کیا جو مسلمانوں سے موسوم تھے۔ چند ماہ قبل یوپی حکومت نے تاریخی مغل سرائے جنکشن کا نام تبدیل کرکے دین دیال اپادھیائے جنکشن کردیا۔ اب الہ آباد کا نام پریاگ راج کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، حالانکہ الہ آباد کو قدیم زمانے سے پریاگ راج بھی کہا جاتا ہے۔

ریاستی تخریب کاری:

ایک معروف انگریزی روزنامہ نے مسلم ناموں کو مٹاکر دوسرے نام رکھے جانے کی سیاست پر ’ریاستی تخریب کاری ‘ کے عنوان سے اداریہ (17اکتوبر)لکھا ہے۔ اخبارلکھتا ہے، ’الہ آباد کا نام تبدیل کرنا تاریخ اور قوم کی یاداشت کو مٹانے جیسا ہے۔ اس سے ایسی سیاست کی بوآتی ہے جو’ سب کا ساتھ‘ کے بجائے بس ایک گروہ کیلئے مخصوص ہے۔ الہ آباد کے باشندوں نے کبھی شہرکا نام بدلنے کا مطالبہ نہیں کیا، اس لئے اس فیصلے سے من مانی اور(فرقہ پرستانہ )سیاست کی بوآرہی ہے۔ ‘ اخبار نے یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ ’الہ آباد ایک زمانے سے علمی، ثقافتی، صنعتی، حرفتی اورتجارتی اعتبار سے کثیرجہتی وکثیر ملی شہر رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں اس کی قدیم عظمت میں گراوٹ آئی ہے۔ نام تبدیل کردینے سے نہ تو یہ گراوٹ رک جائے گی، نہ شہریوں کا کوئی مسئلہ حل ہوگا۔ ‘‘

مقدس سنگم اوراکبر :

الہ آباد دواہم ندیوں گنگا اورجمنا کے سنگم سے قریب دوکلومیٹر فاصلہ پر آباد ہے۔ کہا جاتا ہے اسی سنگم میں سریوندی بھی، جس کا اب سراغ نہیں ملتا، ملتی تھی۔ اسی لئے اس سنگم کو’ تروینی سنگم‘ کہتے ہیں۔ یہ دریا اوران کا سنگم برادران وطن کیلئے انتہائی مقدس ہیں۔ سنگم کے پاس ایک وسیع وعریض میدان ہے، جو قدیم زمانے سے پریاگ کہلاتا ہے۔ اسی میں کنبھ میلہ لگتا ہے۔ اسٹیشن پر اترکراگررکشہ سے کہا جائے، پریاگ جانا ہے تووہ سیدھا سنگم کی طرف لے جائے گا۔ 16ویں صدی کی بات ہے، جب اکبربادشاہ ہندوؤں کے اس مقدس مقام پر پہنچا تواس کا دل وہیں اٹک گیا۔ اس نے کچھ فاصلہ پر ایک قلعہ تعمیر کرایا جس سے سنگم نظرآتا تھا۔ قدیم آبادی سے الگ ایک شہرکی بنیاد ڈالی جس کا نام ’الہ آباد ‘ رکھا۔ قرینہ کہتا ہے کہ ’ الہ‘ کی یہ مناسبت اس کے جاری کردہ ’دین الٰہی‘ سے ہے۔ اکبرکو اس دور میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا خیال آیا تھا جب یوروپ میں مختلف عیسائی گروہوں (چرچز)کے درمیان جنگ وجدال جاری تھا۔ اکبرکا یہ مذہبی نظریہ اوررویہ کسی کواچھا لگے یا برا، لیکن اُس سے اس بناء پرنفرت کہ وہ مغل بادشاہ تھا، ہرگز جائز نہیں۔ اس کے دور حکمرانی پر کہیں ایک چھینٹ بھی ایسی نظرنہیں آتی جو ہمارے کسی ہندوبھائی کی دل آزاری کی وجہ بنے۔ غورکیجئے، اس دور میں بغیرمذہب تبدیل کرائے ایک غیرمسلم خاتون کو اپنی مہارانی بنالینا اورخود اس کے رنگ میں رنگ جانا، کیا آر ایس ایس اوربھاجپا کے اس فلسفہ کا پیش رو نہیں ہے جس میں وہ اس ملک کے تمام غیرہندوؤں کو رنگ دینا چاہتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے، ’ساون کے اندھے توسب ہرا ہی ہرا نظرآتا ہے۔ ‘اس حکومت کی عقل پرمسلم دشمنی کاجو پردہ پڑگیا ہے اسی کی بدولت تاج محل کو ریاست کے اہم سیاحتی مقامات کی فہرست سے خارج کیا گیا۔ اسی بناء پر پہلے مغل سرائے جنکشن کا نام بدلا اوراب الہ آباد کا۔ عجب نہیں کہ کچھ دنوں میں لکھنؤ ’لکشمن نگر‘ بن جائے اورمظفرنگرکا نام یوگی نگرہوجائے۔ شہروں کے نام تبدیل کرنے کا یہی کام مایاوتی نے بڑے پیمانے پرکیا جو سابق میں بھاجپا کے ساتھ شریک رہ چکی ہیں۔

مذکورہ اخبارنے بجا لکھا ہے، ’ محسوس ہوتا ہے کہ مغلوں سے الہ آباد کا تاریخی تعلق ہی اس انتقامی اقدام کی وجہ بناہے جو مغل تاریخ کے تمام حوالوں کو مٹاڈالنا چاہتا ہے۔ ‘ اخبار نے یاد دلایا ہے کہ بھاجپا کے ایک ترجمان نے مغل سرائے اورالہ آباد کے ناموں کی تبدیلی کو گنگا صفائی پروجیکٹ سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اوریہ تجویز کیا تھا، ’ ہندوؤں کیلئے مقدس دریا کے کنارے کوئی ایسا مقام نہیں ہونا چاہئے جو مغل حکمرانوں سے وابستہ ہو۔ ‘‘

تعصب اورانتقام کا جذبہ انسان کی عقل کو مسخ کردیتا ہے۔ کیا نام بدل دینے سے گنگا کی گندگی ختم ہوجائیگی؟ کیا اس کی تاریخ اور شکل وصورت بدل جائے گی؟ نام بدل دینے سے کیا الہ آبادی امردو بازار میں پریاگ راجی امرود کہلانے لگیں گے؟ سنگم کے کنارے ’اکبری قلعہ‘ اوراسٹیشن کے پاس ’خسرو پارک‘ جیسی تاریخی عمارات کو کیا مٹادیں گے؟ ’آل سینٹ کیتھڈرل‘ کو کیا مندر بنادیں گے؟ ایک شہر کا نام بدلنے پر کثیررقم خرچ ہوتی ہے۔ اس کواگرترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جاتا توالہ آباد؍پریاگ راج کے باشندوں کوکچھ راحت مل سکتی تھی۔

اس شہر سے نہروفیملی کا ہی نہیں آرایس ایس پرمکھ پروفیسرراجندرسنگھ عرف رجو جی، پروفیسرمرلی منوہرجوشی اوراشوک سنگھل کا تعلق بھی ہے۔ اسی شہر سے ملک کے دو وزیراعظم لال بہادر شاستری اوروی پی سنگھ چن کرآئے۔ اسی شہر سے رام منوہر لوہیا نے اپنی تحریک چلائی۔ ملک کی سیاست، صنعت وتجارت، شعبہ تعلیم وثقافت غرض زندگی کے ہر شعبہ کو الہ آباد یونیوسٹی نے ہزاروں لعل دئے ہیں۔ ہائی کورٹ کی بدولت سینکڑوں قانون داں یہاں آئے اوربس گئے، جن میں کشمیری بھی ہیں، بنگالی بھی، یوپی کے مختلف شہروں کے باشندے اوردیگربھی ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں، مسلمان، سکھ اورعیسائی بھی۔ الہ آباد ایک چھوٹا سا ہندستان ہے۔ کثیر مذہبی، کثیرثقافتی اورکثیر تہذیبی۔ اورہاں اسی شہر میں الہ آباد ہائی کورٹ کی سیشن جج اکبرحسین رضوی بھی ہوئے ہیں، جن کو ہم اکبر الہ آبادی کے نام سے جانتے ہیں، کیا خوب نصیحت کرگئے ہیں:

اگر مذہب خلل انداز ہے ملکی مقاصد میں
تو شیخ و برہمن پنہاں رہیں دیر و مساجد میں

آخری بات:

مذکورہ اداریہ نے آخر میں لکھا ہے کہ بھاجپا لیڈروں کی یہ خواش کہ یوپی کی سیاسی، سماجی اورثقافتی زندگی سے اسلامی اثرات کو قطعی خارج کردیا جائے، نہایت خطرناک ہے۔ ریاست میں مسلم آبادی 20 فیصد ہے جو تین کروڑ اسی لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ یہ کیرالہ ریاست کی کل آبادی کے برابر ہے۔ ایسی بڑی آبادی کو عوامی زندگی میں اس کا مناسب حصہ نہ دینا ایک فرقہ کیلئے سیاست کو خالص کرنا ہے۔ گزشتہ دوانتخابات میں بھاجپا نے لوک سبھا کی 80 اور اسمبلی کی 403سیٹوں میں سے ایک پربھی کسی مسلمان کو ٹکٹ دینے سے انکارکردیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست میں اچھوت بنانے کی پالیسی کو پارٹی زندگی کے ثقافتی اورسماجی شعبوں میں بھی توسیع دینا چاہتی ہے۔ ‘‘

ہمارے لئے راہ عمل :

اس تجزیہ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم محاذ آرائی اوراپنے حق کے مطالبات کی دیرینہ سیاست پرازسرنو غور کریں جس کا کوئی مفید نتیجہ برآمد ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہی پہنچا ہے۔ اس صورت کے مقابلے کیلئے ہمیں اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی اوراس کا ایک نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے حصارسے باہرنکلیں۔ اپنی فلاحی اسکیموں کو توسیع دیں اورآگے بڑھ کر دبے، کچلے، مظلوم اورپسماندہ غیرمسلم طبقوں کی دستگیری کریں، ان کے زخموں پر مرہم رکھیں تاکہ ماحول میں تبدیلی آئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔