زلزلہ: اصلاح نفس سے غفلت کا انجام

عبدالکریم ندوی گنگولی

 اس میں کوئی شک نہیں کہ زلزلوں اور مختلف عذابا ت کا نزول انسانی زندگی کے آرزؤں، تشنہ امیدوں اورخام تمناؤں کو ایک ایسے تاریک ترین قبرستان میں دفن کردینے کا نام ہے جس کی ویرانیوں میں نہ جانے پچھلی قوموں اور امتوں کے کس قدر حسرتوں کے انبار مدفون ہیں اور کتنے حسین ویادگار خواب پوشیدہ ہیں جو کبھی کسی وقت شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے، لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ زلزلے اور عذابات من جانب اللہ پھٹکار اوربندوں کی زبردست پکڑ ہے اور انسانوں کے لئے راہ ہدایت پر چلنے اور سچے پکے دل سے توبہ واستغفار کرنے کا عظیم موقعہ ہے، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جگہ جگہ فرمایا ہے، باوجود ان واضح قرآنی ونبوی تعلیمات کے انسان کی ازل سے فطری کمزوری رہی ہے کہ وہ خارجی خطرات اور ظاہری نقصانات کا یقین تو رکھتا ہے لیکن ان کے اسباب پر نظر نہیں دوڑاتا، بلکہ وہ مادی ومنفی فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر عقلی گھوڑے دوڑانے لگتا ہے اور اسی کو اپنی پوری طاقت وتوانائی، ہمت وقربانی اور توجہات والتفات خرچ کرنے کا مرکز سمجھ کر اپنی پوری زندگی کے حسین لمحات بیکار کردیتا ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟اس لئے کہ !خارجی وداخلی خطرات، دنیوی زندگی سے لاغر وناچار، زندگی کے ہر موڑ پر مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہونا اور آسمانی وزمینی آفات وبلیات کے شکنجہ میں جکڑ جاناانسان کے اپنے برے اعمال وافعال، اصلاح نفس اور قلب وضمیر سے غفلت کا انجام ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون بھی اسی پر مبنی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ظَھَرَالْفَسَادُ  فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ  اَیْدِی  النَّاسِ  لِیُذِیْقَھُمْ  بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْالَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْن‘‘(سورۃ الروم :۴۱)خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔

        قرآن کریم نے اصلاح نفس سے غفلت اور قلب وضمیر سے کوتاہی ولاپرواہی کے متعدد لازوال انسانی نمونے پیش کئے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری واحسان فراموشی کا انجام بھی واضح فرمایا ہے مثلاً اس کی مثال ایک ایسی بستی سے دیتا ہے جہاں کے باشندے غفلت شعاری و آرام طلبی میں ڈوب کر اللہ کی نعمتوں کو فراموش کرکے اپنی خوشحالی پر اترانے لگے تھے، ارشاد ربانی ہے’’وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا  رَغَدًا  مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ  بِاَنْعُمِ اللّٰہِ  فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْن‘‘(سورۃ النحل:۱۱۲)اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے (ہر طرح)امن وچین کی بستی تھی، ہر طرف سے رزق با فراغت چلا آتا تھا مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا )مزہ چکھادیا۔

جس وقت رسول ﷺ کی بعثت ہوئی اور اسلام چہار دانگ عالم میں پھیلنے اور پھولنے لگا تو مطالبہ صرف دعوت ایمانی اختیار کرنے، شرک سے توبہ اور کفر سے بچنے کا نہیں تھا بلکہ پوری ایک تہذیب وتمدن، طرززندگی، مقصد حیات بھی عطا کیا گیا جس پر خداکی رحمت، پسندیدگی وخوشنودی کا دارومدار ہے اور ساتھ ہی ساتھ راندۂ درگاہ اور مغضوب علیہم قوموں کا شعار اور طریقہ ٔ زندگی سے اجتناب کا بھی مطالبہ کیا گیااور مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ قومیں عنداللہ معتوب ہیں تو تم بھی انہیں قابل نفرت سمجھو اور اس بات کی تنبیہ کی گئی کہ ان کا کلچر وتہذیب کا اختیار کرنا گویا اپنے آپ کو دوزخ کی آگ میں جلانے کے مانند ہے

’’وَلَا  تَرْکَنُوْٓا اِلَی  الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ‘‘(سورۃ الھود:۱۱۳)

دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی)آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہ ہوگا اور نہ تم مدد کئے جاؤگے۔

  ذرا غور کیجئے کہ صدیاں گذرگئیں، عروج وزوال کی داستانیں رقم ہوتی رہیں لیکن کیا آج پھر انسانیت انھیں پستیوں کے شکنجہ میں نہیں ہے، جس پستیوں سے نبی آخرالزماں ﷺ نے نکالا تھا، کیا آج جاہلیت کے علمبردار کردار کشی اور انسانیت سوزی کی اس سے بھیانک اور بدترین تصویریں نہیں پیش کر رہے ہیں، دور جاہلیت کی کون سی ایسی برائی ہے جو آج موجود نہ ہو، بلکہ بے حیائی وفحاشی کو جدت اور ماڈرن ایج Modern age کا فیشن قرار دے کر اپنا یا جارہا ہے، فسادات کی وارداتوں کا جائزہ لیجئے تو جاہلیت بھی ماتم کرنے لگے، نفاق اور سازش کی بھیانک تصویریں، ظلم وبربریت کا ننگا ناچ، نفرت وتعصب کی بھڑکتی آگ، انسانوں کے خون کی پیاس، عدم اخلاص اور بے رحمی کی بے پناہ مثالیں، رشوت وسود کی گرم بازاری، عریانیت وفحاشی کی متعدی وبائیں، وہ بھی ایسی مہلک کہ قابل احترام رشتوں کو بھی تارتار کردیں، مادیت کی پوجا، دنیا پرستی اور حرص وہوس کی تلاطم خیزی اور انسانی لبادہ میں درندہ صفت ودرندہ خصلت سیاست دان وحکمران اور غریبوں کا خون چوسنے اور ان کے ہاتھوں سے روٹی کا نوالہ چھیننے والے پیٹ کے پجاریوں کی بدترین مثالیں ہیں، جن پر وہ دور کیا اس دور کے درندے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں، یہی وہ انسان ہے جس نے ایک تاریخ رقم کی تھی اور انسانیت کو امانت ودیانت اور صداقت وامامت کا سبق دیا تھا، اسی لئے تو جگر مرحوم نے کہا تھا۔

  گھٹے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں

  بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکیں

        یہ بات بالکل صاف وشفاف آئینہ کی طرح واضح ہے کہ جو بھی انسان قرآنی آیات اور نبوی احادیث کو بالائے طاق رکھ کرنفس اور قلب وضمیر کی اصلاح سے بے بہرہ ہوکر اسلام پسند دشمنوں کے طور طریق، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال کے مطابق زندگی گذارتا ہے تو وہ خدا فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے اور یہی خدا فراموشی انسان کی ہدایت اور من جانب اللہ رحمت کے تمام راستوں کے لئے سد راہ بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ خود فراموش بنادیا جاتا ہے اور تاریخ اس بات پر گواہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کو چھوڑ کر زندگی بسر کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھلادیا اور ان پر دوسروں کو غلبہ عطا کیا حتی کہ دنیا ہی میں انہیں مختلف قسم کے عذابات میں مبتلا کرکے زندگی کو دوبھر کردیا، چاہے زمانہ ان عذابات کو سونامی(tsunami) بوکنپ (bocomp) زلزلہ ((earthquakeوغیرہ کے نام ہی سے کیوں نہ پکارتا ہو، اور قرآن مجیدنے بھی امت مسلمہ کو اس بات کی تنبیہ فرمائی کہ تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجو خدا فراموش بن گئے کیوں کہ اس کا نتیجہ خود فراموشی ہے

’’وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوااللّٰہَ فَاَنْسٰئھُمْ اَنْفُسَھُمْ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْن‘‘(سورۃ الحشر:۱۹(

اورتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجنہوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا اور ایسے ہی لوگ نافرمان فاسق ہیں۔

آج کے اس پر فتن دورمیں امت مسلمہ کی اکثریت راحت طلبی، عیش کوشی، تن آسانی اور سکون پسندی کے گرداب میں پھنس کر اخروی عذابات اور میدان محشر کے مصائب ومشکلات کو بھلا بیٹھی ہے، نہ اپنی اصلاح کی فکر اور نہ ہی اہل خانہ کی بے ایمان زندگی کی تڑپ دامن گیر ہے بلکہ دنیا کی دلفر یبیوں ورعنائیوں میں اتنے  مست ہیں کہ انجام بد کی خبر نہیں !جب کہ قرآن مجید اپنے دامن حق میں چراغ ہدایت لے کر واضح انداز میں صراط مستقیم پر چلنے کا حکم دیتا ہے اور سب سے پہلے اپنی اصلاح اور پھر اہل خانہ کی اصلاح وتزکیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ جہنم کی اس آگ سے بچیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر بنیں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے

’’ یاَیُّہَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  قُوْٓا  اَنْفُسَکُمْ  وَاَھْلِیْکُمْ  نَارًا وَّقُوْدُھَا  النَّاسُ  وَالْحِجَارَۃُ  عَلَیْھَا  مَلٰٓئِکَۃ’‘  غِلَاظ’‘  شِدَاد’‘  لَّا یَعْصُوْنَ  اللّٰہَ  مَآ اَمَرَھُمْ  وَیَفْعَلُوْنَ  مَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘(سورۃ التحریم:۶)

اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔

 بندۂ مؤمن کا کام تویہ ہے کہ جب بھی چھوٹا بڑاعذاب یا مصیبت آئے تو سب پہلے اس کے نزول کا سبب تلاش کرے اور گذرے ہوئے لمحات کا احتساب کرتارہے، مستقبل کا خاکہ تیار کرتا رہے، ماضی کی کوتاہیوں سے عبرت ودرس لیتا رہے اور کامیابیوں کو مشعل راہ بنا کر مستقبل کا سفر حیات رضائے الہی کے سائے میں طے کرتا رہے اور ضلالت وگمراہی کی تاریکی سے نکل کر مردہ ضمیر اور بیمار ذہنیت کو تعلیمات نبوی اور احکامات ربانی کے سرچشمہ سے سیراب کر کے روحانی شفاء حاصل کرے، تاکہ اللہ تعالی کے غیظ وغضب اور اس کی ناراضگی سے تحفظ کا سامان فراہم ہوسکے ورنہ عذابات اور زلزلوں کا ورود ہمارے اپنے کرتوتوں، بداعمالیوں، اخلاقی دیوانہ پن، ہماری ذہنی پستی کا نتیجہ اور اصلاح نفس سے غفلت کا انجام ہے۔

تبصرے بند ہیں۔