انسان اور زمین کی حکومت (قسط 110)
رستم علی خان
گو کہ ابن ہشام نے بت پرستی کی مخالفت کرنے والوں میں انہی چاروں کا نام لکھا ہے لیکن اور تاریخی شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں اور متعدد اہل نظر پیدا ہو گئے تھے جنہوں نے بت پرستی سے توبہ کی تھی- ان میں سب سے زیادہ مشہور عرب کا نامور خطیب قس بن ساعدہ لایادی ہے- اس کا تذکرہ آگے آتا ہے- ایک شخص قیس بن شبہ تھا جس کی نسبت حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں خدا پرست ہو چکا تھا اور آنحضرت صلعم کی بعثت پر مشرف بااسلام ہوا تھا-
یہ تحقیق نہیں کہ دین ابراہیمی کو دین حنفی کیوں کہتے ہیں قرآن مجید میں یہ لفظ موجود ہے لیکن اس کے معنی میں اختلاف ہے- مفسرین لکھتے ہیں کہ؛ "چونکہ اس دین میں بت پرستی سے انحراف تھا اس لیے اس کو دین حنفی کہتے ہیں”- کیونکہ حنف کے معنی انحراف کے ہیں- عبرانی اور سریانی زبانوں میں حنیف کے معنی منافق اور کافر کے ہیں- ممکن ہے کہ بت پرستوں نے یہ لقب دیا ہو اور موحدین نے فخریہ قبول کر لیا ہو-
یہ امر اکثر روایتوں سے ثابت ہے کہ عرب اور حصوصا مکہ اور مدینہ میں متعدد افراد بت پرستی سے منکر ہو گئے تھے اور ملت ابراہیمی کی جستجو میں تھے- یہ اس لیے کہ مجدد ملت ابراہیمی کے ظہور کا وقت قریب آ گیا تھا- ان چند راہ طلب اور حقیقت جو اشخاص کے وجود کی بنا پر مصنفین یورپ کہتے ہیں کہ مذہب صحیح اور توحید خالص کا رواج عام عرب میں اسلام سے پہلے بھی موجود تھا- لیکن اگر یہ صحیح ہے تو حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلام کے ظہور پر اتنا ہنگامہ کیونکر برپا ہوا-
کیا عرب میں ان مذاہب نے کچھ اصلاح کی؛ جیسا کہ پیچھے بیان ہوا کہ عرب میں تمام مشہور مذاہب موجود تھے- یہودیت بھی، نصرانیت بھی، مجوسیت بھی، حنیفیت بھی اور عقلی بلند پروازی کی معراج الحاد بھی، لیکن ان سب کا نتیجہ کیا تھا؟ عقائد کے لحاظ سے یا تو خداوں کی وہ کثرت جس کو نصرانیت نے بہت گھٹایا تاہم تین کی تعداد سے کم نہ کر سکی- اس کے ساتھ یہ اعتقاد کہ حضرت عیسی خود سولی پر چڑھ کر تمام بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ بن گئے- یا توحید تھی لیکن خدا اس قسم کا تھا جو آدمیوں سے کشتی لڑتا تھا-
بتوں پر آدمیوں کی قربانی چڑھائی جاتی تھی- باپ کی منکوحہ بیٹے کو وراثت میں ملتی تھی- حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ شادی جائز تھی- ازواج کی کوئی حد نہ تھی- قماربازی، شراب خوری، زنا کاری کا رواج عام تھا- بےحیائی کی یہ حالت تھی کہ سب سے بڑا نامور شاعر امراء القیس جو شہزادہ بھی تھا، قصیدہ میں اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ اپنی بدکاری کا قصہ مزے لے لیکر بیان کرتا ہے- اور یہ قصیدہ کعبہ پر آویزاں کیا جاتا ہے-
لڑائیوں میں لوگوں کو زندہ جلا دینا، عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالنا، معصوم بچوں کو تہہ تیغ کرنا عموما جائز تھا- عیسائیوں کے بیان کے مطابق عرب قبل اسلام تمام مذاہب میں سب سے زیادہ عیسائیت سے متاثر تھا- تاہم اس اثر کا کیا نتیجہ تھا اس کے بارے ایک عیسائی مورخ لکھتا ہے؛ "عیسائیوں نے عرب کو پانچ سو برس تعلیم و تلقین کی اس پر بھی خال خال عیسائی نظر آتے تھے- یعنی بنو حارث نجران میں، بنو حنیف یمامہ میں اور کچھ بنی طے میں عیسائی تھے باقی حیریت….بالآخر عرب کو من حیث المذہب دیکھئے تو اس کی سطح پر عیسائیوں کی ضعیف کوششوں کی کچھ حفیف سی موجیں لہراتی نظر آتی تھیں اور یہود کی قوت بھی کبھی بڑی شدت سے طغیانی کرتی نظر آتی تھی- لیکن بت پرستی اور بنو اسماعیل کے بےہودہ اعتقادات کا دریا ہر سمت سے جوش مارتا ہوا کعبہ سے آ کر ٹکراتا تھا-
یہ حالت صرف عرب کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام دنیا میں یہی تاریکی چھائی ہوئی تھی- (اس کی تفصیل آگے آئے گی-) کیا اس عام ظلمت اس عالمگیر تیرگی اس وسیع اور ہمہ گیر تاریکی میں ایک آفتاب عالم تاب کی حاجت نہ تھی؟
سلسلہ اسماعیلی: یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مورخین عرب نے عرب کی تین قسمیں کی ہیں- "عرب کی وہ قدیم قومیں جو بلکل برباد ہو گئی ہیں مثلا طسم و جدیس وغیرہ-” "خالص عرب جو قحطان کی اولاد ہیں مثلا اہل یمن اور انصار-” اور تیسرا سلسلہ اسماعیلی جنہیں عدنانی قبائل بھی کہا جاتا ہے- حضرت اسماعیل جب مکہ میں آباد ہوئے تو حوالی مکہ میں بنو جرہم آباد تھے- حضرت اسماعیل نے اس خاندان میں شادی کی اس سے جو اولاد ہوئی وہ عرب مستعربہ کہلاتی ہے- اب عرب کا بڑا حصہ اسی خاندان سے ہے-
پیغمبر اسلام صلعم اور خود اسلام کی تمام تر تاریخ اسی اخیر سلسلہ سے وابستہ ہے کہ آنحضرت صلعم حضرت اسماعیل کے ہی خاندان سے ہیں- اور جو شریعت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی وہی شریعت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی- چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے؛ "تمہارے باپ ابراہیم کا مذہب یہی ہے اور اسی نے پہلے پہل تمہارا نام مسلم رکھا (اور اس قرآن نے بھی)
لیکن یورپ کے بہت سے متعصب مورخ سرے سے ان حقائق کے منکر ہیں- یعنی نہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام عرب میں آئے اور نہ ہی انہوں نے کعبہ کی بنیاد رکھی اور نہ ہی آنحضرت صلعم حضرت اسماعیل کی اولاد سے ہیں- چونکہ ان مباحث نے مذہبی تعصب کی صورت اختیار کر لی ہے اس لیے یہ توقع مشکل ہے کہ ہم اس بحث کو اس طرح طے کر سکیں گے کہ استدلال کی بنیاد یورپ کے مسلمات پر رکھی جائے- جو واقعات مختلف فیہ ہیں بہت ہیں- لیکن اصولی امور صرف وہ ہیں- جن میں دونوں فریق کا کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتا- یہ اصول جس فریق کے موافق طے ہوں اسی کے فرعی جزئیات اسی کے موافق تسلیم کر لینے چاہئیں- اصول مذکورہ حسب زیل ہے-
1: حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل مکہ میں آ کر آباد ہوئے یا نہیں-
2: حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق کو قربانی کرنا چاہا تھا یا حضرت اسماعیل کو-
یہود مدعی ہیں کہ ذبیح حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں اور اسی بنا پر وہ قربان گاہ کا موقع شام بتاتے ہیں- لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ذبیح حضرت اسحاق نہیں بلکہ حضرت اسماعیل تھے تو قربانی گاہ کے موقع کی نسبت عرب ہی کی روایتیں تسلیم کرنی پڑیں گی اور اس حالت میں تاریخ کی تمام کڑیاں متصل ہو جائیں گی-
تورات میں مذکور ہے کہ "حضرت ابراہیم کی پہلی اولاد حضرت حاجرہ کے بطن سے ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا- حضرت اسماعیل کے بعد حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق پیدا ہوئے- حضرت اسماعیل جب بڑے ہوئے تو حضرت سارہ نے یہ دیکھ کر کہ وہ حضرت اسحاق سے گستاخی کرتے ہیں تو حضرت ابراہیم سے کہا کہ حضرت حاجرہ اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو-” ان واقعات کے بعد تورات کے خاص الفاظ یہ ہیں کہ؛
"تب ابراہم نے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور اس کو حاجرہ کے کاندھے پر دھر دیا اور اس لڑکے کو بھی رخصت کیا- وہ روانہ ہوئی، بیر سبع کے بیابان میں بھٹکتی پھرتی تھی اور جب مشک کا پانی ختم ہو گیا تب اس نے اس لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا اور آپ اس کے سامنے ایک تیر کے پٹے پر دور جا بیٹھی کیونکہ اس نے کہا کہ میں لڑکے کا مرنا نہ دیکھوں سو وہ سامنے بیٹھی اور چلا چلا کر روئی- تب خدا نے اس کے رونے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتے نے آسمان سے حاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا، اے حاجرہ ! تجھ کو کیا ہوا، مت ڈر، کہ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی- اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اس کو اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناوں گا- پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور جا کر اپنی مشک کو پانی سے بھر لیا اور اس لڑکے کو پلایا اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر انداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت بیاہنے کو لی-” (تورات سفر پیدائش باب 41)
اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل جب گھر سے نکالے گئے بلکل بچہ تھے چنانچہ حضرت حاجرہ نے مشک کو اور ان کو کاندھے پر ڈالا۔
تبصرے بند ہیں۔