انسان اور زمین کی حکومت (قسط 83)
رستم علی خان
چنانچہ اہل صیدون حضرت سلیمان کے لشکر کو دیکھ کر میدان جنگ میں جمع ہوئے اور جنگ کی تیاری کرنے لگے- ادھر حضرت سلیمان کا تخت ہوا میں معلق میدان جنگ کے اوپر پنہچا تو آپ نے اول اہل صیدون کو اسلام کی دعوت دی کہ سوا اللہ کے کسی غیر کی پوجا اور عبادت کرنا کسی طور جائز نہیں- پس اگر تم اپنے بادشاہ کی پوجا کرنا چھوڑ دو اور ایک اللہ کو معبود برحق مان لو اور ایمان لا کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاو تو تمہیں اور تمہارے اس شہر کا امان دی جائے گی- اہل صیدون نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ ہم اور ہمارے باپ دادا پشتوں سے اپنے بادشاہ کی عبادت کرتے آئے ہیں- اور یہی ہمارا معبود ہے- پس اگر تم ہم سے جنگ کرنا چاہتے ہو تو بیشک کرو کہ ہم بھی جنگ کے لیے تیار ہیں اور طاقت و قوت رکھتے ہیں-
تب حضرت سلیمان نے اول دیووں کو بھیجا کہ جاو اور اہل صیدون سے جنگ کرو- چونکہ اہل صیدون بھی طلسم اور جادو سے واقف تھے اس لیے جنات اور دیو ان کے مقابلے پر نکلے- تب دیو اہل جزیرہ سے طلسم کی جنگ لڑنے لگے- میدان جنگ میں ہر طرف بگولے اڑنے لگے- چونکہ اہل جزیرہ سبھی طلسم جانتے تھے اس لیے وہ دیووں پر غالب آنے لگے- تب حضرت نے ان کے پیچھے پریوں کو حکم کیا کہ تم جاو اور دیووں کیساتھ ان سے جنگ کرو- چنانچہ پریاں بھی مغلوب ہونے لگیں تو حضرت سلیمان نے آدمیوں کو بھیجا- پس دیو، پری اور آدمی سب مل کر لڑے اور اہل جزیرہ کو زیر کیا-
جب اہل صیدون زیر ہوئے اور قتل ہونے لگے اور بعض ان میں سے بھاگ کر جان بچانے لگے- تب اپنے بادشاہ کو پکارنے لگے کہ اب تو ہی ہماری مدد کر اور ہمیں اس فوج بیکراں کے عتاب سے نجات دلا- تب شہر صیدون کا بادشاہ ان کے پیچھے لڑنے کو آیا اس پلید کا نام عنکبود تھا- حضرت سلیمان نے ہوا کو حکم دیا- ہوا نے ایک مٹھی بھر خاک اس مردود کی آنکھوں میں ڈال دی جس سے وہ اندھا ہو کر گر پڑا- شیر نے آ کر اس ناپاک کا سر کاٹ کر کھا لیا- اور بعضوں نے کہا کہ ٹڈیاں آ کے اس پلید کی آنکھیں نوچ کر کھا گئیں تھیں جس سے وہ واصل جہنم ہوا- اور باقی فوج میں سے کچھ کو قتل کر کے سمندر میں بہا دیا اور کچھ کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے آئے- اور شہر صیدون کو ویران کر دیا- گرفتار ہونے والوں میں عنکبود کی بیٹی اور اس کی چار ہزار لونڈیا بھی شامل تھیں- واللہ اعلم بالصواب-
چنانچہ جب سلیمان علیہ السلام نے شہر صیدون سے مراجعت کی آنے کے وقت راہ میں قیدیوں سے کہا کہ اگر تم سب ایمان لے آو اور اسلام قبول کرو تو یقینا تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا- تب عنکبود کی بیٹی جو کہ صاحب جمال تھی حضرت سے کہنے لگی کہ میں ہرگز ایمان نہ لاوں گی جب تک کہ اپنے باپ کو نہ دیکھ لوں- اول میرے باپ سے میری ملاقات کراو پھر ایمان قبول کروں گی- تب سلیمان علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ تمہارا باپ قتل ہو چکا ہے اب بھلا تم کیونکر اسے دیکھ سکو گی- غرض جب وہ کسی طور نہ مانی تو حضرت سلیمان نے اس کے باپ کی لاش لا کر اس کو دکھائی- پس باپ کی لاش کو دیکھ کر وہ بیہوش ہو کر گر پڑی- بعد ایک ساعت کے جب ہوش میں آئی تو رونے اور گریہ زاری کرنے لگی- حضرت سلیمان نے اسے سمجھایا کہ اگر تمہارا باپ واقعی خدا ہوتا تو وہ اپنی حفاظت کیونکر نہ کرتا- پس وہ جھوٹا تھا اسی وجہ سے مارا گیا- تب دختر عنکبود نے کہا اے سلیمان میں تو اس واسطے روتی ہوں کہ اب اس جہان میں میرا کوئی سہارا اور آسرا نہیں رہا- بھلا میں بےآسرا کہاں جاوں گی-
تب حضرت سلیمان نے فرمایا کہ اگر تم مشرف بہ اسلام ہو جاو اور ایمان لے آو تو میں تم سے نکاح کر لوں گا- غرض حضرت سلیمان کے سمجھانے سے دین اسلام سے مشرف ہوئی اور حضرت سلیمان نے اسے اپنے نکاح میں لیا اور اس کی بہت دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ عنکبود کی بیٹی نے حضرت سلیمان کے سمجھانے سے اسلام قبول کیا اور ایمان لائی تو حضرت سلیمان نے اسے اپنی زوجیت میں لیا- کچھ عرصہ بعد شیطان ایک بزرگ کی شکل میں اس بی بی کے پاس آیا اور کہنے لگا، اے عنکبود کی بیٹی تو کیونکر اپنے باپ کو بھول سکتی ہے جو خدا تھا- اور اپنے باپ کے دشمن سلیمان کیساتھ خوش و خرم کس طرح رہ سکتی ہے- تب اس بی بی نے کہا کہ میں بےآسرہ ہوں میرا باپ مر چکا اور میرا ملک ویران ہو گیا اور میری املاک ساری تباہ و برباد ہو گئی- اب میرے پاس اس سے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سلیمان کیساتھ رہوں- تب شیطان ملعون نے اس بی بی سے کہا کہ نہیں تو دراصل اپنے باپ کو بھول چکی ہے اور اس کے دشمن سلیمان کیساتھ خوش ہے- اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ضرور تو اپنے کمرے میں اپنے باپ کی تصویر لگا کر رکھتی اور اس کی پوجا کرتی تاکہ وہ تجھ سے خوش ہوتا جیسے کہ اپنی زندگی میں تجھ سے خوش تھا- تب عنکبود کی بیٹی شیطان کے بہکاوے میں آ گئی اور شیطان کے سکھانے پر اپنے باپ کی مورت بنا کر اسے پوجنے لگی- تب شیطان نے اس سے کہا کہ خبردار اس بارے سلیمان کو خبر نہ ہونے پاوے کہ وہ تیرے باپ کا دشمن ہے اس سبب سے وہ اس مورت کو یہاں سے ہٹا دے گا- پس وہ مخفی طور پر اس مورت کی پوجا کرتی تھی اور دل اپنا شاد رکھتی اور اسی طرح چالیس دن گزرے-
اور دوسری روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ جب سلیمان نے اس دختر سے کہا کہ تو ایمان لا اور اسلام قبول کر تو تجھے اپنے نکاح میں رکھوں گا- تب اس نے کہا اے سلیمان میں ضرور ایمان لاوں گی اور آپ کی زوجیت قبول کروں گی- لیکن میری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ آپ مجھے اجازت دیویں کہ اپنے باپ کی مورت بنا کر اسے اپنے سامنے رکھوں تاکہ اسے دیکھنے سے دل میرا شاد ہو اور غم مہجوری اور اکیلے پن کا ختم جاوے- پس چونکہ اس زمانہ میں صورت بنانا شرع میں ممنوع نہیں تھا اور دوسرا حضرت سلیمان کو اس سے محبت تھی- لہذا اس سبب سے حضرت سلیمان نے اس کو تصویر بنانے کی اجازت دے دی کہ شائد اس بات سے غم اس کا جاتا رہے- تب وہ اپنے باپ کی صورت بنا کر مخفی طور پر چالیس دن تک اسے پوجتی رہی- کہتے ہیں کہ اسی سبب سے سلیمان چند روز حکومت سے معزول ہوئے اور تخت جاتا رہا-
اور بعضوں نے یوں بھی روایت کی ہے کہ دختر عنکبود نے کہا اے حضرت آج عید قربان ہے- پس ہمیں بھی کچھ قربانی کرنا چاہئیے- پس آپ ایک ٹڈی مجھے لا دیجئے تاکہ میں اس کی قربانی کر سکوں کیونکہ ٹڈی قربان کرنے کا اجر و ثواب بڑا ہے- حضرت سلیمان نے فرمایا ٹڈی میں بھلا گوشت کہاں ہوتا ہے- سو اس کا قربان کرنا تو بےفائدہ ہے- اور اگر تم قربانی کرنا چاہتی ہو تو ایک اونٹ منگوا کر اس کی قربانی کرو کہ خلق اس کے گوشت سے سیر ہو اور دعائیں دے اور اونٹ قربان کرنے کا اجر بھی بڑا ہے- اس نے کہا ہرگز نہیں بلکہ میں تو ٹڈی زبح کروں گی سو آپ مجھے منگوا دیں-
اور ٹڈی زبح کرنے سے غرض اس کی یہ تھی کہ جب سلیمان علیہ السلام شہر صیدون میں جا کر لڑے تھے اور اس کے باپ عنکبود کو قتل کیا تھا تو ٹڈی آ کر اس مردود کی آنکھیں کھا گئیں تھیں- پس اس عورت کے دل میں وہی بغض تھا کہ ٹڈی کو زبح کر کے اس سے اپنے باپ کا بدلہ لے سکے- اور حضرت سلیمان کو یہ بات یاد نہ تھی اس سبب سے سہوا فرمایا کہ اچھا ٹڈی منگوا کر زبح کر لو- تب اس نے ایک ٹڈی کو منگوا کر عداوتا زبح کیا اور اس کی آنکھیں نوچ ڈالیں-
پس سلیمان کی عورت نے یہ دو گناہ کئیے تھے- اول کہ اپنے باپ کی مورت گھر میں بنا کر مخفی پوجتی تھی اور سلیمان کو اس کی خبر نہ تھی- اور دوسرا اس نے ٹڈی کو بے گناہ محض عداوت و دشمنی میں زبح کیا تھا- ان دو معیصت کے سبب سلیمان علیہ السلام چند روز بلا میں مبتلا ہوئے-
تبصرے بند ہیں۔