افتخار راغبؔ
اُن سے کہنے کی چاہ تھی کچھ اور
کہہ دیا میں نے آج بھی کچھ اور
۔
اور کچھ ہے زبان پر تیری
کہہ رہی ہے تری ہنسی کچھ اور
۔
دل بناتا ہے اور منصوبہ
پیش کرتی ہے زندگی کچھ اور
۔
اہلِ دانش کا فلسفہ ہے الگ
اہلِ دل کی ہے آگہی کچھ اور
۔
ملتفت اور اُس کی چشمِ وفا
اب خودی اور بے خودی کچھ اور
۔
چشمِ بینا کا نور اپنی جگہ
علم و حکمت کی روشنی کچھ اور
۔
کچھ نہیں سننا مجھ کو اُن کے خلاف
مت کہو مجھ سے یا اخی کچھ اور
۔
اور کر لوں میں نرم دل اپنا
سیکھ لو تم ستم گری کچھ اور
۔
اُس کی سج دھج بھی ہے قیامت خیز
قہر ڈھاتی ہے سادگی کچھ اور
۔
کم نہ ہو تابِ اضطراب کبھی
چاہیے دل کو بے کلی کچھ اور
۔
کب سناؤں انھیں غزل راغبؔ
جانے کب آئے پختگی کچھ اور
تبصرے بند ہیں۔