آجائو! جی بھر کر رولیں

صادق رضامصباحی

سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ کیالکھوں،کیسے لکھوں، کیوں لکھوں اورکس کے لیے لکھوں۔ذہن پربس ایک ہی خبرحاوی ہے کہ یروشلم اب ظالم وغاصب اسرائیل کی راجدھانی بن جائے گا۔امریکہ کے جنونی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی راجدھانی کوتل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کااعلان کرکے فلسطین کے سینے پر۱۹۴۸کے بعددوسراخنجربھونک دیاہے۔ یہ وہی یروشلم ہے جو دنیا کے سارے مسلمانوں کی عقیدتوں کامرجع ہے اورقیامت تک رہے گا۔اس میں اللہ کا ایک مقدس گھرہے جس کا ذکرقرآن مجیدمیں موجودہے۔ یہ انبیاکی بستی ہے۔ یہاں کے چپے چپے میں تاریخ سانس لیتی ہے۔یہاں کے ذرے ذرے خوشبومیں بسے ہوئے ہیں۔یہ ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی گزرگاہ ہے۔یہاں آپ نے انبیاے کرام کی  امامت فرمائی اورپھریہیں سے سفرمعراج کوتشریف لے گئےاوریہی وہ سفرہے جوصدیوں بعدخلائوں میں پہنچنے کی بنیادبنااورجس نے سائنس کوآسمان کی بلندی پر پہنچایا۔ہمیں برداشت نہیں ہورہاہے کہ ناپاک یہودی اتنے مقدس ترین مقام کواپنے ناپاک اورنجس پیروں سے روندیں مگرہم کیاکریں، ہم توبے بس ہیں،ہم تونہتھے ہیں، ہمارے بازوشل ہوچکے ہیں اوراعضانڈھال۔ کیوں؟اس لیے کہ ہمارے اگلے اورہمارے بڑے شاید’’مرد‘‘نہیں، ان میں ’’نامردی‘‘کے جراثیم زیادہ ہیں۔ اگروہ واقعی ’’مرد‘‘ہوتے توآج ہم ’’نامرد‘‘کیوں ہوتے، ہم ضرورکچھ نہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔

جولوگ کچھ کرسکتے ہیں وہ توپہلے سے ہی امریکہ اوراسرائیل کے تلوے چاٹنے میں فخر محسوس کررہے ہیں مگراس اعلان کے بعدوہ شایداس لیے مذمتی بیان جاری کررہے ہیں کہ کہیں دنیاوالے ان پر تھونکناشروع نہ کردیں۔ میں پوچھتاہوں ان عرب حکمرانوں سے جوآج  اس اعلان پرگھڑیالی آنسوبہارہے ہیں،کیاانہیں اسرائیل اورامریکہ کے عزائم اورمنصوبہ بندی سے آشنائی نہیں تھی ؟۱۹۴۸میں فلسطین کے پیٹ میں خنجرگھونپنے کے بعدسے ظالم ومردوداسرائیل ہمارے فلسطینی بھائیوں اوربہنوں پرجس طرح سے ظلم کرتاآرہاہے، کیایہ سب ان عرب حکمرانوں کونہیں دکھ رہا تھا؟کیوں اس سے آج تک سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے گئے؟فلسطین کے نہتھے چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے سے میرے معصوم بھائی اوربہن رحم کی بھیک مانگتے رہےاوراب تک مانگ رہے ہیں مگرہمارے نام نہادمسلم حکمرانوں کی آنکھوں میں سیل نہیں ہے، انہوں نے آج تک کسی بھی مضبوط ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ہمیشہ گھڑیالی آنسوبہائے اورآج بھی گھڑیالی آنسوہی بہارہے ہیں۔

سن لیجیے !کچھ نہیں ہوگا،جوفیصلہ لیاجاناتھا وہ منصوبہ بندتھا۔ڈونالڈٹرمپ سے فیصلہ واپس لینے والو! ذرااپنے گریبان میں ایک بارجھانک کردیکھ تولوکہ آپ نے اب تک کیاہی کیاہے یروشلم کے لیے، فلسطین کے لیے۔ پھر آپ آج کیوں اس فیصلے کی مذمت کررہے ہو۔میں ببانگ دل کہتاہوں کہ امریکہ اوراسرائیل کے اس فیصلے کے پیچھے یقیناًعرب حکمرانوں کاہاتھ ہے۔میرے اس دعوی پر آپ چونک اٹھیں گے، مگرچونکیے مت، حقیقت یہی ہے کیوں کہ آج تک عرب حکمرانوں نے اپنے پڑوسی فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیاہے کیوںکہ انہیں تو ہرآن اپنے سیاسی آقاامریکہ کی خوشنودی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کی وجہ سے سعودی عرب پوری دنیاکے مسلمانوں کا مرکزہے، اصولاً تواسے قائدانہ کرداراداکرناچاہیے  مگرسعودی عرب کا دورہ کرنے والے کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے نزدیک دنیا کے دیگرانسانوں کی کوئی حیثیت۔ اگر موقع آپڑے تووہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیساشایدکوئی جانوروں سے بھی نہیں کرتامگراسی سعودی عرب میں امریکی شہری کواتنی عزت دی جاتی ہے جیسے یہ امریکی، سعودی حکومت کے ’مائی باپ ‘ہوں۔

سچی بات یہی ہے کہ امریکہ، سعودیہ کے لیے ’ماں باپ ‘کی حیثیت رکھتاہے۔ عرب حکمراں امریکہ کے سامنے اپنی دم ہلاتے دیکھے گئے ہیں۔ ظاہرہے جن حکمرانوں کی حمیت امریکی مفادات کے نیچے’ دبی‘ ہوئی ہو توظالم اسرائیل کے حوصلے بلندہوناہی ہیں۔ بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگرعالم عرب امریکہ سے آنکھیں پھیرلے توامریکی معیشت ایک روپے میں چَوَنّی بھرہوجائے مگرپھربھی پتہ نہیں کیوں عرب حکمرانو ں کی غیرت کاجنازہ نکل گیاہے کہ وہ امریکہ کی غلامی کرتے ہیں اوراس پر فخر بھی کرنے میں عارمحسوس نہیں کرتے۔ یااللہ !قیامت کیوں نہیں آجاتی۔

بھائیو! ہماراکچھ نہیں ہونے والا،ہم توبس احتجاجی قوم ہوکررہ گئے ہیں۔اس لیے بس اب جی بھرکررونے کودل کرتاہے، خداکے حضورمعافی مانگنے کودل کرتاہے، اپنے گناہوں سے توبہ کادل کرتاہے کہ مولیٰ !ہم نے تیرے گھرکے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا،ہم بیت المقدس فتح کرنے والے صلاح الدین ایوبی کواپناآئیڈیل تومانتے رہے مگر ان کاجذبہ اپنے دل میں نہ بساسکے۔ہم غفلت کی چادر تان کرایک دوسرے پرانگلیاں اٹھاتے رہے۔قریب ۷۰برسوں سے ہمارے چھوٹے چھوٹے بھائی، بہنیں،مائیں اور والد ظلم کی چکی میں پس  رہے ہیں، ہمیں بلارہے ہیں، ہمیں متوجہ کر رہے ہیں مگرہم توبہرے ہیں، اندھے ہیں، گونگے ہیں۔ یروشلم کواسرائیل کی راجدھانی بنانے کافیصلہ ہماری اسی بے حسی کانتیجہ ہے اورہمارے آپسی اختلافات کاشاخسانہ۔

۱۹۴۸میں ہم سے فلسطین چھین لیاگیاتھا اور۶۹سال بعداب یروشلم بھی چھیناجارہاہے۔ یااللہ !توہمیں معاف کردے، ہم اپنی ذمے داریاں نہ نبھا سکے۔ سچ پوچھیں، میرادل بہت روناچاہتاہے، آنکھیں نم ہیں، دل جذبات سے مغلوب ہے، آجائو،آجائو،آجائو،خوب رولیں، جی بھرکررولیں اپنی بے حسی پر،اپنی کاہلی پر،اپنی بداعمالی پر،اپنی بے شعوری پر،اپنی کوتاہی پر، اپنی بے بصیرتی پراورماتم کرلیں اپنے ’’بڑوں‘‘کی ’’نامردی ‘‘پر،بے بصیرتی پر،بے ضمیری پر۔

تبصرے بند ہیں۔