آئندہ سال چھ دسمبر کو کیا ہوگا؟

حفیظ نعمانی

25 سال سے ہر سال 06 دسمبر آتی رہی اور جگہ جگہ مسلمانوں کے یوم غم منانے کی خبروں کے بعد گذرتی رہی کبھی کہیں سے ہلکی آواز میں یہ خبر بھی آجاتی تھی کہ وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل نے 06 دسمبر کو یوم فتح کے طور پر منایا لیکن یہ اتنی نیچی آواز میں کہا جاتا تھا کہ صرف اخبار کی چند سطریں اسے مل جاتی تھیں۔ لیکن اس سال جو لہراتی ہوئی ننگی تلواروں اور بھگوا جھنڈوں کے ساتھ وجے دیوس یا یوم فتح منایا گیا اور صرف اجودھیا میں نہیں اترپردیش میں جگہ جگہ منایا گیا اور ہر جلوس پولیس کی موجودگی بلکہ اس کی حفاظت میں نکلا اس نے ثابت کردیا کہ اب اترپردیش میں آر ایس ایس کی حکومت ہے اور اب اگر یوم غم منایا تو جواب دینے کے لئے اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

آج کا ہر اُردو اخبار ان خبروں سے بھرا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے کالی پٹیاں باندھیں، مسجدوں میں دعائیں کیں، احتجاجی جلسے کئے اور بابری مسجد کی شہادت کے نامزد ملزموں کو 25 سال کے بعد بھی سزا نہ دینے پر انصاف کی پامالی پر افسوس کا اظہار کیا۔ جن کے پاس ضرورت سے زیادہ روپئے تھے انہوں نے اخبار میں چوتھائی صفحہ پر اشتہار دے کر دل کی بھڑاس نکالی۔ لیکن یہ کسی نے نہیں کہا کہ 25 سال سے مسلسل یوم غم منانے کے بعد بھی ایک اینٹ اِدھر سے اُدھر نہیں ہوئی اور نہ یہ سوچا کہ اب یوم غم منانے اور گھسی پٹی روایتوں کو دہرانے کے بجائے کچھ اور کیا جائے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کرتے اور کراتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اوپر بس اتنی ہی ذمہ داری تھی وہ انہوں نے پوری کردی اب اگلے سال 06 دسمبر آئے گی تو دیکھا جائے گا۔

پورے ملک میں جہاں جہاں بھی یوم غم منایا گیا وہ مسلمانوں نے منایا اور وہ بھی مسلمان ہیں جنہوں نے مسجد کی زمین کو تھال میں رکھ کر مندر بنانے کے لئے پیش کردیا اور کہہ دیا کہ (بابری) مسجد لکھنؤ میں حسین آباد کی زمین پر بنادی جائے گی۔ اور ایک سادھو بابا کو ساتھ لے کر شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے وہ کام کردیا جو اٹل بہاری باجپئی اور چندر شیکھر جیسے برسوں کی جھک جھک کے بعد بھی نہ کرپائے ایک دن میں کردیا۔ اور 05 دسمبر کو سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بینچ میں پونے دو گھنٹے کی بحث ختم ہونے کے بعد شری رضوی نے اِترا اِتراکر اور پہلو بدل بدل کر کہا کہ ہمارے فارمولہ کو سماعت کے لئے سپریم کورٹ نے مقدمہ میں شامل کرلیا اور اب وہ فارمولہ بھی بحث کا حصہ ہوگا۔

بظاہر یہ وہ بات تھی جس کے ہونے کا سوال ہی نہیں تھا لیکن شری رضوی کے بلند آواز سے بار بار کہنے کی وجہ سے کم از کم پندرہ بیس رپورٹروں نے ان کو گھیر لیا جبکہ سنی وقف بورڈ کے معاون وکیل ظفریاب جیلانی کی بات سننے کے لئے صرف ایک رپورٹر کو فرصت تھی۔ ہم جو لکھنؤ میں اپنے گھر بیٹھے تھے حیران تھے کہ گڑیا گڈے کی شادی جیسا فارمولہ جس میں مسجد کے لئے لکھنؤ کا انتخاب کیا گیا ہو سپریم کورٹ نے کیسے منظور کرلیا؟ اس کے بعد کسی ٹی وی نے اپنی خبروں میں اس پر روشنی نہیں ڈالی یہ تو دوسرے دن انقلاب کی شاہ سرخی نے صاف کردیا کہ وسیم رضوی کا کھیل ختم۔ سپریم کورٹ کا شیعہ وقف بورڈ کی پٹیشن پر سماعت سے انکار۔ وقف بورڈ کروڑوں روپئے کی جائیدادوں کا امین ہوتا ہے۔ اس کا چیئرمین یا کنٹرولر امین کی وجہ سے قابل احترام ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ عدالت کے ججوں نے شیعہ وقف بورڈ کے پٹیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا چیئرمین صاحب کا بار بار کہنا کہ منظور کرلیا کہتے ہوئے انہیں شرم نہیں آئی۔

انقلاب کے ہی ایک نمائندہ کی خبر میں کہا گیا ہے کہ ’’بابری مسجد کی شہادت کی برسی پر مسلم تنظیموں نے کیا تعمیرنو کا مطالبہ کیا ہے مزید کہا گیا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل پر ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم سونپا گیا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یاد نہیں کبھی 06 دسمبر کے بارے میں ایسی کوئی اپیل پہلے کی ہو اور اس بار کرنا تو اس لئے سمجھ میں نہیں آیا کہ جب اعلان ہوچکا تھا کہ 05 دسمبر سے سپریم کورٹ ہر دن سماعت کرے گا تو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اتنی غیرذمہ داری کا ثبوت دے گا کہ مسجد کی تعمیرنو کے لئے ضلع مجسٹریٹ کی معرفت میمورنڈم بھجوائے گا۔ ضلع مجسٹریٹ کو جو میمورنڈم سونپا گیا ہے اس پر بورڈ کے صدر مولانا محمد رابع حسنی، مولانا سعید الرحمان اعظمی، مولانا برہان الدین سنبھلی اور مولانا محمد حمزہ کے دستخط ہیں۔ مزید حیرت اس پر ہے کہ اتنی اہم اپیل صرف لکھنؤ کے لئے کی گئی۔ یہ کام بورڈ کو اگر کرنا تھا تو ہر ضلع میں ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم سونپا جاتا۔ بہرحال یہ ضروری تو نہیں کہ صرف وسیم رضوی ہی ایسی بات کہیں یا ایسا کام کریں جو مسلمانوں کی سمجھ میں نہ آئے دوسروں کو بھی یہ حق ہے کہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز حرکتیں کرے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔