بزم کیف کے زیرِ اہتمام افروز عالم (کویت) کے اعزاز میں شعری نشست 

کامران غنی صبا

 شہر عظیم آباد کی مشہور ادبی انجمن بزمِ کیف کی طر ف سے آج شام کویت سے تشریف لائے ہوئے شاعر افروز عالم کے اعزاز میں ایک شعری نشست کا اہتمام بزم کے دفتر نیو عظیم آباد کالونی ، پٹنہ میں ہوا۔ نشست کی صدارت مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور پٹنہ کالج کے پرنسل پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کی جبکہ نظامت کے فرائض معروف ناقد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے انجام دئیے۔

بزم کیف کے چیئرمین محمد آصف نواز نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا۔ بزم کی نائب صدر ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے مہمان شاعر کو چادر اور مومنٹو پیش کر کے انہیں اعزاز سے نوازا۔ اس موقع پر پروفیسر اعجاز علی ارشد کو پٹنہ کالج کا پرنسپل بنائے جانے اور ڈاکٹر جاوید حیات کو شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا صدر شعبہ بنانے پر اعزاز سے نوازا گیا۔ شعری نشست میں جن لوگوں نے شرکت کی ان کے اسمائے گرامی ہیں۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد، افروز عالم، مشتاق احمد نوری، ڈاکٹر قاسم خورشید، ڈاکٹر اسرائیل رضا، ڈاکٹر جاوید حیات، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر اظہار خضر، شمیم قاسمی، کاظم رضا، نصر بلخی، معین گریڈہوی، کامران غنی صبا اور نور السلام ندوی۔بزم کے سرپرست ڈاکٹر اسرائیل رضا کے شکریہ کے ساتھ اس مخصوص شعری نشست کا اختتام ہوا۔ شعری نشست میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے :

قدرت تھی انتظار دعائے خلیل میں
بابِ دعا بھی بند ہوا اس دعا کے بعد

پروفیسر اعجاز علی ارشد

نیند جب ٹوٹی تو خوابوں کے حوالے نکلے
تم کو چاہا تو کئی چاہنے والے نکلے

افروز عالم

جب بھی الٹا ہے کسی دشمنِ جانی کا نقاب
اک نہ اک دوست کا ہنستا ہوا چہرا نکلا

مشتاق احمد نوری

ملنے کے لیے آیا تو عجلت میں بہت تھا
تب ایسا لگا مجھ کو زمانے کی مہک ہے

قاسم خورشید

یوں بھی گزرا ہے ترا دور مسیحائی کا
مجھ کو جرأت نہ کبھی زخم دکھانے کی ہوئی

عطاعابدی

سخت سے سخت جان ہو جانا
ٹوٹنا مت کمان ہو جانا

شمیم قاسمی

لیے شہرت کی کشتی گر کبھی جانا سمندر میں
سکوتِ بحر کے آئینے پر بھی اک نظر کرنا

اسرائیل رضا

ہوا نہ تم سا جمیل پیدا، نہ تم سا کوئی حسین آیا
زمیں کا سورج، فلک کے جھومر درود تم پر سلام تم پر

شہاب ظفر اعظمی

مجمعِ حور میں بھی تجھ سا حسیں کوئی نہ تھا
نظریں لوٹ آئیں مری باغِ جناں سے ہو کر

کاظم رضا

یہی تقاضائے زندگی ہے کہ لحظہ لحظہ عذاب ہوگا
بدن سے کانٹے لپٹ پڑیں گے جو ہاتھ میں اک گلاب ہوگا

نصر بلخی

کب کہا میں نے کوئی بات پرانی لکھ لے
کچھ نہیں لکھ تو فقط اپنی جوانی لکھ لے

معین گریڈہوی

شاید اسے ہماری انا کا گماں نہ تھا
ہم تشنگی پٹک کے سمندر پہ آئے ہیں

تبصرے بند ہیں۔