اپنی اس بے بسی پر دل خون کے آنسو روتا ہے!
کامران غنی صبا
ہیلو! آپ کا بچہ اسکول کیوں نہیں آ رہا ہے؟
سر جی چچا کی شادی ہے۔ دوسرے گاؤں گیا ہوا ہے۔
ہیلو! آپ کا بچہ ہفتہ دن سے غیر حاضر ہے، سب خیریت تو ہے؟
جی سر، گھر میں دھان کٹائی ہو رہی ہے نا، اسی لیے نہیں جا رہا ہے۔
ہیلو! زید کئی روز سے اسکول نہیں آ رہا ہے، ٹسٹ میں بھی شامل نہیں ہوا۔۔۔۔
سر جی نہیں پتہ تھا کہ ٹسٹ ہے، نہیں تو ضرور بھیجتے۔
اگر آپ ٹیچر ہیں اور خدانخواستہ سرکاری اسکول کے ٹیچر ہیں، ثم خدانخواستہ اردو میڈیم اور مسلم اکثریتی علاقے کے کسی اسکول کے ٹیچر ہیں تو شاید آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔
اوپر کی بات چیت کوئی فسانہ نہیں ہے بلکہ اسکول کے بچوں کے والدین اور سرپرست سے کی گئی بات چیت کے کچھ نمونے ہیں۔ ایسے نہ جانے کتنے نمونے فون رکارڈنگس کے فولڈر میں میرے موبائل میں بھرے پڑے ہیں۔ جنہیں سوشل میڈیا پر اس لیے پوسٹ نہیں کر سکتا کہ بچے اور ان کے والدین کو احساسِ شرمندگی ہوگا۔
میں تقریباً پانچ برسوں سے گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ بچے مجھ سے بہت قریب ہیں۔ وہ مجھ سے جتنا پیار کرتے ہیں اتنا ہی ڈرتے بھی ہیں کیوں کہ کبھی کبھی میں ان کے گھر تک دستک دے آتا ہوں لیکن افسوس کہ پانچ برسوں کی مسلسل جدوجہد کے باوجود چند بچوں کو چھوڑ کر اکثر آج بھی اسی مقام پر ہیں جہاں وہ پانچ سال پہلے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف ہمارے اسکول کی داستان غم ہے۔ بلکہ بیشتر سرکاری اسکولوں کی یہی صورت حال ہے۔ خدا جانے کہ اعلیٰ افسران کا خوف نہ ہو تو ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے زوال کی کس انتہا کو پہنچ جائیں۔ مسلم تعلیمی اداروں کی حالت تو اور بھی تشویش ناک ہے، اتنی تشویشناک کہ دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اس صورتحال کی ذمہ دار جہاں ایک طرف حکومت ہے وہیں ہمارا معاشرہ بھی ہے. جس قوم میں علم کو فرض کا درجہ دیا گیا ہو وہاں علم سے ایسی بے پروائی ہے کہ الامان و الحفیظ…. ہم اصلاح معاشرہ کے نام پر بڑے بڑے جلسے جلوس اور کانفرنس تو کراتے ہیں لیکن تعلیم کے فروغ کے لیے ہمارے یہاں کوئی لائحہ عمل نہیں ہے. ہمارے پڑھے لکھے نوجوان نماز کے مختلف طریقوں پر گھنٹوں مناظرہ کر سکتے ہیں… سوشل میڈیا پر غیر ضروری موضوعات پر بحث کرنے میں اپنا سارا وقت نکال سکتے ہیں لیکن قوم کی جہالت کو دور کرنے کے لیے مل بیٹھ کر کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتے. ایک دو گھنٹہ خدمتِ خلق کے جذبے سے معاشی اعتبار سے کمزور بچوں کے پڑھانے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے۔
آپ سرکاری اسکولوں خاص طور سے اردو میڈیم اسکولوں کا جائزہ لے کر دیکھ لیں شاید ہی کسی اسکول کی صورت حال اطمینان بخش نظر آئے. جس قوم میں انقلاب کی ابتدا "اقراء” سے ہوئی ہو آج وہی قوم جہالت کے سب سے آخری پائیدان پر کھڑی ہے. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی بعثت سے قبل عرب میں ہر طرح کی برائیاں عام تھیں. اس کے باوجود جب قرآن نازل ہوا تو نہ یہ حکم ہوا کہ بتوں کی پوجا چھوڑ دو، نہ شراب کی کراہیت بتائی گئی اور نہ دوسرے جرائم سے رکنے کا حکم دیا گیا.غور کیجیے کہ قرآن نے سب سے پہلے "علم” اور ” قلم” کی بات کی. کیوں کہ خدائے علیم و خبیر بہتر جانتا تھا کہ تمام طرح کی برائیوں کی جڑ جہالت ہے.
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری ایک بڑی آبادی گاؤں میں رہتی ہے. اکثر بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں. سرکاری اسکولوں میں ایک تو یوں ہی درس و تدریس کا نظام خون کے آنسو رلاتا ہے اس پر والدین اور سرپرست کی علم کے تئیں لاپروائی مزید اذیت میں مبتلا کرتی ہے. شہروں کی زندگی سے باہر نکل کر دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم کہاں ہیں۔ گندے اور غلیظ کپڑوں میں ملبوس بچے، گھروں میں تعلیم کا ماحول صفر، علم کی کمی کی وجہ سے سماجی اور اخلاقی برائیوں سے بھرے ماحول میں پرورش پانے والے بچوں کا ذہنی شعور۔۔۔۔۔ اس پر سرکاری نذرانے پر پلنے والے ہمارے معزز اساتذہ کی بے اعتنائی۔
ان بچوں کے مستقبل کی کسے فکر ہے۔۔۔۔۔؟ سرکار کو ووٹ چاہیے، ہمیں تنخواہ اور سماج کا کیا ہے، وہ تو بس اپنے سے برابر والوں کو دیکھتا ہے۔
تبصرے بند ہیں۔