اکھلیش، بی جے پی کے سیاسی ہتھکنڈوں کو سمجھ نہیں سکے!
عادل فراز
اترپردیش انتخابات میں بی جے پی نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ سال 1989 کے بعد پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے لگاتار دوسری بار یوپی کے اقتدار کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کے لیے بی جے پی نے بہتر حکمت عملی کے ساتھ اپنے شدت پسند چہرہ کو تبدیل نہیں ہونے دیا۔ ’بلڈوزر‘ اور ’ جارح ہندوتوا‘ کی سیاست نے اپنا رنگ دکھایا۔ خاص طورپر آرایس ایس کے رضاکاروں نے بی جے پی کی نیّا کو پارلگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ورنہ تنہا بی جے پی میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ اترپردیش کے عوام کے دلوں کو صید کرسکتی۔ تین مرحلوں کی ووٹنگ کے بعد آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے کارکنان کو متحرک ہونے کا فرمان جاری کیا تھا، جس کے بعد باقی چار انتخابی مرحلوں کے لیے بی جے پی سے زیادہ زمینی جدوجہد آرایس ایس کے کارکنان نے کی۔ وہ گائوں گائوں اور گھر گھر تک پہونچے۔ لوگوں کو بی جے پی کے لیے ووٹ دینے کے لیے آمادہ کیا۔ اس زمینی کیڈر کی جدوجہد کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اترپردیش میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس مضبوط زمینی کیڈر نہیں ہے۔ خاص طورپر کانگریس تو اس معاملے میں نہایت کمزور نظر آتی ہے۔ بی ایس پی کا وجود ختم ہوچکاہے۔ رہی سماجوادی پارٹی کی بات تو اس کے پاس کارکنان کی بڑی ٹیم موجود ہے لیکن اکھلیش یادو ٹوئیٹر ہینڈل اور ڈرائنگ روم سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ہم نے اکھلیش یادو کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرتے نہیں دیکھا۔ الیکشن کے ٹھیک دو تین مہینے پہلے وہ اپنے ڈرائنگ روم سے باہر نکلے تاکہ اترپردیش کی سیاست میں انقلاب برپا کرسکیں، مگر وہ یہ چمتکار نہیں کرسکے۔ اکھلیش یادو کو معلوم ہونا چاہیے کہ بی جے پی سالہا سال الیکشن کے موڈ میں رہتی ہے۔ اس کے رضا کار اور ممبران کا رابطہ عوام کے ساتھ منقطع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی سے بے انتہا ناراضگی کے باوجود عوام نے اس کا متبادل تلاش نہیں کیا۔
بی جے پی کی فتح میں پسماندہ اور دلت طبقات نے نمایاں کردار اداکیا۔ خاص طورپر مغربی اترپردیش میں دلتوں کی بڑی تعداد نے بی جے پی کے حق میں ووٹ کیا۔ اسی طرح اترپردیش کے ہر علاقے سے بی جے پی کو پسماندہ طبقات کی طرف سے زبردست حمایت ملی۔ اس کے برخلاف سماجوادی پارٹی دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام رہی۔ ہندوستان کی اعلیٰ ذاتیں تو یوں بھی بی جے پی کے دامن عقیدت سے وابستہ ہیں، اس لیے اس ووٹ بینک میں سیندھ لگاپانا ناممکن تھا۔ یہ طبقہ فنڈنگ تو ہر سیاسی جماعت کو کرتاہے مگر ووٹ صرف بی جے پی کو دیتاہے، اس لیے سماجوادی اور کانگریس دونوں ہی اس طبقے سے زیادہ پرامید نہیں تھیں۔ قابل غور یہ ہے کہ ایک بار پھر دلتوں نے مایاوتی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اب مایاوتی دلت طبقے کی لیڈر نہیں رہیں بلکہ دلتوں کے ووٹوں کا بڑا حصہ بی جے پی کی طرف منتقل ہوگیاہے۔ چندر شیکھر راون اور دیگر چھوٹی موٹی سیاسی جماعتوں کو اس الیکشن میں صرف محرومی ہاتھ لگی۔ مایاوتی تو یوں بھی پورے انتخابی موسم میں کہیں نظر نہیں آئیں، اس لیے انہیں احساس محرومی بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ البتہ دیگر دلت لیڈر جو بی جے پی کا دامن چھوڑ کر اکھلیش کے ساتھ متحد ہوئے تھے، انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ کورونا کے عہد میں غریبوں کو دی گئی مفت راشن اسکیم نے بھی بی جے پی کی فتح میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا جیسی وبا کے ہوتے ہوئے سرکار نے کم ہی سہی مگر غریب طبقے کو مفت راشن مہیا کرایا۔ ہم اس اسکیم پر لاکھ تنقید کریں لیکن اس کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اترپردیش الیکشن میں کسان تحریک کا بھی بہت زیادہ اثر نظر نہیں آیا۔ جاٹوں اور گوجروں نے بھی متحد ہوکر سماجوادی اور لوک دل اتحاد کو ووٹ نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو مغربی اترپردیش کے نتائج مختلف ہوتے۔ باغپت جیسی سیٹ پر بی جے پی کا جیت حاصل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسان تحریک کے ختم ہونے کے بعد جاٹوں اور گوجروں کا غصہ ختم یا کم ہوگیا تھا۔ جس طرح پنجاب میں کسان تحریک کا اثر صاف نظر آیا اترپردیش میں اس کے بالمقابل یکسر نظر نہیں آیا۔ لکھیم پور کھیری کی اکثر نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ کسانوں کےقتل کے بعدلکھیم پور میں بی جے پی کے خلاف بے انتہا غم و غصہ تھا۔ بعض وہ نشستیں جہاں بی جے پی کو ناقابل یقین فتح حاصل ہوئی ہے، اس نے الیکشن کی شفافیت پر سوال کھڑے کردیے ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے ضمیر کو تو مطمئن کرسکتاہے مگر عوام کو بی جے پی کی کامیابی کا یقین کیسے دلائے گا، یہ بڑا سوال ہے۔ کیونکہ اترپردیش میں بعض ایسی نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، جس کا اندازہ خود بی جے پی کو بھی نہیں تھا۔ سہارنپور کی نکڑ سیٹ پر دھرم سنگھ سینی 315ووٹوں سے ہرادیے گئے۔ اسی طرح دیگر حساس سیٹوں پر بھی انتظامیہ کی طرف سے یہی کھیل کھیلا گیا۔ اکھلیش یادو نے ووٹوں کی گنتی کےعمل سے پہلے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ یوگی کے چیف سکریٹری نے تمام اضلاع میں ڈی۔ ایم۔ کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ اگر کسی نشست پر بی جے پی کو شکست ہورہی ہو تو وہاں گنتی کے عمل کو سست کردیا جائے، تاکہ اس وقفہ میں ہار اور جیت کے فرق کو Manage کیا جاسکے۔ گنتی کے عمل میں سستی کی شکایت تو تقریباً ہر جگہ سے آئی اور بہت کم ووٹوں کے فرق سے جیت کے نتائج بھی اب کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ بہر حال اس پورے معاملے پر حزب اختلاف کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، کسی ایک کےبیان دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ اترپردیش میں خوشگوار تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اس بار 30 سے زیادہ مسلمان انتخاب جیت کر اسمبلی میں ملت کی نمایندگی کریں گے۔ مسلمانوں نے اپنی طاقت کا احساس ضرور کروایا لیکن اکھلیش کی سیاسی ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر دیگر طبقات نے بی جے پی کے دامن کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ سال 2017 میں 24 مسلمان امیدوار کامیاب ہوکر اسمبلی پہونچے تھے۔ اس بار انکی تعداد میں اضافہ ہواہے۔ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی تھی اگر ایک سیٹ پر دو مسلم امیدوار آمنے سامنے نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں سےسماج وادی پارٹی کے دیگر امیدوار بھی کامیاب ہوئے مگر سماجوادی قیادت نے دیگرعلاقوں میں بہت زیادہ محنت و مشقت نہیں کی۔ اکھلیش یادو کی ریلیوں اور عوامی رابطوں کے جلسوں میں جم غفیر امڈا، جسے دیکھ کر اکھلیش کو یہ یقین ہوگیاکہ عوام کی حمایت ان کے ساتھ ہے۔ عوام تو ہر کسی سیاسی لیڈر کے جلسے میں بھیڑکی صورت امڈتی آئی ہے، لیکن اس بھیڑ کو ووٹ میں تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔ اکھلیش یادو حد سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا رہے۔ انہیں یقین تھاکہ عوام بی جے پی سے ناراض ہے اس لیے اس ناراضگی کا سیدھا فائدہ ان کی پارٹی کو پہونچے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ عوام کی ناراضگی کو ووٹ میں تبدیل کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ گذشتہ پانچ سالوں میں سماجوادی کارکنان ضرور عوام کےدرمیان نظر آئے لیکن اکھلیش یادو نے عوام کے درمیان جاکر ان کے مسایل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ مختلف موقعوں پر عوام کے درمیان جاکران کی بی جے پی سے ناراضگی کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تو شاید انتخابی نتائج مختلف ہوتے۔ اکثر امیدوار جنہوں نےسماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ہے انہیں پارٹی کے ووٹ حاصل نہیں ہوئے۔ بلکہ ان امیدواروں کی اکثریت نے اپنےدم پر جیت حاصل کی ہے۔ سماجوادی کی لہر مخصوص علاقوں میں محدود طبقات کے درمیان تھی، جس کو اکھلیش یادو سمجھ نہیں سکے۔ اہم یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی کی شکست میں مایاوتی کے کلیدی کردار نبھایا۔ بعض اہم نشستوں پر جہاں سماجوادی اتحاد کے امیدوار بہت کم ووٹوں کے فرق سے ہارے، ان نشستوں پر بی۔ ایس۔ پی۔ اور اسدالدین اویسی کے امیدواروں نے ’ووٹ کٹوا‘ کا رول ادا کرکے بی جے پی کو براہ راست فائدہ پہونچایا۔
اترپردیش کے الیکشن میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی نے 2024 کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج بھی متعین کردیے ہیں۔ بی جے پی نے اترپردیش کے اقتدار کو اس لیے ہاتھ سے جانے نہیں دیا کیونکہ اترپردیش کی سیاست کا براہ راست اثر لوک سبھا انتخابات پر مرتب ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی نے ہر ہتھکنڈے کا استعمال کیا۔ بعض نشستوں پربی جے پی کی کامیابی میں ضلع انتظامیہ نے اہم کردار ادا کیا جس سے کمزور ہوتی ہوئی جمہوریت کا اندازہ ہوجاتاہے۔ کچھ نشستوں پردوبارہ گنتی کے عمل نے حز ب مخالف کو بہت نقصان پہونچایا۔ ظاہرہے کہ دوبارہ گنتی ضلع انتظامیہ کے زیر اثر ہوتی ہے اور نتائج کو بدلنے میں اس کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کی نیّت اور شفافیت پر تبصرہ کرنا ہی بے سود ہوگا۔ کیونکہ اس الیکشن میں کمیشن کی کارکردگی زیر سوال رہی ہے۔ الیکشن کمیشن ایک مخصوص پارٹی کا آلۂ کار بن گیاہے جس سے زیادہ امید رکھنا صحیح نہیں ہے۔ ہندوستان میں کمزور ہوتی ہوئی جمہوریت اور حزب اختلاف کے ختم ہوتے ہوئے وجود کے پس پردہ الیکشن کمیشن کی جانبدارانہ ذہنیت ہے، جس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر لایحۂ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اگر تمام احزاب مخالف الیکشن کمیشن کے خلاف متحد نہیں ہوں گے، تو انہیں اسی طرح پے درپے شکست کا سامنا کرتےرہنا ہوگا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔