گمشدہ ستارے

سہیل بشیر کار

                تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو شخصیتوں کے مختلف رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں لوگ کسی اعلٰی مقصد کے تعاقب میں پردے کے سامنے پاتے ہیں۔ وہیں کئی ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو پس پردہ کام کرنا جانتے ہیں۔ جب منزل پرخطر ہو اور عظیم قربانیوں کا متقاضی بھی، تو لوگ اکثر اس راستے کا راہی بننا پسند نہیں کرتے۔ ہاں کچھ پر عزم  شخصیات  ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے نام قربانیاں  بھی درج ہوتی ہیں اور ناموری بھی۔ اور ایک طبقہ بھی اس راہ میں نظر آتاہے، جو پر عزم بھی ہوتے ہیں، جن کی ہمالیہ کے مثل قربانیاں بھی ہوتی ہیں لیکن ناموری انکے مقدر میں ہم کم ہی پاتے ہیں۔ یہ موخر الذکر طبقہ مانو بہادر یار جنگ کی اس تقریر کا عملی نمونہ ہوتے ہیں جو تقریر وہ 26 دسمبر کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کر چکے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو شجر ملت میں پھول بن کر چمکنا نہیں جانتے، جو پھل بن کر کام و دہن کو شیریں کرنا نہیں جانتے بلکہ یہ وہ طبقہ ہے جو کھاد بن کر زمین میں جذب ہوتے ہیں اور جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ جو مٹی اور پانی میں مل کر رنگین پھول پیدا کرتے ہیں۔ جو خود فنا ہوتے ہیں اور پھلوں میں لذت اور شیرینی پیدا کرتے ہیں۔ یہ کاخ و ایوان کے نقش و نگار بن کر نگاہ نظارہ باز کو خیرہ کرنا نہیں جانتے بلکہ ان بنیاد کے پتھروں کے مانند ہوتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زمین میں دفن ہوکر اور مٹی کے نیچے دب کر اپنے اوپر عمارت کی مضبوطی کی ضمانت قبول کرتے ہیں۔

    عظیم نقاد اور قلم کار مختار مسعود اپنی شہرہ آفاق کتاب "آواز دوست” میں ان ہی لوگوں کے متعلق رقمطراز  ہیں "یہ لوگ بھی عجیب ہیں ان کو اس بات سے ہرگز کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ یاد رکھے جائیں گے گے یا بھلا دیئے جائیں گے – غرض ہے تو صرف یہ کہ اس بے ڈھب دنیا کو کیونکر ڈھب پر لایا جاسکے، ان میں سے ہر شخص نے دنیا کو جس حال میں پایا اس سے بہتر حال میں چھوڑا اور یہی بات انہیں عام آدمی سے ممتاز کرتی ہے، یہ لوگ فرہاد کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ساری عمر پہاڈ کھودتے اور نہر نکالتے گزر جاتی ہے، اس نفسانفسی کی دنیا میں جہاں ہر شخص صرف اپنے لیے زندہ ہے یہ فرہادی گروہ دوسروں کے لیے زندگی لٹا دیتا ہے – یہ لوگ دنیا بھر کی مصیبتیں نقد حیات کے عوض خرید لیتے ہیں اور پھر بھی اس سودے میں انہیں خسارہ نہیں ہوتا، یہ گروہ نہ ہوتا تو دنیا غیر آباد ہوتی اور یہ گروہ ناپید نہ ہوا تو انسان ماورا میں بھی ایک نئی دنیا آباد کرے گا۔ "

                یہ وہ ہیروز ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں unsung heroes  کا خطاب ملتا ہے۔ یہی طبقہ اصل میں کسی قوم کے محسن ہوتے ہیں۔ اور اپنے  محسنوں کو یاد کرنا اور ہمیشہ زندہ رکھنا قوم کی آئیندہ نسلوں کا کام ہوتا ہے۔ ان گمنام شخصیتوں کو کھوج نکالنا پڑتا ہے۔ وگرنہ  یہ لوگ آپکی نظر سے کبھی نہیں گزریں گے۔۔۔ جموں و کشمیر میں بھی ایک اعلٰی مقصد کے حصول میں کشمیری قوم ۱۹۳۱ء سے بے مثل قربانیاں پیش کرتا آرہا ہے۔ اس قوم نے بھی ہر طبقے کے لوگ دیکھے ہیں۔ یہاں بھیunsung heroes  کی ایک نرسری ہے، ایک گلستان ہے۔ مختلف رنگوں کے پھول اس گلستاں میں بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن ان پھولوں کو ایک خوبصورت گلدستے میں جمع کرنا مشکل مگر مبارک کام ہوتا ہے۔ اور یہی مبارک کام برادر ظہیر الدین صاحب نے  انجام دیا ہے۔ نہایت ہی قابل فخر اور لائق داد کام،۔ اس قوم پر ظہیر صاحب کا یہ احسان ہے۔

                برادر ظہیرالدین نے اپنی ۲۸۸صفحات کی کتاب ’’گمشدہ ستارے ‘‘ میں اسی طبقے سے منسلک ۱۰۵درخشندہ مگر گمنام ستاروں کو ایک گلدستے میں جمع کیا ہے۔ یہ کتاب اس کوشش کا نام ہے جس سے یہ  روشن  ستارے   گمنامی کے بادلوں کے پیچھے کھو جانے سے بچ جائیں۔ ان عظیم شخصیات کا تعلق اگرچہ زندگی کے  الگ الگ شعبہ جات سے رہا ہے لیکن ان میں جو قدر مشترک ہے وہ ہے مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا جنون۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے مظلوم قوم کیلئے مصائب و مشکلات برداشت کیں۔

      کتاب کے مصنف ظہیر الدین کشمیر کی جانی مانی ہستی ہیں۔ آپ نے ایل، ایل، بی کے علاوہ ماس کمیونکیشن اور جرنلزم میں کشمیریونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی ہے۔ معروف قلم کار کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ کتاب کا مقدمہ سرکردہ صحافی یوسف جمیل نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’کشمیر کے سیاسی اْفق پر کئی ایسے ستارے موجود ہیں جو لوگوں کی نظروں سے اْوجھل تو ہیں لیکن ان کی چمک کئی دہائیاں گزرنے  کے باوجود قائم و دائم ہے اور اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ ان سے پھوٹنے والی کرنیں اس سرزمین کو تابناک اور اس پر بسنے والوں کی قدرومنزلت میں بے پناہ اضافہ کردیتی ہیں۔ یہ مادر وطن کے وہ سپوت ہیں جنہیں زمانہ فراموش کرگیا ہے۔ یا پھر بہت کم لوگوں کو ان کے بارے میں معلومات حاصل ہیں بلکہ ان کے بعد آنے والی نسلیں اس پورے جرمٹھ اور اس کی دلکش روشنیوں کی چمک اور پاکیزہ تابندگی کے لازوال سر چشمے کے خزانوں سے استفادہ کرنے اور ان کا انتخاب متحرک قوت کے طور پر کرنے میں چوک کرگئی ہیں۔ ‘‘  (صفحہ 12)

                مزید لکھتے ہیں :

         ’’ظہیر الدین نے کشمیر کے ان ہی گمشدہ ستاروں کے کوائف جمع کرکے انہیں کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ کئی سال کی محنت شاقہ کی بدولت ممکن ہوا۔ ‘‘ (صفحہ 15)

                کتاب میں جن ۱۰۵ افراد کا تذکرہ ہے انکی معلومات حاصل کرنے کیلئے مصنف کو بہت عرق ریزی سے کام لینا پڑا ہو گا۔ یہ کتاب معلوم ہوتا ہے  انتھک محنت کا نتیجہ ہے کیونکہ ان میں اکثریت اْن کی ہے جن کی معلومات کتابوں میں بھی  نہیں ملتی۔ یہ مضامین ابتداء میں روزنامہ الصفا اور بلند کشمیر میں شائع ہوئے بعد میں کشمیر کے موقراخبار ’’کشمیر عظمیٰ ‘‘میں یہ مضامین شائع ہوئے۔ کتاب میں جن شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے ان میں صحافی بھی ہیں ڈاکٹر بھی، وکلا بھی ہیں اور تاجر بھی۔ الغرض زندگی کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ سرزمینِ کشمیرکے محسن ہیں۔ کتاب سے اس مذموم پروپیگنڈے کی نفی ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کیلئے صرف مسلمانوں کا ایک طبقہ قربانیاں دے رہاہے۔ حالانکہ کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیریوں کے حقوق کیلئے جہاں مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں وہیں بہت سے غیر مسلموں نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ پنڈت راگوناتھ ویشنوی، پنڈت جیہ لال چودھری ایڈوکیٹ، ویدھ بسھین، شام لال یچھا نے بھی اپنا حصہ ادا کیا۔ اسی طرح جہاں سنی مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں وہی مصنف نے کتاب میں کئی شیعہ حضرات کے کوائف بھی بیان کئے ہیں مثلاً آگا شوکت علی، حکیم علی رضا، حکیم قاسم علی، منشی اسحاق وغیرہ۔ جہاں مردوں نے قربانیاں دی ہیں وہی خواتین نے بھی اپنا حصہ ادا کیا۔ کتاب میں کئی ایسی خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے جنہوں نے کشمیریوں کے حقوق کیلئے اپنی زندگیاں نچھاور کردی ہیں۔ بہرو بیگم جوکہ 30 سال کی عمر میں بارہمولہ میں شہید کی گئی ان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں :

                ’ ایک جلوس ۲۸جنوری ۱۹۳۲ء کی ایک سرد صبح کو بارہمولہ کشمیر میں نکالا گیا، جلوس میں صرف خواتین نے شرکت کی شہداء کشمیر کے حق میں بہرو بیگم عرف فریثری بھی شامل تھی۔ پولیس نے اس جلوس کو روکااور خواتین کو گالیاں دی۔ فریثری بیگم یہ برداشت نہ کرسکی اس کے پاس کانگڑی تھی جس میں دہکتے انگارے تھے۔ اس نے کانگڑی سب انسپکٹر کے منہ پر دے ماری جس سے اس کے چہرے اور دوسرے اعضاء کی کھال جل گئی۔ اس کے بعد ایک سپاہی نے فریثری بیگم کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اسطرح اس مجاہدہ نے جام شہادت نوش کیا۔ (صفحہ۔ 36)

                کتاب اس پروپگنڈہ کی بھی نفی کرتی ہے جس سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کشمیر کی تحریک کے ساتھ صرف کم پڑھا لکھا طبقہ وابستہ رہا ہے۔ کتاب میں ایسی شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے جو کہ اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن کشمیریوں کے حقوق کیلئے انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں ڈاکٹر ابواعلیٰ (معالج) ڈاکٹر عبدالاحد گورو (سرکردہ معالج)، ڈاکٹر فاروق عشاعی، ڈاکٹر غلام قادر وانی (اسکالر)، ڈاکٹر ایوب ٹھاکر (Nuclear Scientist) خواجہ غلام محی الدین رہبر(صحافی) ویدھبسیم (صحافی)، پنڈت جیہ لال چودھری ایڈوکیٹ، عبدالقادر جیلانی ایڈوکیٹ، غلام نبی ہاگرو ایڈوکیٹ قابل ذکر ہیں۔ مصنف نے  پڑھی لکھی  جواں سالہ آسیہ جیلانی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ آسیہ جیلانی 30 سال کی عمر میں شہید ہوئی۔ آسیہ نے Presentation Conventسے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے فرانس کی مشہور نیوز سروس (AFP) کیلئے بھی کام کیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے بھی ان کو فیلوشپ دی لیکن آسیہ نے حقوق انسانی کیلئے کولیشن آف سول سوسائٹی کیلئے کام کرنا پسند کیا۔ ۲۰۰۴ء میں انسانی حقوق کے سلسلے میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ایک دھماکے میں شہید ہوئی۔ الغرض کتاب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کشمیر کیلئے سماج کے ہر طبقہ کے لوگوں نے قربانیاں پیش کی ہیں۔

                کشمیریوں کیلئے صحافیوں نے ۱۹۳۱ء سے ہی کافی قربانیاں پیش کی ہیں۔ لکھتے ہیں :۔

   ’’تحریک کشمیر کے آغاز سے ہی یہاں کے صحافیوں نے اپنے پیشے کی عظیم روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بے شمار قربانیاں دی۔ صحافی غلام محمد کشفی کو شیخ محمد عبداللہ نے سرِعام پیٹا اور حد متارکہ کے اْس پار دھکیل دیا۔ پریم ناتھ بزاز اور جگن ناتھ ستھو کو جلاوطن کیا گیا، ’’الصفا‘‘کے مدیر محمد شعبان وکیل کو گولیاں مار کر موت کی نیند سلادیا گیا‘ ’’وادی کی آواز‘‘ کے مدیر غلام نبی شیداکو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا گیا۔ ش۔ م۔ احمد پر بے تحاشہ گولیاں چلائی گئیں۔ یوسف جمیل کو گرفتار کرنے کے علاوہ ایک پارسل بم بھیجا گیا۔ جس سے فوٹو جرنلسٹ ’مشتاق علی‘ شہید ہوگیاوغیرہ وغیرہ۔ ‘‘(صفحہ 175 )

                کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے حقوق کیلئے جو تحریک برپا کی گئی وہ ہمیشہ Indigenous رہی ہے۔ لوگوں نے اپنے وسائل استعمال کئے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جب شیخ محمد عبداللہ نے ایکارڈ کیا تو اس کے خلاف سرینگر میں احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کرنے والوں کو لگا کہ ہمیں احتجاج کو بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے اس کیلئے ’’76 نوجوانوں نے خون کا عطیہ پیش کیا اور اس سے جو رقم حاصل ہوئی اس سے پروگرام کیلئے وقف کیا گیا۔ ‘

صفحہ ۲۰۹مصنف مزید لکھتے ہیں کہ جب منشی نصیر الدین اور مولوی بشیر احمد وکیل نے ایک ریڈنگ روم کھولنے کا فیصلہ کیا تو اس کیلئے یہ بھکاری بھی بن گئے۔ لکھتے ہیں :۔

  ’’ریڈنگ روم کو چلانے کیلئے اچھی خاصی رقم درکار تھی اور یہ دونوں کسی طرح اس کو چلاتے رہے، عید قریب تھی منشی صاحب نے مولوی بشیر کو مشورہ دیا کہ ہم عید گاہ میں بھیک مانگیں گے۔ عید کے دن جب سب لوگ نئے لباس پہنے ہوئے تھے تو ایک شخص کو بوسیدہ لباس میں دیکھا گیا اس کے ہاتھ میں کشکول بھی تھا۔ (صفحہ 256 )

      کتاب میں کئی ایسے ستاروں کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوں نے سرکاری نوکری کو خیر آباد کہا۔ شیخ محمد سلطان رنگریز اور غلام نبی ہاگرو نے نوکری چھوڑ کر کشمیر کے لوگوں کے حقوق کیلئے جدو جہد کی۔ شیخ محمد سلطان رنگریز بہت ہی زیادہ جرات مند تھے۔ انہوں نے ایک میٹنگ میں مرزا افضل بیگ کو کہا کہ اب تم نے بہت پیسہ کمایا تمہارا پیٹ کب بھرے گا۔ (صفحہ 109)

                کتاب میں کئی ایسے عظیم لوگوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے تحریک میں شمولیت کی وجہ سے انتہا درجہ کی کسمپرسی کی زندگی گزاری اوروہ نہیں بکے۔ شیخ محمد حسین کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں :۔

 ’’گھرگرہستی چلانے کیلئے انکو مزدوری بھی کرنا پڑی لیکن اس مشکل دور میں بھی وہ تحریک سے منسلک رہے۔ ‘‘ (صفحہ 106 )

  محمد صدیق بنگرو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک بار گھر کیلئے چائے کا پیکٹ خریدا اور اْس کے فوراً بعد وہ گرفتار ہوئے جب دو ماہ بعد چھوٹ گئے تو چائے کے پیکٹ کو ویسے ہی پایا۔ بیوی سے وجہ پوچھی تو جواب ملا ’’دو ماہ تک دودھ خرید نے کیلئے پیسے ہی نہ تھے‘‘۔ ( صفحہ 220 )

                بخشی غلام محمد نے ان کو نوکری کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار کیا۔ کسمپرسی کی وجہ سے وہ بیٹے کو تعلیم بھی نہ دلاسکے۔ کتاب میں ایسے کئی واقعات کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح لوگوں نے خود قربان ہونا پسند کیا تاکہ دوسروں کی جان بچ سکے:

                 ’’۲۱جنوری ۱۹۹۰ء کو جب کچھ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی تو شہر سرینگر میں جگہ جگہ جلوس نکالے گئے بسنت باغ کے پاس ایک ایسے ہی جلوس پر CRP نے گولی چلادی جس میں 52 افراد موقع پر ہی شہید ہوئے۔ اس جلوس میں شامل ایک چشم دیدہ گواہ محمد الطاف کے مطابق ایک 25 سالہ جوان ایک سپاہی کی طرف جو اپنی بندوق سے نہتے لوگوں پر گولیاں برسارہا تھالپکا۔ عبدالروف وانی نامی اس نوجوان نے بندوق کا رخ اپنے سینے کی طرف کیا۔ سپاہی نے پوری میگزین اس کے سینے پر خالی کی۔ روف نے ایسا اس وجہ سے کیا تاکہ یہ گولیاں اس کو لگے اور باقی لوگ بچ سکیں۔ روف کی لاش جب ملی تو اسکے سینے میں 32 سوراخ تھے۔ (صفحہ 128)

                کتاب اس پراپیگنڈہ کی بھی نفی کرتی ہے کہ شیخ محمد عبداللہ نے جو کچھ کیا لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ مصنف نے ایسے کئی واقعات لکھے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کی مخالفت کی گئی۔ البتہ شیخ محمد عبداللہ نے اپنے خلاف کسی بھی آواز کو سختی سے دبا دیا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جب شیخ محمد عبداللہ ایکارڈ کرکے کشمیر واپس لوٹے تو لال چوک میں ان کے لئے اسٹیج لگایا گیا۔ محمد اشرف نامی ایک شخص نے اسٹیج پر جاکر مائک چھین لی اور ایکارڈکے خلاف بہت کچھ کہا۔ (صفحہ 209) شیخ محمد عبداللہ ۱۹۴۷ء سے ہی اپنے مخالفین کے خلاف  سیاسی انتقام لے رہے تھے۔ مصنف لکھتے ہیں۔ ’’۱۹۴۷ء میں جب شیخ محمد عبداللہ نے انتظامیہ اپنے ہاتھ میں لے لی تو مسلم کانفرنس کے کئی کارکن جلاوطن کئے گئے۔ ‘‘ مصنف غلام احمد کشفی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہیں جب کہا گیا کہ شیخ محمد عبداللہ کیلئے قائد اعظم کا لقب اپنے اخبار میں لکھا کریں۔ اس پر انہوں نے انکار کردیا تو ’’ اگلی صبح شیر کشمیر بذات خود روز نامہ ’’خدمت‘‘ کے دفتر آئے۔ ان کے ہاتھ میں ہاکی تھی جس سے کشفی کی سر بازار پٹائی کی گئی ‘‘ حالانکہ کشفی اس وقت مانے جانے والے صحافی تھے۔ کتاب سے ایسے کئی واقعات کا پتہ چلتا ہے کہ "الہ کرے گا وانگن کرے گا” کا پروپاگنڈہ سراسر غلط تھا ہاں لوگوں کو خوف دلا کر یا جلاوطن کرکے شیخ صاحب مختار کل ہوگئے تھے۔

                مصنف نے کئی ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جہاں انسانی حقوق کی تذلیل کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں ایسا کرنے والوں کے خلاف کبھی سزا نہیں دی گئی۔ سرکردہ انسانی حقوق کے کار کن جلیل اندرابی کے قاتل کو جب سزا دی گئی تو ’’جموں و کشمیر کے حکام نے ڈرامہ رچایا لوگوں سے کہا گیا کہ ایک ٹیم دہلی روانہ ہوئی ہے جو مذکورہ فرارمیجر (قاتل) کو بھارت لانے کی کوشش کرے گی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ایسی کوئی ٹیم دہلی نہیں گئی تھی۔ (صفحہ 51 )

                یہ الگ بات ہے کہ قدرت نے جلیل کے قاتل میجر اوتار جو کہ کینڈا میں تھا کو کیسے سزادی مصنف لکھتے ہیں۔

  ’’جلیل کا خون رنگ لایا اور قدرت کا قانون چل گیا جب ۶جون ۲۰۱۲ء کو میجر نے اپنے اہل خانہ کو قتل کرکے اپنے آپ کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیا۔ (صفحہ 51 )کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے حکام ہمیشہ کٹپتلی رہے ہیں جلیل اندرابی کے کیس کے بارے میں مصنف کیس کی سماعت  کررہے جج صاحب نے بھری عدالت میں اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’عدالت انصاف کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ ‘‘ (صفحہ 50)

                 کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز لیگ نے کشمیر کی جدوجہد کیلئے بہت زیادہ قربانیاں دی لیکن قیادت کی آپسی  رنجش کی وجہ سے آج پیپلز لیگ کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔

      کشمیر کے ان گمشدہ ستاروں کو جمع کرکے مصنف نے اپنی نوعیت کا منفرد کام کیا ہے۔ کتاب پر مختلف پہلوئوں سے  ریسرچ ہوسکتی ہے۔ محققین کو یہ بھی دیکھناچاہیے کہ آخر وجوہات کیا ہیں کہ اس قدر اور اتنے عرصے سے کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں لیکن منزل ابھی بھی نظروں سے دور  نظر آرہی ہے۔ کتاب میں جموں صوبہ، جس نے لوگوں کے حقوق کیلئے کافی کام کیا ہے، سے وابستہ شخصیات کے بارے میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ مصنف کو کتاب کے آئیندہ ایڈیشن میں اس طرف توجہ دینے کی گزارش ہے۔ یہ ضرور مشکل کام ہے۔ لیکن اگر یہ کام کرتے ہوئے ان گمشدہ ستاروں کی زندگی کے چند اور باب آجاتے تو کتاب کا حسن اور بڑھ جاتا۔ یوسف جمیل صاحب نے کتاب کے پیش لفظ میں اس کمی کو محسوس کیا ہے اور یہ جواب بھی دیا ہے کہ ’’اجمال ہی حسن ہے‘‘۔ لیکن شخصیات کے معاملے میں یہ اصول فٹ نہیں ہوتا۔ خاکہ نگاری مشکل کام ہے قلم کار میں اس کے لیے قوت مشاہدہ، مردم شناسی، ہمدردی، اور ذاتی لگاو کے ساتھ ساتھ احساس میں توازن ہونا لازمی ہے۔ ساتھ ہی تعمیری اسلوب، شگفتہ بیانی کے بغیر خاکہ مردہ الفاظ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ اگرچہ مصنف نے ان سب باتوں کا خیال رکھا ہے لیکن امید ہے آئندہ ایڈیشن میں مزید خیال رکھیں گے۔ یہ کتاب اگرچہ اچھے کاغذ پر چھپی ہے لیکن کتاب پروفشنل طور پر نہیں چھاپی گئی ہے، ایسی اہم کتاب ہر گھر تک پہنچ جانی چاہئے اس لحاظ سے کتاب کی قیمت کم ہونی چاہیے۔ کاش کشمیر کے کچھ صاحب ثروت لوگ آگے آجاتے اور ایسی کتابوں کو سپانسر کرتے۔ اْمید ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ والدین سے امید ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو اپنے محسنوں سے روشناس کرانے کیلئے یہ کتاب ان کو تحفے میں دیں گے۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔