اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔!

شاہد جمال فلاحی 

    
    
        آج ہمارا ملک ہندوستان ایسے دورسے گزر رہا ہے جہاں افواہوں کی بڑی اہمیت ہے، ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو قصداً سچ سننا یا جاننا نہیں چاہتے ہیںاور انہیں لوگوں نے افواہوں کو سچ کا درجہ دے دیا ہے۔ اس ملک میں افواہوں کو سچ ثابت کرنے کی یہ کوئی نئی کوشش نہیں ہے لیکن ان دنوں جس طرح افواہوں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اس کے پیچھے ایک فرقہ وارانہ سازش پوشیدہ ہے۔ ایک ایسی فرقہ وارانہ سازش جس کا مقصد ملک میں خانہ جنگی کیلئے راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں کیلئے ملک کی زمین تنگ کرنا ہے۔
     مئی 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت سازی کے دن سے لیکر اب تک ملک میں افواہوں کا بازار گرم ہے ، حکمراں پارٹی نے اپنے سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے جو طریقئہ کار اپنایا ہے وہ بہت ہی شرمناک ہے۔ یوں تو ملک میں موجودہ حکومت کی زیر سر پرستی بہت سی افواہوں کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن گزشتہ چند مہینوں میںان افواہوں کی وجہ سے جو دردناک منظرسامنے آیا ہے اس نے ہماری انسانیت کو بڑے سے سوالیہ نشان کے ساتھ مشکوک دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ ان دردناک واقعات نے جن میں محض افواہوں کا ہی عمل دخل ہے نہ صرف یہ کہ پوری انسانیت کو شرمسار کیا ہے بلکہ ہمیںانسانیت کے صحیح مفہوم کو سمجھنے پر بھی مجبور کیا ہے۔آج میں اپنی اس تحریر کے ذریعہ گزشتہ چند مہینوں میںپیش آنے والے ان دردناک واقعات کی روشنی میں قارئین کویہ بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح جھوٹی افواہ کا سہارا لیکر ہندو انتہا پسند تنظیمیں ملک میں فرقہ وارانہ فساد کیلئے میدان تیارکر رہی ہے اور کس طرح گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے،
چند مہینے پہلے دادری میں جو شرمناک واقعہ پیش آیا وہ آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے، ہندو انتہا پسندو ں کی جانب سے ایک جھوٹی افواہ پھیلائی گئی اور بلا کسی تصدیق کے مندر کے پجاری نے مائک سے اعلان کر کے اس افواہ کو مزید ہوا دی اوراس طرح ایک بھیڑ نے محض جھوٹی افواہ کی بنیاد پر ایک شخص کی جان لے لی۔ موقع واردات پر پہنچ کر پولس نے بھی انسانی جان کے مقابلے اس جھوٹی افواہ کو ہی اہمیت دی اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنی قانونی کاروئی شروع کی۔ اس سے پہلے کہ پولس مجرمین کو حراست میں لیتی فریج میں موجود گوشت کو فارینسک جانچ کیلئے لیباریٹری بھیجنا زیادہ ضروری سمجھا گیا ۔ بعد میں جب فارینسک رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ مقتول اخلاق کے فریج میں موجود گوشت گائے کا نہیں بلکہ بکرے کا تھا۔ پولس کے اس عمل نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگرافواہ کے مطابق وہ گوشت بکرے کے بجائے گائے کا ہوتا تو کیا پولس اخلاق کے قتل کو جائز ٹھہرا دیتی ؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں جہاں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے، جہاں محض افواہ کو بنیاد بنا کر کسی کی جان لے لی جاتی ہے ۔
    پوری دنیا میں اس واقعہ کی مذمت کی گئی اور سیاسی لیڈران نے اخلاق کے اہل خانہ سے ہمدردی جتاتے ہوئے انہیں معاوضے کی پیش کش کی۔ لیکن نہ تو وہ مصنوعی ہمدردی اور نہ ہی معا وضے کی بڑی سے بڑی رقم اہل خانہ کی آنکھوں سے اس دردناک منظر کو دور کر سکتی ہے جب انہوں نے انتہائی بے بسسی کے عالم میں اپنے ہی گھر میں اپنی ہی آنکھوں کے سامنے جان سے زیادہ عزیز کو تڑپتے ہوئے آخری سانس لیتے دیکھا تھا۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا جو کہ اچانک ہوا بلکہ اس واقعہ کے پیچھے پوری منصوبہ بندی تھی، وہی منصوبہ بندی جس کا ابتدا میںمیں نے ذکر کیا ہے۔
    دوسرا دردناک واقعہ جو اسی ماہ میں جھارکھنڈ میں پیش آیا، اس میں بھی جھوٹی افواہ کا ہی عمل دخل ہے ، دو نو عمر مویشی پالنے والے بچوں کو صرف اس افواہ کی بنیاد پر قتل کر کے درخت سے لٹکا دیا گیا کہ وہ گائے کو مذبح خانہ لے جا رہے تھے، حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس تھی۔ اس شرمناک واقعہ کے فوراًبعد جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس میں یہ کہا گیا کہ جانوروں کو جھارکھنڈ سے باہر لے جانا غیر قانونی ہے ۔ ایسے وقت میں جبکہ وزیر اعلیٰ سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ مہلوکین کے رشتہ داروں کو انصاف کی یقین دہانی کرائیں گے اور مجرمین کو حراست میں لینے کیلئے احکامات جاری کریں گے ، وزیر اعلیٰ کا یہ غیر ذمہ دارانہ بیان نہ صرف یہ کہ قابل مذمت ہے بلکہ اس سے مجرمین کو مزید حوصلہ بھی ملتا ہے، وزیر اعلیٰ سے یہ سوال اب تک کسی نے نہیں کیا لیکن آج اپنی اس تحریر کے ذریعہ میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی شخص کا کوئی عمل غیر قانونی ہے تو اس کو سزا دینے کا حق کسے ہے ؟ ریاست کو یا اس مشتعل بھیڑکو جومحض افواہ کی بنیاد پر جھوٹ کو سچ ثابت کرکے معصوموں کی جان لے لیتی ہے؟، میرے لئے یہ واقعہ جتنا افسوس کن ہے اس سے کہیں زیادہ حیران کن وزیر اعلیٰ کا بیان ہے۔
    تیسرا واقعہ جو ابھی حالیہ دہلی میں پیش آیا ، جس میں چندلوگوں نے کسی ذاتی دشمنی کی وجہ سے ڈاکٹر پنکج نارنگ کو مار مار کر ہلاک کر دیا، اس واقعہ کو جس طرح جان بوجھ کر فرقہ وارانہ تصادم کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ، پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے ذریعہ یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ڈاکٹر کا قتل کرنے والے بنگلہ دیشی مسلم مہاجر ہیں ، اس افواہ سے ملک کی راجدھانی دہلی میں فرقہ وارانہ فساد کیلئے پوری طرح ماحول بن چکا تھا، اسی بیچ افواہ کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ایڈیشنل ڈی سی پی مونیکا بھاردواج نے مداخلت کی اور انہوں نے جو قدم اٹھایا وہ قابل تحسین ہے ۔ ایک پولس افسر سے ایسی ہی امید کی جاتی ہیکہ وہ نظم و ضبط کو جھوٹی افواہ کا شکار نہ ہونے دے۔ ایڈیشنل ڈی سی پی مونیکا بھاردواج نے ٹوئیٹر کا سہارا لیکر پورے معاملے کا سچ لوگوں کے سامنے رکھا اور اس جھوٹی افواہ کو سرے سے خارج کر دیا ، انہوں نے ٹوئیٹ میں یہ بواضح کیا کہ اس قتل میں 9 لوگ شامل ہیں جن میں 5 ہندو ہیں اور 4 مسلمان ہیں ، جن کا تعلق بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ یو پی سے ہے ۔ معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے لوگوں سے یہ اپیل کی کہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش نہ کریں۔
دادری اور جھارکھنڈ کے واقعات سے دہلی کے مذکورہ واقعہ کی نوعیت بالکل مختلف ہے ، اول الذکر دونوں واقعات میں جھوٹی افواہ کو بنیاد بنا کر کسی کی جان لی جاتی ہے جبکہ دہلی کے واقعہ میں قتل پہلے کیاجاتا ہے اور اس قتل کو جو کہ ذاتی رنجش کی وجہ سے ہوا ہے اسے فرقہ وارانہ شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے ، ان واقعات کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہیکہ کس طرح ہندو انتہا پسند ملک میں متحرک ہیں اور وہ ملک میں خانہ جنگی کیلئے کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کیلئے اور ہندو انتہا پسندوں کے منصوبوں کو ناکام کرنے کیلئے ایڈیشنل ڈی سی پی مونیکا بھاردواج نے جو قدم اٹھایا ہے وہ دادری اور جھارکھنڈ کے انتظامیہ کیلئے سبق آموز ہے۔
   میں اس مضمون میں دادری اور جھارکھنڈ کے واقعات کا ذکر کر کے پرانے زخموں کو کریدنا نہیںچاہتا تھا لیکن چونکہ میرا موضوع ملک میں پھیل رہی افواہوں کا سچ قارئین کے سامنے پیش کرنا تھا اسلئے ضمناً ان واقعات کا ذکر کرنا پڑا ، ان واقعات کے ساتھ ڈاکٹر پنکج نارنگ کے قتل کا ذکر بھی ضروری تھا تاکہ ہرزاویے سے ہندو انتہا پسندوں کی سازش کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ میں نے یہاں ان ہی واقعات کا ذکر کیا ہے جس کا علم تقریباً ہر شخص کو ہے، ان واقعات کے علاوہ بھی آئے دن ملک میں کہیں نہ کہیں ہندو انتہا پسندوں کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد کیلئے زمین تیار کی جا رہی ہے، جس کا علم پہلے سے ہی میڈیا ، پولس، انتظامیہ اور حکومت کو ہے لیکن اسے روکنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی جا رہی ہے بلکہ اس کے برعکس مرکزی حکومت جسے آر ایس ایس کی پشت پناہی حاصل ہے وہ ان انتہا پسندوں کو ہر لحاظ سے مدد فراہم کر رہی ہے تاکہ ہندتوا کے نام پر ووٹ بٹورا جا سکے اور آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔
   ترقی کے نام پر عوام کا اعتماد حاصل کر کے اقتدار میں آئی بی جے پی نے ملک کے ماحول کو اس قدرپرا گندہ کر دیا ہیکہ ملک میں بس ہر جگہ ہندو انتہا پسندی، مذہبی تعصب، فرقہ وارانہ تصادم اور نفرت کا ایک عام ماحول بن کر رہ گیا ہے، اقلیتوں اور دلتوں میں خوف کا ماحول ہے ، ملک کے تئیں ان کی محبت کو مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے عوام ایک دوسرے کو جان سے مارنے کیلئے آمادہ ہیں۔محبت، اتحادو اتفاق ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انسانی جانوں کی اہمیت رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انسان اور جانورمیں یہی فرق ہے کہ انسان (Thinking Animal)سوچنے والا جاندارہے جبکہ جانور اس سے محروم ہےں لیکن آج کے موجودہ تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہیکہ اب انسان اور جانور میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ہے، کیونکہ جانور تو فطری طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جبکہ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے با وجود اس کا استعمال نہیں کر رہے ہیں اور اس طرح محض افواہوں پر یقین کر کے آپس میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن کربی جے پی کے سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کر رہے ہیں۔
     ایسے وقت میں جبکہ ملک میں غربت،مہنگائی، بدعنوانی اوربے روزگاری عام ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مسائل کے حل کیلئے حکومت پر دباﺅ ڈالا جائے اور بیکار کی افواہوں اور فضول بحثوں سے گریز کیا جائے۔ بی جے پی یہی چاہتی ہیکہ عوام ان فضول کی بحثوں میں الجھ کر ملک کی ترقی کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں اور تقریباً دو سال سے ہم کہیں نہ کہیں شعوری و غیر شعوری طور پربی جے پی کے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔بی جے پی کی اس سازش کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان ہندو انتہا پسندوں کے خطرناک منصوبوں پر بھی نکیل کسنے کی ضرورت ہے جو جھوٹی افواہوں کا سہارا لیکر ملک میںخانہ جنگی کےلئے راہ ہوار کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے کے عوام کے درمیان سچ جاننے کی خواہش مٹ جائے اور افواہ کو سچ کا درجہ دے دیا جائے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔     

                       [email protected]  

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔