مسلم پرسنل لاء اوردستور ھند- ایک جائزہ

مھدی حسن عینی قاسمی رائے بریلی

رب کائنات نے کرہ ارضی پر تمام مخلوقات کو پیدا کرکے ان کےلئےغذا کا انتظام بھی کیا ہے لیکن انسان چونکہ "بہیمت اورملکوتیت”کا مجموعہ ہے اس وجہ سےاس کے لئے جسمانی و روحانی دونوں طرح کی غذاؤوں کا انتظام کیاگیا،انسانوں کی روحانی غذا انبیاء ورسل کی تعلیمات و پیغامات ہیں، اور اب نبی آخر الزماں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور ہدایات ہی کا نام "شریعت اسلامی” ہے اور ان کا سمجھنا فقہ کہلاتا ہے اور ان کو علمی و عملی طور پر بصیرت  کے ساتھ سمجھنے والا اوران کی تشریح کرنے والا فقیہ کہلاتا ہے،شریعت اسلامی کا مدار فوزوفلاح اخروی ہے، یہی بنیادی فرق اسلامی احکامات اورعدالتوں واسمبلیوں کےقوانین کے مابین ہے جس کی وجہ سے دنیوی عدالتیں  تمام حقوق واحوال کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، PERSONAL Law شخصی و ذاتی احوال Common Law مشترکہ قانون،جو ملک کے تمام باشندوں پر یکساں نافذ ہوتے ہیں،لیکن شریعت مطہرہ اس تقسیم کو نہیں تسلیم کرتی بلکہ شریعت کے پیغامات ہمہ جہت و عالمگیر اور معاشرت و معاملات،تہذیب و ثقافت،اجتماعی و انفرادی،خانگی وبیرونی،ملکی وملی سیاسی وسماجی الغرض تمامہائے شعبہائے حیات انسانی کو پیش آنے والے احوال و مسائل کو محیط ہوتے ہیں،ہمارے ملک عزیز میں بنیادی طور پر رائج "سول کوڈ” سےدو قسم کے احوال و قوانین نافذ ہوتے ہیں،”CIVIL CODE”جس میں یقینی طور پر "criminal CODE”یعنی جرائم پر تادیبی قوانین ملک کے ہر ایک باشندے کے لئے برابر ہیں،اس میں نسل و رنگ،مذھب و مسلک،ذات پات کی وجہ سےکوئی تفریق و امتیاز نہیں ہوتا،البتہ سول کوڈکا ہی ایک حصہ personal LOWکہلاتا ہے جو ملک کی مختلف اقلیتوں کو ان کے مذھب کی وجہ سے ملتا ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں،جن کو ان کے مذھبی احکامات کی وجہ سے بعض شعبوں میں  اختیارات ملتے ہیں کہ عائلی مسائل”نکاح و طلاق خلع،ایلاءوظہار، وقف و رضاعت” جیسے معاملات اگر ملکی عدالتوں میں دائر کئے جائیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں تو عدالتیں اسلامی قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کے پابند ہونگی، انہیں قوانین کے مجموعے  کوMUSLIM PERSONAL LOWکا نام دیاگیاہے،ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے نافذ کردہ مسلم پرسنل لاء محمڈن لاءبھی کہلاتاہے،اور اس کاثبوت قرآن و حدیث سے ہے،محمڈن لاء  کسی پارلمینٹ کاپاس کردہ قانون نہیں،لہذا محمڈن لاء کسی بھی ترمیم و تبدیل کی گنجائش  نہیں رکھتا،ہمارے ملک ہندوستان میں عرصے سے مسلم پرسنل لاء میں روشن خیال دانشورو سنگھ نوازاسلام مخالف لیڈران اپنی عقل و نظر کا استعمال کرکے عائلی معاملات پر انگلیاں اٹھاکر ملت اسلامیہ کے لئے پریشانی کا سبب بنتے آرہے ہیں،کبھی وہ تین طلاق کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں،کبھی نان و نفقہ کے مسائل میں گھس کر علامہ گوگل بنناچاہتے ہیں تو کبھی چارشادیوں پر اعتراض کرتے ہیں،عدالتوں میں کیس دائرکیاجاتا ہے یہ مالیخولیائی مفکرین اسلام کے محکمات کی مخالفت کرکے تعلیمات اسلامی کو دقیانوسی ثابت کرکے اپنے لئے فخر کی بات سمجھتےہیں،
ابھی کچھ دن پہلے کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس "بی،کمل پاشا” نے خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہوئے نہایت بھونڈا،غیر معقول و غیردانشمندانہ قیاس پیش کرتے ہوئے کہاتھاکہ جب مرد  چار شادیاں کرسکتے ہیں توعورتیں چار شادیاں کیوں نہیں کرسکتیں، اسی روش پر چلتے ہوئے دو دن پہلے کانگریس کے شینئر لیڈر و سابق وزیر "منیش تیواری”نےکہاکہ محمڈن لاء کیابھارت کے آئین سے بڑھ کر ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں؟،منیش تیواری کایہ اعتراض مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس عدالتی حکم کی مخالفت کی وجہ سے تھا جس میں سپریم کورٹ نے تین طلاق والے مسئلہ کی قانونی حیثیت کا پتہ لگانے کے لئے کمیشن تشکیل دینے کی بات کہی تھی،مسلم پرسنل لاءبورڈ کا موقف یہی تھاکہ محمڈن لاء کی بنیادقرآن و حدیث ہے جس میں تبدیلی کاکوئی جواز نہیں اور شریعت مطہرہ نے تین طلاق کے بعد بیوی کو کلیۃً علیحدہ کرنے کاحکم دیاہے،لہذا تین طلاق دینے کے بعد بیوی کو روکنا کسی بھی مسلمان کے لئے جائز نہیں،لہذا اس قانون شرعی میں ترمیم عدالت عظمی کے اختیار سے باہر ہے،نیز مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یونیفارم کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت عظمی سے سوال کیاتھاکہ قومی ایکتا و اکھنڈتاکے لئےکیا یونیفارم کایکساں ہونا ضروری ہے؟؟اگر ایساہی ہے تو یکساں سول کوڈ کے باوجود عیسائیوں کے مابین دودو عالمی جنگ کیوں ہوئیں؟ نیز ۱۹۵۶ میں ہندوکوڈ کے آنے کے بعد بھی ہندؤوں کے مابین ذات پات کااتنااختلاف کیوں ہے؟؟اس لئے آمنیش تیواری کوبورڈ کے اسی موقف پر اعتراض ہے،ایسا پہلی بارنہیں ہوا،مشہور سنگھی نواز لیڈر سادھوی پراچیا بھی کہ چکی ہیں کہ ہندوستان کی تعمیر میں مسلم پرسنل لاء ہی  سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لئے اس کو ختم کردیناچاہئے،ویسے تو مسلم پرسنل لاء کی تشکیل و ترتیب دستور سازی کے وقت ہی ہوچکی تھی لیکن اس پر بڑے پیمانے پر حملہ اس وقت ہوا جب    ۱۹۸۵ء میں ” شاہ بانو“ مقدمہ کا سپریم کورٹ نےمسلم پرسنل لاء کے  اِس دفعہ کے خلاف کہ مرد پرعورت کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس کی عدت کے ختم ہونےتک ہی ہے،  یہ فیصلہ دیا کہ اُس کا شوہر عدت کے بعد بھی اُس کے نفقہ وخرچہ کو اُٹھاتا رہے گا، تواِس فیصلے کے مخالفِ شرع ہونے کی وجہ سے تمام ہندوستانی مسلمانوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ نے مسلم خواتین کے لیے ایک نیا قانون پاس کیا، جس سے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ کالعدم قرار پایا۔اس کے باوجود آج پھر سرکاری عدالتیں نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق ایسے فیصلے صادر کررہی ہیں،اور ایسے اقدامات کی کوشش کررہی ہیں جو مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہیں،نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح کے فیصلے جہاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کاحصہ ہے۔مگر اِس میں ہم مسلمان بھی برابر کے قصوروار ہیں کہ اپنے اِس طرح کے نزاعات وجھگڑوں کو اپنے مذہبی اداروں (دار الافتاء، دار القضاء، شرعی پنچایت) سے حل کرنے کے بجائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ، اور اُنہیں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جب کہ کسی سرکاری عدالت کے اس فیصلے سے کہ -طلاق دینے والے پر عورت کی عدت کے بعد بھی اُس کا نفقہ وخرچہ لازم ہے- عورت اور اُس کے سرپرستان کے لیے اس نفقہ کا لینا شرعاً درست نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اللہ، رسول اور آخرت کی جزا وسزاپر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امورکو اپنے مذہبی اداروں سے ہی حل کرائے، اسی میں اس کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے﴿فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی أنفسہم حرجاً مما قضیت ویسلموا تسلیما﴾ ۔ ”سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہونگے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حکم نہ بنالیں اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو پورا پورا تسلیم کرلیں“۔ (سورہ نساء: ۶۵ اس آیت نے یہ صاف کردیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مقدمات محض لے آنا ہرگز ایمان کے لیے کافی نہیں، عقلی واعتقادی حیثیت سے اطمینان بھی رسول کے فیصلہ پر ہونا چاہیے، ہاں اس کے بعد بھی کوئی طبعی تنگی باقی رہ جائے تو غیر اختیاری ہونے کی بنا پر معاف ہوگی – حتی یحکموک فیما شجر بینہم – آپ کی حیاتِ مبارک میں تو آپ کا حَکَم بننا ظاہرہی تھا، بعد وفات آپ کی شریعت حَکَم بننے کے لیے کافی ہے، فقہاء نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ جو کوئی اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم میں شک وشبہ کرے یا ماننے سے انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
اب آئیے تفصیل و تحقیق کے ساتھ یکساں سول کوڈ کی حقیقت،ازروئےدستور ھند مذھبی آزادی کی حقیقت کو کھنگالیں، نیزایک  تنقیدی نگاہ دستور ہند اورموجودہ  مسلم پرسنل لاء پرڈالتے ہیں،ملک کے دستور کا دیباچہ بہت واضح ہے بھارت ایک آزاد، سماج وادی،سیکولرجمہوریہ ہے جس کے شہریوں کو سیاسی،سماجی اور معاشی انصاف حاصل رہے گا اور عقیدہ وعبادت کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی آزدی حاصل ہوگی نیز میعارو مواقع کے اعتبار سے سب شہری برابر ہوں گے ۔اس دیبا چے کے علاوہ دستور میںfundamental Rights کے قبیل سے  آرٹیکل 25 و26بھی ہیں  جس میں ملک کے تمام شہریوں کواپنے عقائد اور مذہب پرنہ صرف عمل بلکہ ان کی ترویج و تبلیغ کا حق بھی حاصل ہے اور مذھبی اداروں کا قیام بھی ہے، یہ حق بنیادی حق ہے جو نا قابل تنسیخ ہے ۔مگر اسی دستور میں آگے چل کر رہنما اصول کو جہاں متعین کیا گیا ہے وہاں آرٹیکل44میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت ہند کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش مسلسل کرتی رہے کہ بالآخر ملک کے تمام طبقات ایک یکساں سول کوڈ کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں 15-14،آرٹیکل25،-26آرٹیکل30 اورآرٹیکل44
کو اگر ایک ساتھ سامنے رکھ کر پڑھا جائے اور غور کیا جائے توناسخ ومنسوخ کا فلسفہ سامنے آجاتا ہے ۔بلکہ کبھی کبھی تو لگتا ہے  کہ مذکورہ تمام قانونی دفعات آرٹیکل44 کوسامنے رکھ کر ہی ترتیب دی گئی ہیں مثلاً دستور کے دیباچے میں سیاسی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر انصاف کو قائم کر نے کی بات کی گئی ہے مگر مذہبی اداروں کے قیام اور ان کے انتظام و انصرام کی آزادی کو بھی مشروط کیا گیا ہے۔ان دونوں کا حوالہ عموماً مذہبی آزادی کے ذیل میں دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ آزادی کس قدر مشروط ہے اس کی بات کبھی نہیں کی جا تی۔اس آزادی کو” نقض امن کےاندیشہ”کے تحت سلب کر لینے کی پوری آزادی حکومت ہند کو حاصل ہے نیز اس آزادی کو کسی بھی وقت محدود کر دینے کا اختیار بھی حاصل ہے ۔اسے ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی وقت ملک کا کوئی بھی مذہبی طبقہ کسی دوسرے مذہبی طبقے کی مذہبی آزادی کے خلاف بر سرپیکار ہو جائے تو قیام امن کے خاطر اس دفعہ میں ترمیم کرنے کے لئے حکومت با اختیار ہے ۔نیز یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ مذکورہ بالا دفعات15-14 اور دیباچہ دستور کے پیش نظر اگر عدلیہ ہی بر سر پیکار ہو جائے اور حکومت ہند سے مطالبہ کر ے کہ تمام ہندوستانی شہری انصاف کے حصول کی خاطر یکساں ہیں لہٰذا مذہبی بنیادوں پر تفریق کو ختم کیا جائے تو بھی حکومت ہند کے پاس دفعہ 25میں ترمیم یا تنسیخ کا حق حاصل ہے۔ اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اگر قانون کے رہنما اصولوں میں تحریر کی گئی دفعہ 44کا مطالعہ کریں جس میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات کی گئی ہے تو صاف محسوس ہو جا تا ہے کہ پورا دستور ہی در اصل اسی دفعہ کو ذہن میں رکھ کر تربیت دیا گیا ہے ۔واضح رہے کہ اس دستور سازی میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کا کوئی رول نہیں تھا کیوں کہ دستور ساز اسمبلی میں صرف کانگریسی نمائندے ہی موجود تھے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر اور کے ایم منشی نے زور دار طریقے سے یکساں سول کوڈ کی حمایت کی تھی ۔خود نہرو بھی1930سے ہی اس طرح کے یکساں قانون کے ہمیشہ حامی رہے اور در اصل ان کے اور”امبیڈ کر” کے اصرار پر ہی یہ دفعہ دستور کے رہنما اصولوں میں شامل کی گئی تھی۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ نہرونے1951میں ہی پارلیمنٹ میں ہندو کوڈ بل پیش کر دیا جسے ہندؤں کے شدید مخالفت کا سامنا تو ضرور کرنا پڑا مگر1954 سے  1956تک وہ پاس بھی ہو گیا ۔اس بل کے پاس ہونے کے بعد یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ میں محض مسلمان،عیسائی، اور پارسی ہی رکاوٹ ہیں ۔اب جبکہ پارسی اور عیسائی میرج ایکٹ میں بھی ترمیم ہو چکی ہے بودھ،سکھ اور جین پہلے ہی ہندؤں کے زمرے میں شامل ہیں تو اب بظاہر مسلمان ہی اس راستے کی تنہا رکاوٹ محسوس ہوتے ہیں ۔
1950میں نرسو مالی اور بمبئی حکومت کے مابین مقدمے کے فیصلے سے ہی اس یکساں کوڈ کے نفاذ کی جانب قدم بڑھائے جانے شروع کر دیئے گئے تھے بعد ازاں زہرہ خاتون بہ نام محمد ابرہیم الہ آباد،سرلا مدگل بہ نام حکومت ہند، محمد احمد خان بہ نام شاہ بانو بھوپال،دانیال لطیفی بہ نام حکومت ہند اور  6جولائی2015 میں ہندو ماں بنام عیسائی بچہ جیسے فیصلوں  میں ہر مرتبہ ججوں نے یکساں سول کوڈ کی حمایت کی اور دستور کے بنیادی حقوق کی دفعہ 14اور15کا حوالہ دیتے ہوئے آرٹیکل44کے نفاذکا مطالبہ کیا ہے ان میں سے کوئی بھی فیصلہ بادی النظر میں خلاف قانون نہیں ہے لیکن ہر فیصلہ یا تو خلاف شریعت ہے یا اس میں خواتین کے حقوق کی دہائی دے کر شریعت پر حملہ کیا گیا ہے ۔ ایک بین الاقوامی ماہنامہ "جرنل لا ء منترا”کی دوسری جلد کے پانچویں شمارے میں معروف قانون داں ڈاکٹر پرمندر کور نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان تمام مقدمات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے ایک سونچے سمجھے منصوبہ بند طریقے سے مگر انتہائی غیر محسوس انداز سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش مسلسل جاری ہے اور ملک کے عوام اور دانشور تک اسے محسوس نہیں کر پا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومتیں اپنی سیاسی مصلحت کے پیش نظر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔جہاں ایک طرف ملک کی عدالتیں مستقل کسی نہ کسی بہانے یکساں سول کوڈ کی پیروی کر رہی ہیں وہیں دوسری طرف ملک کی شدت پسند ہندو تنظیمیں و شخصیات  بھی اس کی وکالت میں رطب اللسان ہیں اور میڈیا بھی مستقل اصرار کر رہاہے مگر اس کوڈ کی بحث آج بھی 1948کی بحث سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے مسلم قیادت اور تنظیموں نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے انکار تو بہت شدت سے کیا ہے مگر آج تک کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ یکساں کوڈ کیا ہوگا اور کیسا ہوگا گزشتہ 70سال سے ملک کی تمام حکومتیں کبھی بھی سول کوڈ کا کوئی خاکہ پیش نہیں کر سکیں نہ ہی اس سلسلے میں کوئی رائے سامنے آئی ہے کہ آخر کون سی اتھارٹی ہوگی جو اس خاکہ کو پیش کرے گی اور ا س کے نفاذ کا طریقہ کار کیا ہوگا ۔محض انکار کر دینے سے ہم خود کو یکسا ں سول کوڈ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تسلیم کر لیتے ہیں۔جبکہ اگر ہم حکومت سے مطالبہ کریں کہ پہلے اس کا خاکہ پیش کرو پھر ہم اس پر بحث کریں گے تو یقیناًحکومت ہند دباؤ میں آجائے گی۔ اس لئے کی ایسا کوئی خاکہ پیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ 1870میں ہی تاج برطانیہ نے اعلان کر دیا تھا کہ ہندوستانیوں کے مذہبی امور میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ اس قبل ہندو عہد اور مغل عہد میں بھی کوئی مشترکہ سول کوڈ نہیں رہا اور سب نے اس امر کا اعتراف ہمیشہ سے کیا ہے کہ کسی بھی مذہب کے عائلی قوانین میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے گویا ایک ہزار سال کی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب میں کبھی بھی مشترکہ کوڈ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اس کے عدم موجودگی میں کسی عوامی نقض امن کا کوئی معاملہ بھی پیش نہیں آیا۔ اسی طرح آزاد ہندوستانی کی تقریباً70سالہ تاریخ میں بھی ہم ایک مشترکہ سول کوڈ کے بغیر بناکسی تنازع کے پرامن طور پر جی رہے ہیں۔ چنانچہ جب ہزاروں سال سے بنا کسی مشترکہ سول کوڈ کے ملک چل رہا ہے تو اب اس بحث کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے یہ مان بھی لیا جائے کی 1947میں آزادی کے وقت ملک کو ایک سیکولر اور بقائے باہم پر مبنی ریاست کے قیام کے لئے نہرو جیسے کچھ جدت پسند افراد نے مشترکہ سول کوڈ کی ضرورت محسوس کی ہوگی مگر آزاد ہندوستان کے گذشتہ 70سال کے احوال کے بجائے خود یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ ملک کوکسی مشترکہ کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے چنانچہ اب عدلیہ کو بھی اس انداز سے از سرنو غور کرنےکی ضرورت ہے کہ اپنے تبصروں و فیصلوں میں ایسی باتیں نہ کہیں  جن سے مختلف طبقات کے مابین کشمکش پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ حکومت ہند کی بھی ذمے داری ہے کہ عدلیہ سے سفارش کرے کہ اس قسم کے منافرت انگیز تبصروں سے گریز کرے ۔
ور نہ کم از کم عدلیہ کو ہی حکومت ہند سے براہ راست یہ سوال کرنا چاہئے کہ اس نے دفعہ44کی تنفیذکے لئے کیا کیا اقدامات کئے ہیں۔ ملک میں سیکولر اور مشترکہ سول کوڈ کی وکالت کرنے والی تنظیموں کو بھی حکومت ہند سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ دفعہ 44کی تنفیذکے لئے کئے گئے اقدامات پر قرطاس ابیض جاری کرے ۔ اور اگر اس سمت ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے تو پھر اس کا مطلب سمجھنا چاہیئے کہ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ ایک ملی جلی تہذیب والے ملک میں ناممکن الحصول امر ہے اور حکومتیں خود بھی اس قسم کے کوڈ بنانے اور ان پر عمل پیرائی کرانے سے عاجز ہیں ۔چنانچہ مسلم تنظیموں سمیت ملک میں قیام امن اور سماجی انصاف کے لئے کام کرنے والی تمام تنظیموں کو مطالبہ کر نا چاہئے دستور کے رہنما اصولوں کی دفعہ44کو فی الفورحذف کیا جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ دستور ہند کی منشاء سے متصادم اس دفعہ کے خاتمے کا مطالبہ آزادی کے بعد کچھ عرصے تک مسلم لیگ توکرتی رہی مگر 1969کے بعد اس نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا اور شریعت مطہرہ کے تحفظ کے لئے قائم مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے بھی اس سلسلے میں عموماً خاموشی ہی اختیار کی گئی حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک دستور میں دفعہ 44موجود ہے اور جب تک دفعہ14 اور15میں ترمیم نہیں کی جاتی اور دفعہ25اور 26کو غیر مشتروط نہیں کیا جاتا تب تک ہندستان میں مسلمانوں کی عائلی نظام پر تلوارلٹکتی رہے گی۔فعال و متحرک نیز مرکزی  تنظیم جمعیۃ علماء ھند  ومسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ پتوں کو چھوڑ کر جڑوں کی بیخ کنی کی تحریک کا آغاز کریں۔
کیونکہ کمال پاشا،منیش تیواری،سادھوی اور اس طرح کےہزاروں اسلام دشمن لوگ آر.ایس.ایس کے” ہندوراشٹر” کی تعمیر کے
خواب کو پورا کرنےکاذریعہ ہیں جن سے انہیں کی زبان  میں نمٹنا ضروری ہے،لیکن دستور کے دائرے میں رہ کر،موجودہ حکومت چونکہ ناگپوری منشاء کو پوراکرنے کےلئے سرگرم ہے،عدلیہ کو بھی اسی نظریہ کا حامل بنادیاگیاہے،اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ  علمائے ھند نیز فقہی اکیڈمیوں  کی بنیادی  ذمہ داری ھیکہ وہ محمڈن لاء کے عدالتی دفاع کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے چاروں طبقوں میں سے دوطبقوں "01.وہ حضرات جو قرآن و شریعت سے واقف ہیں،مسلم پرسنل لاء کی اساس اورروح کو جانتے ہیں یعنی علماء و مفتیان 02.وہ تعلیم یافتہ  لوگ  جودین وشریعت سے محبت کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں،پرسنل لاء کو جانتے اور  سمجھتے بھی ہیں، لیکن پرسنل لاءکی کچھ چیزیں دینی علم ناہونے کی وجہ سے ان کو کھٹکتی ہیں یعنی معتدل مزاج عصری تعلیم یافتہ احباب” کو ساتھ لیکران کی ذہن سازی کرکے مسلم پرسنل لاء کے متعلق انہیں مطمئن کرکے ان سے کام لیں، کانفرنسوں، عوامی جلسوں،ورکشاپ،سپوزیم،ہمہ لسان پمفلیٹ،جریدے،اخبارات ورسائل اور مسجدوں کے منبرنیز گاؤں و شہروں میں ان کے ذریعہ03. تیسرے طبقے کو یعنی عوام الناس کاطبقہ جو مسلم پرسنل لاء کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتے لیکن محمڈن لاء سے بالکل واقف نہیں ہوتے،ہماری تنظیمیں علماء و عصری تعلیم یافتہ حضرات کےذریعہ ان بھولی بھالی  عوام کو مسلم پرسنل لاء سے روشناس کرائیں،انہیں عائلی حقوق و بنیادی حقوق بتلائیں………. اور 04چوتھا طبقہ جو ان لوگوں کاہے، جو حقیقت پسندی سے دور،روشن خیالی و خود ساختہ  ترقی کے دل داہ،اپنے اساتذہ مغرب کے پروردہ ہیں،جن کےضمیر پر عقل کا غلبہ رہتاہے،وہ اسلام کو اپنی ناقص عقل سے تولنے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام دشمن بن جاتے ہیں،ہمارے علماء و معتدل دانشوارن ان مالیخولیائی لوگوں کی بیخ کنی کریں،ان کو علمی و تحقیقی طور پر جواب دیں،پھر یاتو وہ راہ ہدایت و صراط مستقیم پر آجائیں، یاروشن خیال "محبین دجالیت”ان کواغواء کرلیں،
خلاصہ یہ ھیکہ فاشسزم کے آقاؤوں کو اس ملک میں مسلمانوں کی مذھبی آزادی روز اول سے نہیں بھاتی اسی لئے وقتاً فوقتاً علم احتجاج بلند کرکے اپنی دریدہ ذھنی کاثبوت دیتےرہتےہیں،اور اس حمام میں بلاتفریق سبھی سیاسی جماعتیں ننگی ہیں، بس ضرورت ھیکہ ہم خود اپنے مسائل اپنے علماء سے حل کروائیں،اور سیکولر بھائیوں کو مسلم پرسنل لاء کی آفاقیت،عالمگیریت،
جامعیت اور ہمہ گیریت سے واقف کرائیں،
اوربذریعہ ڈائلاگ ان دعوت دین کافریضہ انجام دیں،کیونکہ ہم  نبی رحمت کے امتی ہیں،تحفظ دین و تبلیغ دین ہمارا شیوہ ہے،
mehdihasanqasmi44@gmail.com
09565799937
Adress.IHATA E MOLSARI 111
Darul Uloom  Deoband.
247554

تبصرے بند ہیں۔