میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں

عزیز نبیل

Aziz

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں
سرائے درد میں ڈیرہ جمائے بیٹھا ہوں

نبیلؔ ریت میں سکّے تلاش کرتے ہوئے
میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں

یہ شہر کیا ہے نکلتا نہیں کوئی گھر سے
کئ دنوں سے تماشہ لگائے بیٹھا ہوں

جو لوگ درد کے گاہک ہیں سامنے آئیں
ہرایک گھاؤ سے پردہ اٹھائے بیٹھا ہوں

بہت طلب تھی مجھے روشنی میں آنے کی
سو یوں ہوا ہے کہ آنکھیں جلائے بیٹھا ہوں

یہ دیکھو چاند، وہ سورج، وہ اُس طرف تارے
اک آسمان زمیں پر سجائے بیٹھا ہوں

نہ جانے کون سا عالم ہے یہ عزیز نبیلؔ
میں ریگزار میں کشتی بنائے بیٹھا ہوں

تبصرے بند ہیں۔