یہ آسماں یہ زمیں کوئی پائیدار نہیں
عتیق انظر
یہ آسماں یہ زمیں کوئی پائیدار نہیں اے کائنات مجھے تیرا اعتبار نہیں |
میں اپنی جنت گم گشتہ کی تلاش میں ہوں مرے نصیب میں اب عمر بھر قرار نہیں |
بچھڑ کے تجھ سے بسا لی ہے اک نئی دنیا مگر یہ کیسے کہوں تیرا انتظار نہیں |
کسی بھی شاخ سے پتہ گرا تو میں رویا مگر وہ باغباں ہو کر بھی سوگوار نہیں |
بدل لی راہ وفا اس نے اور میں نے بھی اسے بھی چین نہیں مجھ کو بھی قرار نہیں |
یہ کہ کر اڑنے لگے جھیل سے سبھی پنچھی ہوا میں زہر گھلا آ ب خوش گوار نہیں |
تبصرے بند ہیں۔