نئی زمین نیا آسمان مانگتے ہیں
عتیق انظر
نئی زمین نیا آسمان مانگتے ہیں
سخن فقیر غزل کی زبان مانگتے ہیں
سماعتیں ہیں گریزاں صدائے ماضی سے
ہم اپنے عہد کا طرز بیان مانگتے ہیں
نڈھال جسم ہیں پودے زمین تشنہ لب
دعائے رونق گیتی کسان مانگتے ہیں
انھیں میں واقعہ سچا سنانا چاہتا ہوں
مگر یہ لوگ کوئی داستان مانگتے ہیں
لگا کے آگ بہت مطمئن تھے جو کل تک
وہ آج شہر میں جائے امان مانگتے ہیں
بری نہیں ہے ہوس آسمان کی لیکن
بغیر پر بھی پرندے اڑان مانگتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔