پی گیا میں آنسوؤں کو دل پہ پتھر رکھ لیا
عتیق انظر
پی گیا میں آنسوؤں کو دل پہ پتھر رکھ لیا
اس کے جانے کی خبر کو گھر کے اندر رکھ لیا
وار میری پیٹھ پہ کرتا رہا بھائی مگر
میں ہوا جب رو بہ رو تو اس خنجر رکھ لیا
خامشی گہرائی وسعت اس قدر اچھی لگی
کہ دل بے تاب میں میں نے سمندر رکھ لیا
شہر کی سرحد سے باہر وہ کبھی نکلا نہیں
لیکن اپنا نام بھی اس نے سکندر رکھ لیا
پھر گئی جان غزل اپنی تسلی کے لیے
میں نے لفظوں میں غزل کا حسن پیکر رکھ لیا
اس کو پریوں کی کہانی ریت کے گھر کیا پتا
جس نے بچپن ہی میں گھر کا بوجھ سر پر رکھ لیا
تبصرے بند ہیں۔