مرے رستے میں رخنہ ڈالتے ہو
عتیق انظر
مرے رستے میں رخنہ ڈالتے ہو
رواں دریا میں تنکا ڈالتے ہو
مجھے میلے میں جب لائے ہو بابا
تو کیوں آنکھوں پہ پردا ڈالتے ہو
ندی کا ذکر تم کرتے ہو سب سے
مگر دریا میں قطرہ ڈالتے ہو
خبر اپنے کبوتر کی نہیں ہے
دگر چڑیوں کو دانہ ڈالتے ہو
بدن ہے شہر میں دل گاؤں میں ہے
یہ کیا جیون میں بادھا ڈالتے ہو
جدا کر دیتے ہو پھولوں سے خوشبو
شجر کو دکھ میں مولا ڈالتے ہو
کبھی شاخوں کو کر دیتے ہو عریاں
کبھی صحرا میں سبزا ڈالتے ہو
کبھی تعبیر بھی کوئی دکھاؤ
فقط آنکھوں میں سپنا ڈالتے ہو
بنایا شوق سے تم نے تو اب کیوں
انگیٹھی میں کھلونہ ڈالتے ہو
غزل میں لفظ کیا رکھتے ہو انظؔر
انگوٹھی میں نگینہ ڈالتے ہو
تبصرے بند ہیں۔