جس طرف دیکھو ہزاروں سلسلے بیتاب ہیں
عزیز نبیل
جس طرف دیکھو ہزاروں سلسلے بیتاب ہیں
اک ہماری جستجو ہے اور ہم نایاب ہیں
روح کے اندھے کنویں میں جھانک کر پاؤگے کیا
چند زخمی خواہشیں ہیں کچھ پرانے خواب ہیں
ہوش والوں سے کوئی کہہ دے کہ اپنے گھر کو جائیں
دشت میں آوارگی کرنے کے بھی آداب ہیں
بادلو جاکر بجھاؤ پیاسے دریاؤں کی پیاس
ہم وہ صحرا ہیں جو اپنے آپ میں سیراب ہیں
صرف تم ہی تو نہیں تھے میرے جینے کا سبب
زندہ رہنے کے مری جاں اور بھی اسباب ہیں
آنکھ سے دریا بہانے کا نتیجہ بھی تو دیکھ
خواب کے سارے علاقے آج زیرِ آب ہیں
ورنہ جس کو دیکھیے وہ دست بستہ ہے نبیلؔ
ہم ہی شاید شہر میں ناواقفِ آداب ہیں
تبصرے بند ہیں۔