میں نیند کے ایوان میں حیران تھا کل شب

Aziz

میں نیند کے ایوان میں حیران تھا کل شب
اک خواب مری آنکھ کا مہمان تھا کل شب

کس غم میں بکھرتے رہے آکاش پہ تارے
کیوں چاند پریشان پریشان تھا کل شب

ہرآن کوئی یاد چمکتی رہے دل میں
ہرلمحہ کوئی شورتھا، طوفان تھا کل شب

کیا جانیے کیا اُس کی ندامت کا سبب تھا
کیا جانیے کیوں میں بھی پشیمان تھا کل شب

اک نور سا پھیلا رہا اِس سمت سے اُس سمت
جگنو مری امّید کی پہچان تھا کل شب

پھر صبحِ منوّر کی بشارت ہوئی مجھ کو
پھر دور تلک راستہ آسان تھا کل شب

تبصرے بند ہیں۔