اچھی آنکھوں والے سپنے ہوتے ہیں
اچھی آنکھوں والے سپنے ہوتے ہیں
کب یہ اچھے سپنے میرے ہوتے ہیں
چہرے پر سورج کی کرنیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں بجلی کے کوندے ہوتے ہیں
ان کے منھ دھونے سے پانی کے چھینٹے
ہیرے موتی جگنو تارے ہوتے ہیں
ہنستے ہیں تو رات بھی اجلی ہوتی ہے
ورنہ یوں تو دن بھی کالے ہوتے ہیں
گلیاں ان کی پھولوں کی وادی جیسی
گھر کے منظر جنت جیسے ہوتے ہیں
در پہ کسی کے عمر بسر ہم کیا کرتے
لیکن کچھ ایسے بھی چہرے ہوتے ہیں
نظریں ان کی کب پڑتی ہیں قدموں پر
دیکھیں کیسے دل کے ٹکڑے ہوتے ہیں
یادوں کی پازیب سی بجتی رہتی ہے
جب ہم تنہا باغ میں بیٹھے ہوتے ہیں
کیسے کیسے میلے لگتے ہیں دل میں
کیا فرقت کے دن بھی اچھے ہوتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔