سرِ صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں

عزیز نبیل

Aziz

سرِ صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں
ضرورت آپڑے تو ریت کو پانی بھی کرتے ہیں

کبھی دریا اٹھا لاتے ہیں اپنی ٹوٹی کشتی میں
کبھی اک قطرۂ شبنم سے طغیانی بھی کرتے ہیں

کبھی ایسا کہ آنکھوں میں نہیں رکھتے ہیں کوئی خواب
کبھی یوں ہے کہ خوابوں کی فراوانی بھی کرتے ہیں

ہمیشہ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں
مگریہ یاد رکھیے گا کہ من مانی بھی کرتے ہیں

میاں تم دوست بن کر جو ہمارے ساتھ کرتے ہو
وہی سب کچھ ہمارے دشمنِ جانی بھی کرتے ہیں

یہ کیا قاتل ہیں، پہلے قتل کرتے ہیں محبّت کا
پھر اس کے بعد اظہارِ پشیمانی بھی کرتے ہیں

تجھے تعمیر کرلینا تو اک آسان سا فن ہے
رفاقت کے محل! ہم تیری دربانی بھی کرتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔