ڈی ایس پی تنزیل احمد کا بہیمانہ قتل: کرکرے،ضیاءالحق اب تنزیل۔ اگلانشانہ کون؟

مھدی حسن عینی

جس وقت یہ سطور سپرد قرطاس کررہاہوں،سکتہ کی کیفیت طاری ہے،سمجھ میں نہیں آرہاہے،کہ کیالکھوں،کس کولکھوں ,تنزیل کی شہادت پرسوگ مناؤوں یافرزانہ کے بیوہ ہونےکاغم،بچوں کے سر سےباپ کاسایہ اٹھنےپرچیخوں چلاؤں یاان کےسرپر ماں کا آنچل برقرار رہے اس کی دعاکروں؟؟

Tanzeel-photo

دماغ پر سنسنی کی کیفیت طاری ہے،آخرہراس جاں باز، محب وطن،نعروں سے نہیں لازوال عمل سے اپنالوہامنوانے والے سچے دیش بھکت کوہی کیوں راستہ سے ہٹادیاجاتا ہے،جوحکومت یاکارپوریٹ یاپھر سنگھیوں کے زیرسایہ کالی بھڑوں کے حقائق سے پردہ اٹھانے کےدرپہ ہوجاتاہے اورکچھ ایسی کڑیاں دیوان عام میں لایاہی چاہتاہےجس سے برسوں سےملک کو کھوکھلا کرنےوالی زعفرانی پالیسی کابھانڈاپھوٹ سکتاہے،جی ہاں اس کڑی کے سب سے پہلےشکار آنجہانی ہیمنت کرکرےتھے،جو کچھ ایسا خلاصہ کرنےوالے تھے جس سے  ایوان حکومت سے ناگپور تک  کی چولیں ہل سکتی تھیں،انہیں بےدردی سے موت کے گھاٹ اتاردیاگیا،پھر ضیاء الحق کواسی کاتاوان بھرناپڑا،راجہ کی لنکاڈھانے چلے تھے پر انہیں ہی بلی دے دی گئی.اوراب این.آئی.اے کےرکن رکین محمد تنزیل  کو اسی زعفرانی دہشت گردی کاشکار ہوکر کام سے ہاتھ دھوناپڑا،تنزیل احمد ڈی ایس پی رینک کےایک ایماندر افسر تھے، دہشت گردی اور مجرمانہ حقائق کو بے نقاب کرنے میں ان کا نمایاں کردار رہاہے۔

مئی 1991 میں بطور سب انسپکٹر کے طور پر انہوں نے بی ایس ایف میں شمولیت اختیار کی تھی ،شہادت کے وقت وہ بحیثیت اسسٹنٹ کمانڈر خدمات انجام دے رہے تھے، پٹھان کورٹ ایئر بیس حملہ کی تفتیشی ٹیم کےحصہ وہ اہم حصہ تھے ،گذشتہ دنوں پاکستان سے آئی جے آئی ٹی ٹیم کی کورکمیٹی میں بھی وہ شریک تھے ۔قومی تفتیشی ایجنسی(این.آئی.اے) کے افسر47سالہ محمدتنزیل گذشتہ اتوار کی شب اتر پردیش کے ضلع بجنور میں ایک شادی کی تقریب سے واپس آرہے تھے ،ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ فرزانہ اور دوبچے بھی تھے ،سیوہارہ علاقے میں رات ایک بجے دوبائک سوارسامنے سے آتے ہوئے ان پر اندھادھند فائرنگ کردی ،تقریبا 30 راؤنڈ گولیاں چلائی گئی ، پوسٹ مارٹم رپوٹ کے مطابق 12 گولیاں آر پار ہوگئیں ،محمد تنزیل زخموں کی تاب نہ لاکر جائے واردات پرہی جاں بحق ہوگئے ،ان کی اہلیہ فرزانہ شدید زخمی ہوکرفورڈنگ ہاسپٹل نوئیڈا میں  موت سے جنگ لڑرہی ہیں،البتہ ان کےدونوں بچے محفوظ ہیں۔

محمد تنزیل پرحملہ کس نے کیا؟،کیوں کیا؟ اورکس لئے کیاگیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی تحقیق کیلئے این آئی اے اور اتر پردیش کی خصوسی پولس تفتیش کررہی ہے ،جب تک این آئی اے کی تحقیق نہیں آجاتی ہے کوئی واضح بات کہنا قبل ازوقت ہے،تاہم پوسٹ مارٹم اوردیگر رپوٹس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ محمد تنزیل پر ہونے والا حملہ منظم اور منصوبہ بند تھا ،یہ حملہ کسی عام آدمی نے نہیں کیاتھا ، یا کسی معمولی شر پسندوں کی غنڈہ گردی نہیں ہے،محمدتنزیل کےبدن پرلگی گولیاں9 MMپستول کی ہےجو عام لوگوں کی دسترس سےباہرہے ،9 ایم ایم پستول کا استعمال انڈین آرمی اورسینٹر ل آرمی کرتی ہے،وزارت دفاع کی نگرانی میں اسے مغربی بنگال میں تیارکیاجاتاہے۔محمد تنزیل پٹھان کورٹ حملہ کی تفتیش کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے ،این آئی اے کے ساتھ وہ اس حملہ کی تحقیق کررہے تھے۔

ایسے تو حملہ ہوتے ہی پٹھان کورٹ حملہ کا الزام انکھ بند کرکے پاکستان کی ممنوعہ تنظیم جیش محمد پر لگایادیاگیا ،لیکن حملہ والی رات میں  ایس پی سلوندرسنگھ کے اغواہونےکے دعوی سے بہت سارے سوالات کوجنم دیاتھا۔

سلوندر کی پالی گرافی ہوئی، تفتیش چلی،پھر اسے خاموشی کے ساتھ دبادیاگیا،معاملہ کو مسعود اظہر کی جانب موڑ دیاگیا،لیکن اس راز سےاب تک پردہ نہیں اٹھ سکا ہےکہ ایئربیس تک دہشت گردوں کیسے پہونچے تھے،آیا اس کا ایکشن پلیئر سلوندر سنگھ ہی تھایایا کچھ اور معاملہ تھا،اب محمد تنزیل پر ہونے والے اس منصوبہ بند قاتلانہ حملہ نے پٹھان کوٹ ایئر بیس اٹیک کو مزید الجھادیا ہے اور یہ کہنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ یکم جنوری2016 کی شب میں ہونے والا پٹھان کورٹ ایئر بیس حملہ بیرون ملک کی سازش کا نتیجہ تھا یااس کو اندورن ملک سے معاونت ملی تھی ،26؍11 کے ممبئی حملہ کے تعلق سے یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ اس میں آر ایس ایس ملوث تھی ،ہیمنت کرکرے کو قتل کرنے کیلئے ایک منظم سازش رچی گئی تھی کیوں کہ انہوں نے دہشت گردی کے حقیقی چہر ہ کو بے نقاب کرنا شروع کردیا تھا ،بھگوادہشت گردی اوردہشت گردی کے معاملے میں آرا یس ایس کے ملوث ہونے کے ثبوت اسی کے بعد فوراًبعد ملنے شروع ہوگئے تھے،جس کے نتیجہ میں کرنل پروہت اورسادھوی آج تک جیل میں ہیں، کہیں ایسا تو نہیں پٹھان کوٹ حملہ کے پیچھے بھی بھگواآتنکی کارفرما
ہوں،پروہت کی طرح سلوندر کی پشت پناہی بھی ناگپور سے ہورہی ہو،اورشہید تنزیل اسی کاپردہ چاک کرنے والے ہوں،اور ملیٹری کےہتھیاروں سے انہیں موت کی نیند سلاکرزعفرانی دہشت گردی کےجن کو بوتل کےاندر ہی بندکردیاجائے، اور پھر اصل صورت حال سے بھٹکانےکے لئے زی.نیوزجیسے زرخریدٹیوی چینلوں کےذریعہ سےمرحوم تنزیل کے بہیمانہ قتل کو  ہزاروں کلومیٹر دور کی تنظیم داعش  سے اس کا
تعلق جوڑ دیا جائے اور کسی کو یہ شبہ تک نہ ہونے دیا جائے کہ پٹھان کورٹ حملہ آر ایس ایس کی سازش کا نتیجہ ہے ، انہیں اس لئے قتل کیا گیا ہے کہ وہ کچھ اہم حقائق کا انکشاف کرنے والے تھے۔

بھگوادہشت گردی کاچہرہ سے پھرنقاب اٹھنے والاتھا،اب حقیقت حال تو تفتیشی کمیٹی کی جانچ رپورٹ کے بعدہی سامنے آئےگی.کیجریوال نے ایک کروڑ معاوضہ کااعلان کیاہے،مودی جی کو تو سیاحت سے ہی فرصت نہیں،ملک کو بھاگوت رام دیو،گری راج اور سوامی چلارہے ہیں،تنزیل تو چلےگئے،کتنے اورکرکرےوتنزیل کو بھگوا دہشت گردی کاپردہ فاش کرنے کے لئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرناپڑےگا.
فرزانہ کو بھی کہیں راستے سے ناہٹادیاجائے؟؟یہ تو وقت ہی بتلائےگا،درندوں کااگلاشکار کون ہے؟؟انتظار کرئیے.دیکھتے رہئے.ہندی میڈیا میں تو رویش کی آواز نقار خانے میں طوطی کی سی ہے،اردو میں اب توازاد بھارت کااتہاس بھی کسی کےنذر ہوگیاہے،،حقائق سامنے آئینگےکیسے؟؟،لائےگاکون؟یہی سوال چبھ رہاہے،لکھناہے ابھی اورلکھناہے،پرکیاہم بھی محفوظ ہیں،تنزیل تو این.آئی.اے جیسے اسپیشل سلامتی دستہ کے رکن تھے،ہم تو ایک عامی ہیں،کہیں یہ چند سطر بھی بھگواآتنک کے بھینٹ ناچڑھ جائے؟کیونکہ کلبرگی، پنسارے کو ابھی تک ہم بھلا نہیں پائے،اگلا کلبرگی،آگے کاتنزیل کسے بنایاجائےگا،جاننے کے لئے بنےرہئے مودی جی کی اندھیر نگری میں،جہاں منصف شہر ہی قاتل ہوتاہے۔

کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔

ﺳﻨﻮ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﮨﮯ

ﯾﮩﺎﮞ ﻋﻘﻠﻮﮞ ﭘﮧ ﭘﺮﺩﮮ ﮨﯿﮟ

ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻨﺼﻒ ﮨﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺎ ﻗﺎﺗﻞ

ﯾﮩﺎﮞ ﮨﺮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﻃﻤﺎﻧﭽﮧ ﮨﮯ

ﯾﮩﺎﮞ ﺣﺎﮐﻢ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺖ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ

ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺤﮑﻮﻡ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﮨﺮ ﻇﻠﻢ ﺳﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ,ﺑﮭﻠﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﮩﺮ ﭨﻮﭨﮯ

ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺖ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﺳﻨﻮ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ

ﮐﮧ ﺟﻮ ﮈﭦ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﺩﺍﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ

ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﺍُﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ

mehdihasanqasmi44@gmail.com

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔