ایک سچی کہانی
عبدالعزیز
اصغر علی ایک بڑے شہر کے ایک دولت مند آدمی احمد حسین کا ڈرائیور تھا۔ اس کی بیوی رحیمہ اکثر بیمار ہوجاتی تھی۔ اصغر کو جو تنخواہ ملتی رحیمہ کے دوا علاج میں ایک بڑی رقم خرچ ہوجاتی جس سے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ حمیدہ اصغر کی اکلوتی بیٹی تھی، اس کی تعلیم پر بھی اصغر علی کو خرچ کرنا پڑتا تھا۔ جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر اپنے مالک احمد حسین اور اس کی بیوی طاہرہ سے وہ اپنی ضرورتوں کا ذکر کرتا تھا مگر طاہرہ اپنے شوہر احمد حسین کو سمجھاتی رہتی تھی کہ غریبوں کا یہ دھندا ہے ، روزانہ وہ ایک نہ ایک کہانی گھڑتے رہتے ہیں ۔ احمد حسین طاہرہ کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا۔ اور اگر وہ کبھی اپنے ڈرائیور کی مدد بھی کرنا چاہتا تو اس کی بیوی طاہرہ اس کے آڑے آجاتی۔
اصغر علی کو دس ہزار روپئے تنخواہ ملتی تھی ، اس میں ضروری اخراجات کے ساتھ ایک رقم اپنی اکلوتی بیٹی حمیدہ کے جہیز کیلئے جمع کرتا۔ جن دنوں میں اصغر علی کی بیٹی کا رشتہ اس کے خالہ زاد بھائی سے طے ہوا۔ انہی دنوں میں احمد حسین کی اکلوتی بیٹی حسینہ کی بھی شادی ہونے والی تھی۔ ڈرائیور اکثر و بیشتر دیکھتا تھا کہ حسینہ کیلئے ایک ایک لاکھ ،پچاس پچاس ہزار سے زائد کی قیمت کے کپڑوں کے جوڑے تیار ہورہے تھے اور پانچ لاکھ اور دس لاکھ کے سونے اور جواہرات کے زیورات خریدے جاتے۔ ڈرائیور اصغر علی یہ سب سنتا یا دیکھتا تو اسے اپنی بیٹی حمیدہ یاد آتی۔ حمیدہ اپنے باپ کی غربت کو دیکھ کر آس پڑوس کے لوگوں کے کپڑے سی سی کر گھر کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتی۔
ایک دن اس کی خالہ اس کی بیمار ماں کے پاس آئی اور اس نے کہاکہ ’’بہن جہیز میں ایک موٹر سائیکل بھی دینا ہوگا کیونکہ میرے بیٹے کا مطالبہ ہے‘‘۔
بہن نے کہاکہ ’’باجی؛ جہیز کی سب بات طے ہوچکی ہے پھر آپ بوجھ ڈال رہی ہیں ، یہ کیسے ہوگا؟ ‘‘
بہن نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے، سوچ لو، اگر پورا نہ کرسکو گی تو میرا بیٹا مشکل سے ہی شادی کیلئے تیار ہوگا‘‘۔ بہن یہ کہہ کر چلی گئی۔ ڈرائیور کی بیٹی حمیدہ سب کچھ سنتی رہی اور برداشت کرتی رہی۔ اپنی ماں کو سمجھاتی رہی کہ وہ پریشان نہ ہوں ۔ ماں کی بے چینیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور اس کی حالت ابتر ہوگئی۔ باپ کو وہ بار بار کہتی کہ ماں کو کسی اسپتال میں لے چلو مگر ان دنوں اسپتالوں میں ہڑتال تھی۔ باپ کہتا کہ اس کے پاس کسی پرائیوٹ نرسنگ ہوم میں لے جانے کیلئے اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ نرسنگ ہوم کا خرچ برداشت کرسکے۔
ادھر ڈرائیور اصغر علی سے احمد حسین کی بیوی اس کی دکھ بھری کہانی سنتے سنتے تنگ آگئی تھی۔ اس نے اپنے میاں سے کہاکہ ڈرائیور کا حساب کتاب دے کر ہمیشہ کیلئے رخصت کردو۔ اس کی عمر بھی ہوگئی ہے۔ کئی بار ڈرائیور کی غلط ڈرائیونگ کی وجہ سے ہم لوگ حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچے۔ احمد حسین نے اسی میں عافیت سمجھی اور ڈرائیور کو حساب کتاب دے کر چھٹی کر دی۔ ڈرائیور جب اپنے گھر پہنچا تو اس کی بیوی کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ وہ مشکل سے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ بیٹی نے باپ کو دیکھا تو کہاکہ ’’ابا جان؛ اپنی گاڑی لے کر آئیے۔ اماں کو کسی نرسنگ ہوم میں بھرتی کر دیجئے۔ اماں کی حالت اچھی نہیں ہے‘‘۔
اصغر علی نے کہاکہ ’’بیٹی ؛ میری نوکری ختم ہوگئی ہے، مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ اب گاڑی نہیں لاسکتے‘‘۔
بیٹی نے کہا کہ ’’اچھا آٹو رکشا بلاکر لائیے‘‘۔
باپ دوڑا دوڑا محلہ کے آٹو رکشا والے کے پاس گیا۔ رکشا والا تیار ہوگیا۔ جب اصغر علی نے دروازہ پر دستک دی تو بیٹی حمیدہ نے غمزدہ چہرے کے ساتھ دروازہ کھولا ۔ باپ نے کہا کہ ’’بیٹی؛ رکشا والا آگیا ہے‘‘۔
بیٹی نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ابا جان؛ اماں ہم سب کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلی گئیں ۔ وہ ہم لوگوں کو دکھ دینا نہیں چاہتی تھیں ‘‘۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔