دین نام ہے خدا کی بندگی اور اطاعت کا

عبدالعزیز

دینِ حق دو بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ کو حقوق اللہ کہتے ہیں اور دوسرے حصہ کو حقوق العباد۔ اللہ کے حقوق سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت، نماز، روزہ، حج وغیرہ جبکہ بندوں کے حقوق (حقوق العباد) سے مراد ہے انسانوں کے حقوق یعنی انسانوں کے ساتھ حقوق کی ادائیگی۔

عام طور پر لوگ اللہ کے حقوق کم و بیش ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو اس کیلئے نصیحت اور تلقین سے کام لیتے ہیں ، مثلاً نماز قائم کرنے کیلئے اکثر لوگ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ نماز کے بعد جو سب سے اہم چیز ہے زکوٰۃ کی ادائیگی۔ اس کیلئے بہت کم لوگ ایک دوسرے کو نصیحت اور تلقین کرتے ہیں ۔ بندے اگر اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی اور غفلت برتتے ہیں تو اللہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے مگر جو لوگ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتے ہیں ، اس کی حق تلفی کرتے ہیں تو اہ ایک ایسا گناہ ہے جو بندے ہی ایک دوسرے کو معاف کرسکتے ہیں ۔ جو لوگ دنیا میں لاپرواہی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہیں ، ان کے واجب حقوق کی ادائیگی نہیں کرتے وہ اللہ اور رسول کے نزدیک سب سے بڑے مفلس ہوتے ہیں ۔ کل قیامت میں ان کے پاس دینے کیلئے صرف ان کی نیکیاں رہ جائیں گی۔ جب ان کی نیکیاں دے دی جائیں گی جس کے ساتھ انھوں نے حق تلفی یا زیادتی کی ہے اور ان کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوم کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ڈال دیا جائے گا۔ ایسے لوگ قیامت میں بالکل مفلس اور کنگال نظر آئیں گے۔ اس لئے اللہ کے بندوں کو بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت کرنا انتہائی نقصاندہ ہے جس کی بھرپائی کوئی آسان کام نہیں بلکہ سب سے مشکل ترین کام ہے۔

 قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ اصل کے اعتبار سے دین نام ہے اللہ کی بندگی اور اطاعت کا مگرنتیجہ کے لحاظ سے غریبوں کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کا۔ ایک شخص اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا ہے مگر وہ بندوں کا حق ادا نہیں کرتا۔ ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، ملنے جلنے والے، پڑوسی سب کے ساتھ بے اعتنائی برتتا ہے تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کی عبادتوں کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل رہا ہے لیکن اگر وہ سب کا حق ادا کرتا ہے۔خاص طور سے غریبوں اور کمزوروں سے ہمدردی کرتا ہے، ان کے غم اورخوشی میں کام آتا ہے، ان کا بوجھ اٹھاتا ہے، ان کا سہارا بنتا ہے تو یہ چیز اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس کی عبادتیں قبول ہورہی ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کیلئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ریا کاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں ‘‘۔ (الماعون)

انفاق مال سے جی چرانا یا دکھاوے اور شہرت کیلئے مال خرچ کرنا اہل ایمان کا نہیں بلکہ کفار و مشرکین کا شیوہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’اور ان مشرکوں کیلئے تباہی ہے جو انفاق نہیں کرتے آخرت کے تو اصل منکر وہی ہیں ، البتہ جو ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے (یعنی انفاق سے کام لیا) ان کیلئے دائمی صلہ ہے‘‘۔ (سورہ حٰمٓ السجدہ8-6)

آج دنیا میں غریبوں اور کمزوروں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ ایسے لوگوں کی خاص طور سے غریب ملکوں میں لوگ دانہ دانہ کے محتاج ہیں ۔ وہ زندگی کی ضروری چیزوں سے محروم ہیں ۔ دوا، علاج کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ بچوں اور بچیوں کو پڑھانے یا تعلیم دلانے کیلئے پیسے نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس انہی ملکوں میں امیروں کے پاس دولت کی ریل پیل ہوتی ہے۔ ان کے پاس پیسے رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی، وہ غیر ملکوں کے بینکوں میں اپنی رقمیں جمع کرتے ہیں ۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں پانی کی طرح پیسے بہاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے ڈھیروں مال لٹا دیا۔

جو لوگ مشرک اور کافر ہیں ان کی بات تو الگ ہے، البتہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور مالدار ہیں، امیر ہیں وہ بھی غریبوں اور ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے۔ ان کی ضرورتوں کا مطلق خیال نہیں کرتے جبکہ ان کی فضول خرچی شاہانہ ہوتی ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں جو جماعتیں دین کا کام انجام دے رہی ہیں وہ مسلمانوں کو حقوق اللہ کی غفلت اور کوتاہی کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق میں لاپرواہی اور کوتاہی کے نتائج اور انجام سے آگاہ کریں ۔ آج ہمارا معاشرہ سنگدلی اور بے رحمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ پریشان حال ہیں ۔ ضرورت ہے کہ جن کو اللہ نے نوازا ہے وہ لوگوں کی پریشانیوں کو کم کریں ۔ زکوٰۃ کا ایسا اجتماعی نظم قائم کریں جس سے تنگ حال کو خوشحال بنایا جاسکے۔ جو معاشرہ میں غم زدہ ہیں ان کے چہرے پر خوشی اور مسرت کی لہر نظر آئے وہ بھی معاشرہ کے خوشگوار حصہ بن سکیں ۔ ان کا اضطراب اور بے چینی مسکراہٹ میں بدل جائے، سب کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکیں ، ہنس بول سکیں ، کوئی انھیں کمزور اور ناتواں نہ سمجھے۔ مفلسی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی ہے۔ کیونکہ مفلسی انسان کی عظمت کو گھٹاتی ہے۔ اسے معاشرہ میں بے اعتبار بناتی ہے۔ ولیؔ دکنی نے سچ کہا ہے :

مفلسی ہر بہار کھوتی ہے

 مرد کا اعتبار کھوتی ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔