ایک معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
حفیظ نعمانی
کسی وقت بہت اہمیت اختیار کرنے والے نتن گڈکری اس وقت اپنے لیڈر نریندر مودی اور ان کے داہنے بازو امت شاہ کی قصیدہ خوانی میں ہی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کوئی بی جے پی کو مودی اور امت شاہ کی پارٹی کہتا ہے وہ جھوٹا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی نظریہ پر مبنی پارٹی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ بی جے پی نظریہ کی پارٹی بنی تھی۔ جنتا پارٹی میں جن سنگھ کے نام کی جو پارٹی شامل ہوئی تھی وہ اگر جنتا پارٹی سے جن سنگھ ہی بن کر باہر آگئی ہوتی تو اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوتی لیکن جنتا پارٹی حکومت میں اٹل بہاری باجپئی کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا اور انہوں نے نہ صرف ہندوستان کے مسلم لیڈروں سے تبادلہ خیال کیا بلکہ عالم اسلام کے دورہ میں ہندوستانی عالموں کے چرچے سنے تو ان کا دماغ کھل گیا اور جب انہوں نے ایک پارٹی ایک نام ایک جھنڈا اور ایک دفتر کا پابند ہونے کی شرط نہیں مانی اور اپنی پارٹی کو لے کر باہر آئے تو اپنے جھنڈے میں ایک ہری پٹی لگاکر لائے اور یہی نظریہ تھا اور نظریہ کے خالق وہ اٹل بہاری باجپئی تھے جنہوں نے جن سنگھ کو ختم کیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی۔
جتنی سچ یہ بات ہے اتنی ہی سچ یہ ہے کہ 2014 ء میں حکومت بنانے کے بعد رفتہ رفتہ وہ مودی پارٹی ہوگئی ہے اور جھنڈے میں لگی ہوئی ہری پٹی رفتہ رفتہ دبتی جارہی ہے اور اب یہ پہچان بن گئی ہے کہ جو ورکر ہری پٹی والا مفلر ڈالتا ہے وہ اٹل جی کا ماننے والا ہے اور جو اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے وہ مودی نواز ہے اور وہ مودی کو ہی بی جے پی سمجھتا ہے۔
موجودہ مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کے بارے میں ایک برس سے یہ چرچا ہورہی ہے کہ اب بی جے پی کی حکومت بنی تو وزیراعظم نریندر مودی کے بجائے نتن گڈکری ہوں گے۔ 2018 ء کے آخری دنوں سے اب تک کئی نمائندوں نے ان کا انٹرویو لیا ہے۔ اور یہ انٹرویو اس لئے لئے گئے ہیں کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت صاحب کو نریندر مودی نے بہت مایوس کیا۔ انہوں نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کو اپنا سب سے بڑا کارنامہ کہا اور چاہا کہ سب اسے کارنامہ ہی مانیں۔ لیکن جو بات سرکاری کاغذات پر جیسے لکھی ہو وہ عام آدمی کے کلیجہ اور اس کی جیب پر کیسے لکھی ہے یہ وہی جانتا ہے جو عام آدمی کے قریب رہتا ہے۔ ان دونوں غلطیوں نے بی جے پی کو دس سال پیچھے پھینک دیا ایسا ہی زمانہ تھا جب پارٹی کے صدر کا انتخاب ہونا تھا تو اچانک نتن گڈکری صاحب آئے اور چیف صاحب کا حکم نامہ لائے کہ دہلی میں کوئی صدر بننے کے قابل نہیں ہے اس لئے گڈکری کو صدر بنایا جائے اور دوسری بار بھی ان کو ہی بنایا جائے۔
اس دن کے بعد رفتہ رفتہ شہرت ہونا شروع ہوئی کہ اب چیف صاحب گڈکری کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔ پھر میڈیا نے پتہ لگالیا کہ وہ صرف چیف صاحب کے دل اور دماغ سے ہی قریب نہیں ہیں بلکہ ان کا دولت خانہ بھی ان سے ملا ہوا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری وزارت میں اگر کسی وزیر کو زبان چلانے کی ہمت ہوئی ہے تو صرف گڈکری کو وہ ایسے جملے پھینکتے رہے ہیں جو مودی جی کے سینے میں جاکر لگے مگر اس کا جواب کوئی نہیں دیا گیا۔ لیکن دوسری طرف وہ مودی جی کا قصیدہ بھی پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بی جے پی کو پچھلی بار سے بھی زیادہ سیٹیں ملیں گی۔ اسی طرح جب ان سے معلوم کیا گیا کہ کیا بی جے پی میں بھی اندرا اِز انڈیا اینڈ انڈیا اِز اندرا کی طرح مودی بی جے پی اور بی جے پی مودی ہے تو گڈکری نے سختی سے تنقید کی اور کہا کہ ہماری پارٹی شخصی کبھی نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ سنجیدگی سے حالات کو دیکھ رہے ہیں وہ مانتے ہیں کہ اس کا بالکل اُلٹا ہوگا لیکن نتن گڈکری لڑکر کرسی نہیں لے رہے بلکہ جس چیف نے مودی کو سب کچھ دیا وہی صرف اتنا کہیں گے کہ اب نتن گڈکری کو بلاکر اپنے ہاتھ سے کرسی پر بٹھادو اور ان کو تعمیل کرنا پڑے گی۔
ٹی وی چینل اے بی پی کے ایک سینئر رپورٹر ان کے دروازہ پر آئے انداز ایسا تھا جیسے بغیر پروگرام کے آئے ہوں کیونکہ گڈکری ڈائننگ روم میں تھے وہیں ان کو بلا لیا اور اس بہانے وہ شاندار کمرہ بھی دیکھ لیا تھوڑی دیر کے بعد وہ دولت خانہ کے دوسرے حصہ میں آئے اور وہاں بیٹھ کر چائے پی۔ ملاقات کا موضوع وہی تھا کہ آپ جب وزیراعظم بن جائیں گے تو؟ اور وہ ہنس کر کبھی مسکراکر پہلے کہتے تھے کہ بی جے پی کی حکومت میں مودی جی سے اچھا کون وزیراعظم ہوسکتا ہے؟ اور پھر ٹہلتے ٹہلتے لان میں آگئے اور اس طرح انہوں نے اپنا پورا مکان دکھا دیا جو شرد پوار کے مکان سے کہیں زیادہ خوبصورت اور بڑا ہے۔ اور مودی جی کا قصیدہ پڑھتے پڑھتے یہ بھی کہہ دیا کہ حکومت بی جے پی کی نہیں این ڈی اے کی بنے گی۔
وزیراعظم مودی نے الیکشن سے سمجھ لیا تھا کہ وہ جو انہوں نے نوٹ بندی کے بعد کہا تھا کہ مجھے صرف 50 دن دے دو پھر بھی مگر ملک کندن بن کر نہ نکلے تو جس چوراہے پر چاہو مجھے سزا دے دینا اور قوم نے اس بات کو بے وقوفی سمجھا اور پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ اس کے بعد جی ایس ٹی لگاکر ہر ایک ہفتہ کے بعد پیچھے ہٹنا شروع کیا اور انجام یہ ہے کہ نہ جی ایس ٹی رہی اور نہ وہ صورت حال جو پہلے تھی تو انہیں سمجھ لینا چاہئے تھا اور وہ سمجھ گئے کہ اپنے دن گئے اسی لئے انہوں نے بی جے پی کے بجائے این ڈی اے پر زور دینا شروع کیا اور جو پارٹی جن شرطوں کے ساتھ آئی اسے لے لیا۔ اور نتن گڈکری اسی لئے سب کچھ کہنے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ ہماری پارٹی میں خاندان راج نہیں ہوسکتا اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت بی جے پی کی نہیں این ڈی اے کی بنے گی یعنی وہ این ڈی اے کے وزیراعظم ہوں گے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔