خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی!

عالم نقوی

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی!

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے کہ معلوم  دنیائے انسانیت کےبڑے حصے پر، ’خیر امت ‘ کا تاج سر پہ سجائے اسی امت  وسط کی حکمرانی تھی۔ لیکن قرآن کریم کے مقرر کردہ ’معیار ِاَعلَون‘ پر باقی نہ رہنے کی وجہ سے وہ ڈھال ہم سے چِھن گئی جو بیرونی سازشوں سے ہماری حفاظت کرتی تھی۔ ’یہود و مشرکین ‘ دنیا میں دو ایسی قومیں ہیں جنہوں نے، اپنی تمام تر سائنسی و مادی ترقیوں کے باوصف، عالم انسانیت کو شرف انسانیت سے  نیچے گرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تاریخ انسانیت کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ یہی دونوں (الیہود والذین اشرکوا) دنیا میں دو ایسی قومیں ہیں جنہیں اہل ایمان یعنی اہل توحید و نبوت و آخرت) سے اشد ترین عداوت ہوگی (المائدہ۔ ۸۲)۔

 دنیا سے امت وسط کے خاتمئہ اقتدارکے متعدد اسباب میں سے ایک  سبب یہ بھی ہے۔بلا شبہ داخلی کمزوریاں، خامیاں، اور غلطیاں نہ ہو تیں تو یہ خارجی سبب بار نہ پاسکتا۔ لیکن، یہود و مشرکین کی دائمی عداوت اور سازشوں سےانکار بھی ممکن نہیں۔

اگر ہم دنیوی نقطئہ نظر سے بھی انسانیت کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں بار بار ایسے حالات پیدا ہوتے رہے ہیں جب زمین ’مستضعفین‘ کے لیے سخت ہو گئی ہے اور کسی نہ کسی بندئہ خدا نے کھڑے ہو کر حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے۔

شرک پر مبنی دنیا کا سب سے قدیم مذہب، حضرات نوح  وابراہیم علی نبینا علیہم السلام کے درمیانی زمانے میں تین ہزار سال قبل مسیح مختلف علاقائی نبیوں کی تعلیمات میں بتدریج تحریف کے نتیجے میں ظہور میں آیا ہوگا۔ دنیا کے بقیہ تین مذاہب ’تاؤ ازم‘ (چھے سو قبل مسیح )’بدھ ازم‘(پانچ سو پچیس برس قبل مسیح )اور ’کنفیوشس ازم‘ (پانچ سو سال قبل مسیح)، یعنی حضرات موسی و عیسی علی نبینا علیہم السلام کے درمیانی عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی شکل یہ سبھی ’الذین اشرکوا‘ کی فہرست میں داخل ہیں۔ سامری کے بچھڑے کی پرستش کا معاملہ تو عین حضرت موسی ٰ ؑ ہی کے زمانے کا ہے۔

بودھ اور جین مذاہب کی ابتدا، ویسے تو ’پیدائشی بلندی و پستی ‘، ’پیشے‘ اور’ ذات پات ‘ پر مبنی نسل پرستی، ظلم اور فساد فی ا لارض والے برہمنی (آریائی )سماجی نظام کے خلاف بطور احتجاج و مزاحمت ہوئی تھی لیکن بعد میں وہ خود بھی برہمنوں کے زیر اثر مختلف انحرافات کا شکار ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ  خود اپنے بانیان مذاہب سدھارت گوتم اور مہاویر کے بت بنا کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اور اس طرح بالفعل ’والذین اشرکوا ‘ ہی کا حصہ بن بیٹھے اور قافلہ انسانیت اس ’ظلم عظیم ‘سے پوری طرح نجات حاصل نہیں کر سکا۔

کہا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس (سترہ سو نواسی عیسوی) عالم انسانیت کی تاریخ کا ایک عظیم ’سنگ نشان ‘ ہے جس نے غلامی اور نابرابری سے دکھی انسانیت کو حریت (لبرٹی) مساوات اور اخوت کے بھولے ہوئے  سبق دوبارہ یاد کرائے۔ امریکہ بھی اس سے چند سال قبل (سترہ سو تراسی عیسوی میں ) یورپی لٹیروں  کی غلامی  کا طوق اپنے گلے سے اتار چکا تھا۔ اس نے ’جمہوریت ‘کے تصور سے دنیا کو روشناس کرایا لیکن عالم انسانیت کے مسائل جوں کے توں باقی رہے۔

نتیجے میں قریب سواسو سال بعد انیس سو سترہ میں سماجی انصاف (سوشل جسٹس )کے لبھاؤنے اور دل پذیر نام پر ایک اور انقلاب ’بالشویک ‘ کے نام سے یورپ سے متصل ایشا کے خطہ روس میں برپا ہوا جس نے ’سلطانی جمہور ‘ کے تصور کو سماج واد (سوشلزم ) اور اشتراکیت (کمیونزم ) سے جوڑ دیا لیکن داخلی نظریاتی خامیوں اور خارجی سامراجی سازشوں نے اسے بھی محض تہتر برسوں میں تاریخ کے کوڑے دان میں پہنچا دیا۔ چین آج صرف کہنے کو ایک کمیونسٹ ملک ہے، عملاً وہ سرمایہ دارانہ معاشی طریقئہ کار ہی پر عامل ہے۔

آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری حصے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیامیں نہ تو’ سماجی انصاف ‘کا بول بالا ہو سکا ہے اور نہ’سلطانی جمہور‘ کا زمانہ اپنے خالقوں کے تصور کے مطابق دنیا میں آسکا ہے۔ اس کے بر خلاف، بقول رشید کوثر فاروقی :

پہلے اک بادشہ کا رونا تھا۔ اب تو جنگل ہے شہر یاروں کا

ابراہم لنکنؔ کے یہ الفاظ ’پیراہن ِحقیقت‘ میں ملبوس ہونے کے بجائے آج بھی محض ایک ’پیکرِ خواہش ‘ بنے ہوئے ہیں کہ:

 ’’عوام کے لیے، عوام کے ذریعے قائم ہونے والی عوام کی حکومت کبھی روئے زمین سے فنا نہ ہوگی۔‘‘

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے !

  سوال یہ ہے کہ ہم سے غلطی کہاں ہوئی ؟

لیکن اس کے جواب سے پہلے ایک تصویر موجودہ دنیا کی اور ملاحظہ ہو :

کیا ہمیں نظر نہیں  آتا کہ قریب انتیس برس قبل   سو ویت یونین کے ٹوٹنے، کمیونزم کے خاتمے اور دنیا کے ’دو قطبی ‘ سے ’یک قطبی ‘ ہو جانے کے بعد’ سب‘ نے مل کر’ ایک‘ کے خلاف ایکا کر لیا ہے! آج پوری دنیا اسلام دشمنی اور  اسلامو فو بیا  کی شکار ہے۔ اہل ایمان کے دائمی دشمنوں نے دو کام کیے ہیں۔ ایک تو خود مسلمانوں ہی کے اندر مسلمانوں کو کافر قرار دےکر بنام جہاد ان کا قتل عام کرنے والی’خوارج‘ کی  تنظیمیں کھڑی کی ہیں جن کی پوری مالی اور عسکری مدد انہوں نے خود اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اور دوسری طرف ان خوارج کا مقابلہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ عالمی صہیونی پریوار سے لے کر بھارتی سنگھ پریوار تک سب کے سب دنیا کو بخیال خود ’اسلام مُکت ‘ اور مسلمان مُکت ‘بنانے کی سازشوں اور فرعونی و یزیدی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

بوسنیا اور چیچنیا میں کس کا قتل عام اور کس کے  نسلی صفائے کا کام  ہوا ؟ فلسطین، عراق، افغانستان، پاکستان، سیریا اور یمن، الجیریا ونائجیریا وغیرہ میں کس کا قتل عام اور نسلی صفائے کی ابلیسی کوششیں جاری ہیں ؟ بھارت کے صوبئہ گجرات، بہار کے بھاگل پور، جمشید پور اور یو پی کے میرٹھ، ملیانہ، ہاشم پورہ اور مظفر نگر میں جو کچھ ہو چکا ہے  وہ کس کے خلاف تھا ؟اور  بھیڑ جمع کر کے سرکاری سرپرستی میں بابری مسجد کی شہادت  کا جرم عظیم !  اور  اب، پچھلے پانچ برسوں کےتخریبی  تجربے کے بعد سنگھ پریوار کے عزائم کیا ہیں ؟

بات در اصل یہ ہے اور یہی تمام دشمنان اسلام کے’اسلامو فوبیا‘ اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے انجام دی جانے والی  دہشتگردیوں کا اصل سبب ہے کہ اسلام ہی فقط  ایسا نظام  ہے جو دنیا میں معیاری سماجی انصاف قائم کر سکتا ہے۔ حریت، رنگ و نسل ذات پات، قبیلے اور قومیت کے بے جا امتیازات  سے آزادی، سماجی، معاشی، علمی اور سیاسی ہر طرح کا انصاف، انسانی اخوت، عالمی برادری اور مساوات یہ سب بذات خود اسلام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اسلام ہی بیک وقت ان سب کا داعی ہے۔ اسلام کی دعوت ’رَبُّ العالمین ‘ کے نمائندے ’رحمت للعالمین ‘کی دعوت ہے۔ اسلام میں کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت یا بالا دستی محض اس لیے حاصل نہیں کہ وہ عرب ہے یا  گورا ہے یا کسی مخصوص سفید فام نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ پیدائشی بلندی و پستی کے فاسد ابلیسی، صہیونی، نازی اور برہمنی آریائی نظریے سے اسلام راستین کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسلام کا تو بس ایک ہی آفاقی اصول ہے : ان اکرمکم عند ا للہ اتقکم۔ ۔اسلام میں بلندی و پستی اور عزت و ذلت  کا معیار رنگ، نسل، قوم، قبیلہ، ناک، پیشانی اور آنکھوں کی بناوٹ نہیں صرف اور صرف تقویٰ ہے ! یعنی اللہ اور اس کی حضوری کے دن کا خوف۔ اسلام ہی ’’الخلق عیال اللہ‘‘ کا حقیقی داعی ہے۔ اسی لیے وہ  ’حقوق العباد ‘ کو ’حقوق اللہ ‘ پر فوقیت دیتا ہے۔ ان معنیٰ میں کہ حقوق اللہ کا معاملہ تو صرف اللہ اور اس کے بندوں کے مابین ہے لیکن حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی اس لیے زیادہ سنگین ہے کہ جب تک بندہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے دوسرے بندے کو معاف نہیں کردے گا اللہ بھی اسے نہیں بخشے گا۔

ہم سے غلطی یہی ہوئی کہ ہم نے اسلام کے پیغام کو ’’مستضعفین فی ا لارض ‘‘ تک پہنچانے کا حق ادا نہیں کیا۔ بلکہ خود بھی یہود و مشرکین با لخصوص  آریوں اور براہمہ  کے نقش قدم پر چلنے لگے اور ’’ان اکرمکم عند اللہ اتقکم ‘‘ کے بجائے بلندی و پستی کے وہی  غیر انسانی اور ابلیسی معیار ات اپنے یہاں بھی رائج کر لیے۔

اور غلطی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اسے تسلیم کیے بغیر اس کی اصلاح ممکن نہیں۔

یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ یہاں جو بوئیں گے وہی کاٹنا پڑے گا۔ یہاں ایمان اور عمل  صالح دونوں ساتھ ساتھ ضروری ہیں۔ صرف کوئی ایک، تنہا، نجاتِ اُخرَوی اور حصول ِجنت کے لیے کافی نہیں۔ کم از کم قرآن سے تو یہی ثابت ہے کہ جس میں حذف و اضافہ ا ور  تحریف   ممکن نہیں۔

ٹھیک ہے کہ ہم  پور ا معاشرہ، پورا ملک  اور پوری دنیا تو کیا صرف  اپنے تمام زیر دستوں اور  صرف اپنے گھر والوں کو بھی  نہیں بدل سکتے لیکن، ہم خود اپنے آپ کو ضرور بدل سکتے ہیں کہ اپنا نفس اور اپنا جسم خود ہمارے اختیار میں ہے۔

تو آئیے ہم وہ کام ابھی اور اسی وقت شروع کردیں جو ہمارے بس میں اور ہمارے اختیار میں ہے۔ اس لیے کہ’ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ‘۔ اور لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھم۔ یقیناً اللہ کسی قوم کے  حالات  کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ   کو نہ بدلیں۔ اور جب اللہ کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کر لیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا اور نہ  اس کے علاوہ کوئی کسی کا والی و سرپرست ہے (الرعد ۱۱) جب لوگوں پر ظلم و زیادتی عام ہو جائے، جب لوگ خدمت خلق اور نیکی کرنے کی عادت چھوڑ دیں اور جب لوگ شکر نعمت کرنے کے بجائے کفران نعمت کرنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ نہ صرف وہ نعمتیں چھین لی جائیں گی بلکہ عذاب بھی ضرور نازل ہوگا۔ اللہم احفظنا۔

تبصرے بند ہیں۔