جمہوریت، مذہب اور دوسری نشہ آور چیزیں

ڈاکٹر سعد احمد

جمہوریت، مذہب اور دوسری نشہ آور چیزیں صرف ایک مادی دنیا کی کہانی ہیں یا ان کے پرے بھی کوئی چیز ہے۔ خیالات برگشتہ ہوتے ہیں، رجحانات متذبذب، عقلیت کے خلا بازوں کی منطق مدھم، شکستہ اور ملگجی نظر آنے لگتی ہے۔ اور کبھی یکایک ہوش و خرد کے خود ساختہ ماحول کو عجب طور پر منور کردینے کا اعلان کرتی ہے۔ جی ہاں، ہم جس فکری پیراے میں اپنے شعور کو پروان چڑھا رہے ہیں وہ منجملہ نشہ پر محیط ہے۔ اول الذکر جمہوریت کا فسانہ اہم ترین ہے، اس لیے نہیں کہ یہ  عوام کے لئے غیر متباد ل اکسیر ہے، تاکہ لوگ اس کے ذریعےاپنے سیاسی شعور کو بیدار رکھیں (ضروری یا غیر ضروری) اور عمدہ زندگی جینے کے تصور سے محظوظ ہوتے رہیں۔ بلکہ جمہوریت کوایک نظریہ، گمراہ کن  ترقی کی منطق یا ایک جاذب مگر نادیدہ نظریوں، رقیق قوتوں، تہذیبی یلغار، قومی ثقافتی یادداشتوں سے عدم تسلسل، ہوا خواہوں کی بھٹی کو مزید بھڑکانے والی اداریاتی فیکٹری کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں بنیادی طور پر جمہوریت انھی افہام و تفہیم کی مرہون ہے جو کہ مغرب کی انفرادی حقوق کی ایک لمبی لڑائی کی شکل میں وجود میں آئی۔ مگر اس تفہیم میں تجربہ ذرا الگ نوعیت کا  ہے، جو کہ خالصتا تعمیری اور اصلاحی ہے  اور مذ ہب و  ملت کا دشمن بھی نہیں۔

نظریاتی طور پر ہندوستانی جمہوریت کو غیر جانبداری کے وہی اقدار حاصل ہیں جو کہ مغربی ممالک کو ہے۔ یعنی Seculerism مگر موجودہ دنیا میں سیکولر ازم کی تین بڑی مثالوں میں ہندوستانی جمہوریہ کو استثنائی حیثیت حاصل ہے۔ ان تین بڑی مثالوں میں اولاً Liberty, Equality, Fraternity کا بانی ملک فرانس ہے؛جہاں "Laicite” کا اختیاری سلوک مذہب کو یکسر منسوخ کردیتا ہے۔ دوسرا ترکی جہاں سیکولرزم کے جارحانہ انداز نے عوام کے مذہبی جذبات کی بھی سرزنش کرنے کی (ماضی میں ) کوشش کی ہے۔ لیکن ہندوستانی جمہوریت کا واضح equidistance نقطۂ نظر یعنی تمام مذاہب سے مساوی فاصلہ نے سیاسی سائنسدانوں اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا ہمیشہ سے ہی دل جیتا ہے۔

مگر ان حقیقی بنیادوں کے ساتھ ہی اگر ہم بیسویں صدی کے وسط اور اواخر پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جہاں مغربی علمی طبقہ نے جمہوریت کو فلاحی حکومت سازی کے لیے ایک واحد حل سمجھا۔ اور جیسے ہی اقتصادی بالخصوص بین الاقوامی سیاسی آرا ءنے جمہوریت کی حمایت شروع کی تو ایشیائی افریقی اور شرق وسطی کے ممالک میں اسے اپنانے کی مقابلہ آرائی کو قیام امن کے لیے تریاق بتایا گیا۔ بریں بنا جمہوریت نے عوام کو ایک بہترین نظام سے منضبط کرنے کے علاوہ ایک قسم کے نشے کا احساس بھی دلایا۔ اور یہ نشہ عوام کو تاوان بناکر اکثر ترقی کے نام پر پروان چڑھا۔ کبھی اس نے قومی تعمیریں کیں، تاریخیں اور ملکی طمطراقی کو عقل و خرد کے سیکولر لباس سے آراستہ کیا۔ بالخصوص سوویت یونین کے انتشار کے بعد دیگر ممالک میں جمہوریت کے جوبن کو دیکھنے کی بے پناہ خواہش کو فروگذاشت ہونے کی راہیں بھی ہموار کی گئیں۔ اس کی مثال مغربی ممالک کی عمدہ سڑکوں سے لے کر ایک جاروب کش کی عزت نفس کے اہتمام تک بنی۔ ہر غیر مغربی ملک یہی چاہتا کہ اس کا ملک بھی مغربی ممالک جیسا ہو۔ مثلاً ہندوستان ان تمام تر لوازمات سے لیس ہوگیا جو ایک ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھتے ہیں مگر اس راہ میں ہندوستانی ذہن نے اس چیز پر کم ہی توجہ دی جس نے مغرب کو مغرب بنایا۔ یعنی ذہنی ارتقا جس میں ظرائف و ضمائر کی تمام صورتیں شامل ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان نے ذہنی تبویب پر زیادہ توجہ دی۔ لہٰذا جمہوریت ہندوستان

 میں بھی اپنی اچھی کارکردگی اور عمدہ گورننس کا مظاہرہ کرنے ساتھ ساتھ ایک طور کے نشہ کو بھی جائز کرتی رہی جس کا تعلق سرمایہ داری کے مہا۔ بیانیہ سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے  سرمایہ داری کے  فکری اور اقتصادی ستون امریکہ اور یوروپ میں ایستادہ ہیں، لہذا جمہوریت کا اخلاقی، تعبیری اور سیاسی۔ نظریاتی سیاق بھی وہیں سے لیا جانا  ہے۔ جان ڈیوی جمہوریت کا نظریہ ساز  مشہور امریکی مفکر لکھتا ہے ـــکہ جمہوریت کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کو دیگر مشاغل میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہنر ہے جو برہمنی طاقت کی اصل اور چانکیہ نیتی کی مغربی تعبیر ہے۔

جب بات جمہوریت کی ہورہی ہو تو یہ جان لینا ضروری ہے کہ جمہوریت جدیدیت کا فکری، نظری اور عملی ادارہ ہے۔ دونوں ہی سیکولرزم کی کیل پر آویزاں ہیں۔ مگر اس طرح کہ دونوں کا ایک دوسرے سے نادیدہ التزام ضروری ہے۔ جمہوریت میں سیاسی شعور کا حد سے زیادہ اہتمام کچھ بتاتا اور سمجھاتا ضرور ہے جو کہ ایک تہذیبی بالاتری کے ساتھ ساتھ تہذیبی فروتری کی کہانی سے بھی منسلک ہوسکتا ہے۔ بہر حال جمہوریت کی آغوش میں مذہب کے تجدیدی شعور کو تکثیریت اور کثیرالتہذیب جیسے فرہنگی لہولعب سے بھی گذرنا پڑا ہے۔ اس ضمن میں ۶۰ کی دہائی بھی اہم رہی جسے عرف عام میں Decade of Resistance کے نام سے جاناگیا؛ نشہ کو دوغلا کرنے کے لیے کاری رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب جدیدیت کو نئے طرح کے فکری رجحانات نے ٹھینگا دکھانا شروع کیا اور مابعد جدیدیت کی بحثوں نے بھی پرانے اور نئے دماغوں کو بوجھل کرنا چاہا۔ لاطینی امریکہ، افریقہ کے ممالک اور امریکہ میں بھی مذہبی رجحانات نے جمہوریت کے فکری خلائوں میں جگہ بنانی شروع کی۔ ساتھ ہی عالم کاری کی بحثوں نے بھی ٹیکنالوجیکل ذرائع سے نئے مذہبی رجحانات کو ایک ستائشی Boost up دیا۔

 مسلم دنیا میں حزب التحریریوں اور اخوانیوں کا پُرہنگم ولولہ نشہ کو خوب دوبالا کرتا رہا۔ بالخصوص ۹۰ کی دہائی میں افغان کی سنگلاخ پیٹھ پر سوویت یونین کی کمر شکنی، ایران کی انگشت بدنداں کردینے والی ’’ایرانی اسلامی تحریک‘‘ عربوں کی باہمی ہما شما کیفیت ’’خود ساختہ و خود فہمیدہ عجیب عالمی سلفی گروپ‘‘ نے عالم کاری کی بحثوں کو دوہرا فائدہ پہنچایا۔ اولاً امریکہ کا عروج بطور ایک Unilateral مافیا طاقت، ثانیاّجس نے عالم کاری اور دوسری بحثوں کو امریکیائی لذت والی بحثوں میں بدل دیا۔ مگر ہندوستان میں اس پورے عرصے میں مذہب کو لے کر نمائشی چہ مگوئیاں نہ ہوئیں۔ مسلمان دبیز قالین و پردوں کے خوبصورت پھندنے تھے جن کی تاریخ واقعی تاریخی تھی۔ یہی واحد فخر تھا جو انھیں گل سا شاداب رکھتا تھا۔ ہند میں موجودہ سیکولرزم کی کتاب میں چند سوکھے پھول پڑے تھے جو تقریباً ۲۰ویں صدی کی تیسری دہائی میں رکھے گئے تھے۔ انھیں سیکولر بالگ نظری کی بدولت آر ایس ایس اور فاشسٹ وغیرہ کہتے ہیں۔ یہ سوکھے ہوئے پھول ایک مالی کی تلاش میں غیر مرئی طور پر اگتے اور سرسبز و شاداب ہوتے رہے۔ ان کے رگ و پے میں تعصب سرایت کرچکا تھا۔ ان کا سب سے بڑا مخالف بطور دشمن نہیں بلکہ بطور وجود صرف مسلم تھا۔ اور یہ صرف اس لیے نہیں تھا کہ وہ مسلم تھے، بلکہ ان کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی پیوستگی کا احساس ان کی سوچ کو تیزابی بناتی تھی۔ اور یہ تیزابیت اس حد تک بڑھی کہ سیکولر آئین نے اس پر قدغن لگایا اور غیر سیاسی مجال ان کی قسمت ٹھہری۔ تیزابیت مختصر تو ہوسکتی ہے لیکن مدغم نہیں ہوتی (جیسا کہ ۱۹۶۰ میں جن سنگھ چھوٹے تاجروں کی پارٹی تھی۔ )۔ ۱۹۸۶ میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی وجود میں آئی اور مسلم تاریخی پیوستگی کی مخالفت میں عوامی اور نمائشی شکل اختیار کی۔ لال کرشن ایڈوانی کی ہندی زبان کی سنسکرت کاری اور اسی طرح ملک ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی کرتب بازی میں بابری مسجد کو تاریخ کا خیانتی چہرہ بنانے کی پوری تگ و دو کی گئی۔ رام کا  بھولا بھالا چہرہ اب تیر اور کمان لے چکا تھا۔ اس لیے کہ فریق مخالف پر جارحانہ حملہ کرنا تھا۔ اس طرح اس نے حساد، بغیض اور تنگ دل ارادوں کو اسی سیاسی شعور کے انحصار کے ذریعے سے مدد پہنچانے کی کوشش کی جو عام طور سے جمہوریت نامی چیز میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے، یعنی مصنوعی قوم پرستی پہ مبنی سیاسی شعور۔

اس طور پر مذہبی جذبات کے اٹھائی گیروں نے جیسے دنیا کے بیشتر قریب و دور کے ممالک میں کم عقلی، کم علمی اور مثبت بصیرت کے فقدان کی وجہ سے مذہب کو تعریف کو ہی بدل کر رکھ دیا، اور ریکشنری طریقۂ تفہیم کو ہی مرکزی مذہبی سمجھ قرار دیا۔ ہندوستان میں بھی یہی ہوا۔ کوئی بھی ماہر سماجیات ان کا جائزہ لے سکتا ہے کہ کیسے ریکشنری طریقۂ تفہیم کو اگر ہم زندگی کا لائحۂ عمل بنائیں گے تو نشہ اور جنون ہی ہمارے روز مرہ کے حواس پر طاری ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی ہیئت کے بھی فیصل قرار دیے جائیں گے۔ مذہبی جذبات انسانوں کے دلوں سے ہوتے ہوئے اجتماعی طور سے ایسی ساخت اختیار کرنے لگے ہیں، گو مذہبی جذبات کے چھوٹے چھوٹے صوبے ہوں جہاں ان کی پرہنگم، بدصورت لہجے والی بے معنی طریقۂ اختلاف کو نہایت غیر متزلزل ستون گردانا جاتا ہے، اور اپنے متعصب جذبات کو غالب کرنے کے لیے نت نئی تکنیک روزانہ اپنائی جاتی ہے۔

مذہب کا سیاسی لذت والا نشہ ہندوستان میں ۱۹۹۲ میں اقتصادی انفتاح کے بعد بے محابا ہوتا نظر آیا۔ اس نے ان تمام ذرائع کو استعمال کرنا شروع کیا جس کے ذریعے سے وہ اپنے مقصد کو بڑے پیمانے پر ریشنلائز کرسکیں۔ اس طرح اس نے کچھ طریقے انتہائی گیرائی سے اپنائے، ایک اسٹریٹجی بنائی اور اس پر عمل بھی کیا۔ یہی نہیں بلکہ کسی قدر مستشرقین والے انداز میں ایک تصوراتی سیاست کا دام پھینکا۔ جس میں ویژول میڈیا کو  بڑی کامیابیاں ملیں۔ ہندوستان میں مسلمان خاص طور سے دیگر ذرائع ابلاغ کی تکنیک، مثلاً سیٹلائٹ، چینل اور اخبارات کے ذریعے سے حاشیے پر آتے گئے۔ ہندوستان میں اکثریت متوسط طبقے کی ہے اس وجہ سے ذرائع ابلاغ کی منجملہ چیزیں معاشرتی سوچ کا ایک حصہ قرار پائیں۔ عوام الناس انجانے طور پر معاشرتی لحاظ سے غیر ضروری چیزوں میں مبتلا ہوتے رہے۔ ان چیزوں کو بے جا طریقے سے استعمال کرنے والوں کو ریشنل کہا گیا۔ اس لیے کہ وہ ایسے ٹولز کو استعمال کرتے ہیں جو ریشنل معاشرہ یا تہذیب کا حصہ ہیں، یعنی کہ مغرب۔

بے کیفی کا مزہ اس سے اچھا کون بتا سکتا ہے جو اس میں خود مبتلا ہو۔ نشہ مزید نشہ کا بیوپاری ہوتا ہے لہٰذا ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے حکومتی عمدگی کے علمی نعرے بے حد موثر ثابت ہوئے۔ اس لیے کہ یہ ایک عام زندگی کو ایک تیز طریقۂ ترقی سے جوڑ رہے تھے۔ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ملک کے لیے بھی یہ باتیں انتہائی ضروری تھیں۔ مگر ذرائع ابلاغ کا اتنے بڑے پیمانے پر عام کرنا بنا عوام کی اکثریت کی دیگر بنیادی ضرو ریات زندگی پر غور و خوص کیے ہوئے یقینی طور پر سماجی بے ترتیبی کی طرف ایک قدم تھا۔ اس تناظر کو بالخصوص انٹرنیٹ، لاسلکی مواصلاتی نظام اور سوشل نیٹ ورکنگ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ معاشرتی حسیت کی سطح پر ہندوستانی سماج کو بالغ ہونے کی کچھ ضرورت تھی؟ یا انھیں ایک منصوبہ بند طریقہ اپنایا جاتا جو انھیں ان کی بنیادی ضروریات سے آگاہ کرتا۔ اور ایک خاص معیار پر پہنچنے کے بعد انھیں ان ذرائع ابلاغ سے محظوظ ہونے کی خوب آزادی دی جاتی۔ اس کے برعکس اگر ہم ہندوستانی معاشرے پر اس پہلو سے غور کریں تو بالکل ابتدائی چیزوں کی واقفیت بھی انھیں اس معیار سے واقف کراتا ہے جس میں حقیقی دنیا ان پر اثر انداز ہوتی رہی ہے، یعنی مذہبی اور سیکولرزم کی محاذ آرائی۔ اور مذہبی میں بھی انتہائی ہیبت ناک قسم کی احساس خودی جو بہت ہی کج رو، کج فہم اور بھیانک ہے۔

واضح طور سے یہاں ذکر کردیا جائے کہ انٹرنیٹ بھی اسی دور کی پیدا وار ہے جب روس کا انقباض اور امریکہ کی بطور یک قطبی طاقت تاج پوشی ہوئی۔ شروعاتی دور میں انٹرنیٹ ایک دفاعی اور عسکری ذریعۂ کار تھا۔ پھر اس کی شروعات کے ساتھ دنیا انھیں چیزوں میں ملوث ہونے لگی جن میں امریکہ چاہتا۔ دوسرے ممالک مثلاً افریقی، ایشیائی اور مشرق وسطیٰ میں بھی یہ ایک ایسا آلۂ کار رہا جسے ہم عارضی طور سے A Tool Of Engagement کہہ سکتے ہیں۔ اب اگر ہم ہندوستانی معاشرے کو دیکھیں تو سمجھ جائیں گے اور اس بات کا بخوبی اندازہ کرسکیں گے کہ یہ نشہ ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹی سی چیز کا ذکر کیا جاتا ہے جس کا ذکر کسی یوروپی مولف نے کیا ہے کہ ایک مرتبہ اسے سعودی عربیہ جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں اس نے لوگوں کو گھڑیوں کے لیے دیوانہ دیکھا۔ یہ منظر دیکھ کر یورپی مولف نے کہا;گھڑیوں کی وافر مقدار تمھیں کبھی اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرا پائے گی جس کی وجہ سے ’’ہم‘‘ اور ’’تم‘‘ میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔

 رابطی اور مواصلاتی اشیا کی بہتات ایک قسم کی لت اور ہولناک نشےکی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہندوستان کا تقریباً ہر تیسرا بچہ جو اچھے اسکول جاتا ہے وہ نو سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس قدر ویب سائٹ کا معائنہ کرچکا ہوتا ہے جتنا اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ بھی نہیں۔ تقریباً ہر دوسرے نوجوان سے لے کر ادھیڑ عمر سوشل نیٹ ورکنگ جیسی لت میں میں دیوانہ وار مبتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے ہمارے بزرگوں سے ایک ایسی بدزبان بلاغت سے بات کرتے ہیں (, Hell   Fuck, Shitوغیرہ)۔ اور خود کو خود کے سوچے ہوئے خود اعتمادی کے تختے پر متمکن دیکھتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم اور مرکزی شئے ’اہوا‘ کی تبلیغ کاری ہے، اسے ہم Advertisment of Desire کہہ سکتے ہیں۔ ’اہوا‘ کی یہ تبلیغ کاری مختلف شکل میں ویب سائٹس پر نمودار ہوتی ہے۔ اس میں Porn sitesکو لے کر ڈیٹنگ اور فیشن کی تمام شکلیں شامل ہیں۔ خاص طور سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ جہاں کسی شئی کے بارے آپس میں سنجیدگی سے گفت و شنید شروع ہوتی ہے اور کسی واہیات ہجویہ پر ختم۔ یہی نہیں بلکہ Social Connectedness یعنی مجازی سماجی رابطے کے احساس کے بعد ایک جنسی لبرلزم اور جنسی آزادی کا احساس انھیں پاگل کیے دیتا ہے۔ اور یہ سرمایہ داری کے بےتحاشہ مواقع میں سے ایک ہے۔ انٹرنیٹ کے اقتصاد کی ریڑھ کی ہڈی پوپ کلچر ہے جس میں جنسی آزادی سے لیکر اخلاق سے عاری  اور بنا اخلاقی ادارے کے معاشرے کا تصور سرفہرست ہیں۔ ہندوستان میں ۳۷۷ کے دفعات کی بحثیں بھی اس کا ایک حصہ ہیں اور  فواحشات کے تاجروں کے لیے ایک منافع بخش سرزمین ہے۔ اس لیے کہ یہاں متوسط طبقہ اور آبادی دونوں ہی کثیر تعداد میں ہیں۔ اس ضمن میں ہندوستان میں عوامی اعتبار سے pornاور قحبہ گری ایک ممنوعہ شئے رہی ہے۔ یہی نہیں ہندوستانی معاشرے میں ایک عرصہ تک بالی ووڈ میں لڑکیوں کا جانا قابل قبول نہ تھا اور اس فعل کو اخلاقی برائی سے معنون کیا جاتا تھا۔ اب جب کہ یہ رجحان کم ہوا تو فحش عناوین کو ہندوستان کے معاشرے کی روز مرہ کی گفتگو میں شامل کیا جانے لگا۔ اس لیے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں مساوی حقوق سبھی کو ملنے چاہئے۔ سنی لیونی، بگ باس اور ایم ایم ایس اسکینڈل اس ضمن کی ایک کڑی ہیں۔

 عجب بات ہے کہ ہندوستان کی اصل ہندو تہذیب کا ایک حصہ جسے مغربی لٹریچر اور ہندوستانی مفکرین بتاتے ہیں وہ جنس پرستی کی علامتیت کی بنیاد ہے مگر موجودہ ہندو معاشرہ انھیں اپنے تہذیب میں جائز کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ صرف اسی مسلم قومی ثقافتی اور تاریخی پیوستگی کی بھی وجہ سے ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ بہر حال اب یہ نشہ ہر ایک کیسہ میں پایا جاتا ہے۔ فواحشات کی یہ نئی تہذیب مغرب کی حاوی سیکولر سوسائٹی کے لیے غنیمت تھی مگر ہندوستانی سیکولرزم تمام روایتی خیالات کی عزت کرتے ہوئے غیر جانبداری کا دعوے دار ہے۔ ہندوستانی سیکولرزم کسی سیکولر سوسائٹی کو جوابدہ نہیں ہے۔ بلکہ سیکولر قانون اور  سیکولرقانون سازی میں اپنی توجہ زیادہ صرف کرتا ہے، یعنی ہندوستان میں  مغربی معیار کی سیکولر سوسائٹی کا کوئی سند یافتہ وجود نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی بالغ نظری پہ مبنی ہندوستانی قیادت و سیادت کے ذریعے سے شروع کیا گیاتخاطب ہے معاشرہ، حکومت اور  قیام نظام کی فکر مندی کے تئیں ……… تا کہ عوام الناس کے روایتی جذبات کو کسی قسم کے سیکولر جبر جیسا کہ فرانس، ترکی اور رضا شاہ کے ایران میں رہا ہے، سے نہ گزرنا پڑے۔

ہندوستان میں پوپ کلچر کے ان اقسام کو اب معاشرتی شعور کی حیثیت حاصل ہونے لگی ہے۔ یہ تمام باتیں جو اوپر ذکر کی گئیں سرمایہ داری کی حد سے زیدہ بڑھی ہوئی منطق کا عملی اسٹیج ہیں۔ موجودہ منظر نامے میں وزیر اعظم نریندر مودی  ایک طور کے بے تریتیب اور  ظالم سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت میں ایک شخصیت پسند  اور متشدد  سیاسی ماحول برپانے میں تو کامیاب رہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ۱۹۹۸ میں ہندتو قومیت کے نعروں کو قوت بہم پہنچانے والا طبقہ متوسط طبقہ تھا۔ پروفیسر یوگیندر یادو کے مطابق یہ طبقہ بی جے پی کا سوشل بلاک تھا۔ یہی وہی طبقہ ہے جو ساختیاتی طور پر ہی خواب دیکھنے کا عادی تھا؛اچھے دن کا خواب!

ہندوستان میں اس طبقے کے خواب جہاں مارکیٹ اورینٹڈ اقتصادی پالیسیوں کے خواہاں تھے وہیں ایسی خارجہ پالیسی چاہتے تھے جو انھیں امریکیوں سے مزید قریب کرے۔ دوسری طرف بی جے پی کی جڑیں ان جدید فکری چشموں سے ہو کر نکلتی ہے جو استبداد بے جا کے قائل ہیں، یعنی Authoritarianism۔ اب اگر ہم علم سیاسیات کی اصطلاح میں بات کریں تو آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کی فکری حمایت ایسی Presidential حکومت چاہتی ہے جو جبر و استبداد کی زبان سے بات کرتی  اور سمجھتی ہو۔ یہی نہیں بلکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومت کو بھی ختم کرنا اس کے اصول میں شامل ہے (جیسا کہ ۱۹۹۶ میں ڈیس رائے چودھری میموریل لیکچر میں اٹل بہاری واجپیٔ نے اشارہ کیا تھا)۔ تا کہ بیوروکریٹ اور ٹیکنوکریٹ کی ایک بہت بڑے لاٹ کو لانچ کیا جاسکے۔ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کی ترقی دن دوگنی بڑھتی جائے گی۔ بی جے پی اور اس کے ملحقہ رجحانات نے اسی شعور کو متوسط طبقے میں پیدا کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ ہندوستانی سیاسی ہیئت کو نئے انداز میں بدلنے کے ارادے سننے میں کافی دلکش اور مثمر لگتے  تھے۔

بہر حال یہ تو چند سیاسی نکات ہیں جو نئے ہندوستانی سیاسی رجحانات کو جلا بخشتے ہیں۔ بی جے پی میں نریندر مودی وہ شخص ہیں جنھوں نے ہندتو سیاست کو مودی منتر یا مودی نومکس کے ذریعے سے بپتسمہ دیا۔ عام انسان کو سیاست کے دائو پیچ میں جذباتیت کی بنیاد پر دلچسپی لینے کے لیے رام کیا۔ عوام کو سرمایہ داری  کی سازشی  تیر سے بے کل کیا، اور ہندوستان کے روزمرہ کے معاشرتی مسائل کو اپنے فکری ترکش کی مضبوطی کی یاد دہانی کرا کے ایک سیاسی حل کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہی نہیں ’’ایک بہتر کل‘‘ یا ’’اچھے دن‘‘ کی امید والی سیاست کے ذریعے سے عوام الناس کو اپنا دیوانہ  بھی بنا لیا۔ جب ہم اس محرک کی تلاش میں نکلتے ہیں جس نے سیاست کے مجال میں ایک غیر روایتی نشہ برپا کیا تو اس کے پس پردہ وہی برہمنی چپقلش نظر آتی ہے جس نے ہزاروں سال سے عمدہ دماغوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا۔ ہر ہر کے نام پر دھرم کی غیر مساوی سلاخوں کو سیسہ پلاتے رہے اور جدید دنیا میں جدید ہندوستان کی تعمیر کے نام پہ Growth نامی جگناتھ سے یاری کی۔ قاری اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ Growth اور Development جیسے نظریات غیر مغربی دنیا میں بالخصوص ایشیا میں مغربی ترتیب ہے، جو ہم تک پہنچتے پہنچتے بے ترتیبی کی فہرست میں آجاتے ہیں۔ یعنی Growth اور Development جیسے نظریوں کی کوئی قومی۔ تہذیبی معیار سازی نہیں کی گئی۔ بلکہ سرمایہ داری کی تمام درآمد کو ایک عالمی معیار پر پہنچانے کے لیے ملکی سیاست کے دائو پیچ پر رکھا گیا؛اسے عرف عام میں کرپشن کہتے ہیں۔ اس طریقے سے عوام کو  سرمایہ داری کے جبری رجحان کے بھینٹ چڑھادیا گیا۔ اس ضمن میں ہندوستا ن میں کانگریس ایسی سیاسی پارٹی رہی جس نے Macualay کے نصاب کو پکڑا، ملکی تعمیر، جدید کاری اور سیکولرسازی کو معیار بنایا۔ اور تعلیم کی بنیادوں کو بالغ نظری کے جدید طر یقۂ نظام سے بھی فیض پہنچایا۔ ان تمام اہم کاموں میں جو بات سب سے واضح نظر آتی ہے وہ ہے ہندوستانی سیکولرزم کے تمام اوصاف کے ساتھ سیکولرزم کی بصیرت۔ اس کے بعد ظاہر ہے جب سیکولر کی زمین پر جذباتیت اور تنگ دلی کے کسان کھیتی کرنے لگیں تو پھر سیکولرزم میں وہ معنویت جو آئینی تھی بہر کیف ختم ہوجاتی ہے۔

ہندوستان میں کانگریس ایسے ماہرین اقتصادیات کو متعین کرتی اور بروے کار لاتی رہی جو ہندوستانی سیکولر اوصاف کے ستائشی ہی نہیں تھے بلکہ ان کی علمی و تحقیقی بنیادیں انھی اقدار پر منحصر تھیں۔ انھیں میں سے ایک شخصیت ایسی رہی ہے جس نے ہندوستان کو سربلندی کا موقع فراہم کیا۔ میری مراد امرتیہ سین سے ہے۔ امرتیہ سین ہندوستانی عوام میں عدم مساوات، مذہبی تعصب، موت اور پیدائش کی شرحوں میں عدم توازن، حقوق انسانی کے مفکر اور مواقع کو مساوی طور پر بہم پہنچانے کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ وہ ایک طرح سے کانگریس کی تمام تر اقتصادی پلان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کے ہم منصب جاں دریز اور شاگرد کوشک باسو اور دیگر ماہرین اقتصادیات ہیں۔ ان کے اہم ترین کارناموں میں فوڈ سیکورٹی بل، نریگا اور دیگر عوامی منصوبے ہیں۔ سین کے نزدیک عوام کو بنیادی حقوق مہیا کرانے کے ساتھ ان کی لیاقت بڑھانا حکومت کا اہم فرض ہے۔ اسی لیے ان کے ڈیولپمنٹ کا ماڈل ہمیشہ کیرلا رہا ہے۔

 بہر حال مودی سرکار کی اقتصادی پالیسیاں جگدیش بھاگوتی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ایک ہندنژاد امریکی ماہر اقتصاد اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ یہ وہی جگدیش بھاگوتی ہیں جنھوں نے ہندوستان میں عالم کاری کی بحثوں اور انفتاح کی کامیابی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ بریں بنا جہاں بھاگوتی بے لاگ فری مارکیٹ اور فری ٹریڈ تھیوری کا موئد ہیں وہیں امرتیہ سین اس بات پر مصر تھے کہ کیسے حکومت Human Capabilities کو بڑھائے۔ بھاگوتی کہتےہیں کہ ہندوستان کو اصلاح کی ضرورت ہے تا کہ Growth بڑھے۔ تجارتی اور دوسرے تمام بازاروں کو لبرلائز کیا جائے تو غریب طبقے کو زیادہ کام ملے گا۔ سین کا کہنا ہے کہ پبلک اسکیمز زیادہ اہم ہیں۔ تا کہ روز مرہ کے جینے کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ سین Human Development Indicators کے بارے میں متفکر ہیں۔ اسی لیے وہ جنوبی ہندوستان کو ایک ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مگر بھاگوتی وہ شخص ہیں جو گجرات ماڈل کی بحثوں کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ بھاگوتی اپنے دوسرے ہم منصب کولمبیا کے ہی پروفیسر اروند پنگاریا کی تائیدی علمی توسیعات کے ساتھ گجرات ماڈل کی کامیابی پر بضدبھی تھے۔ بہر حال بھاگوتی اور پنگاریا کے خیالات ایسے Growthسے متعلق تھےجو ایک انسان کی آمدنی کو بڑھائے گا، نج کاری کے امکانات کو عام کرے گا اورعدم شفافیت کے امکانات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وہیں سین سماجی مسائل، عدم مساوات، سوئِ تغذیہ جیسے مسائل کے خاتمے کو صحت مند Growthسے جوڑتے تھے۔

بہر حال موجودہ ہندوستان جس میں ہم  ابھی تک سانس لے رہے ہیں اس کے اقتصادی رہنما بھاگوتی تھے۔ ان کا طریقۂ تفہیم اور ہندوستان کے اقتصاد کو مزید مضبوط کرنے کا خیال ’آزاد تجارت‘ پر مبنی ہے۔ استعماریت کا نصاب جو بھاگوتی کی خواہش تھی اس میں ترقی تو ضرور ہوتی ہے مگر اس کے پس پردہ تخریبی سیاسی ارادوں کو بھی غذا ملنے لگتی ہے۔ جیسا کہ ہم خود محسوس کر تے ہیں کہ ہم جس ترقی پذیر ماحول میں شعور کو پروان چڑھا رہے ہیں اس میں مذہبی تعصب کا بھی ایک خاطر خواہ حصہ بن چکا ہےہے۔ جیسا کہ بلوم تھامس ہانسن نے آر ایس ایس کے ’’سودیشی فاشزم‘‘ اور کولبرج نے نے Hindudom کے امکانات کی طرف جو اشارے کیے ہیں اسے روز مرہ کی زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ذکر کئے گئے اقتصادی پیرائے کے تعلق سے ہم جس نشہ کی وضاحت کرناچاہتے ہیں وہ ’اکثریت‘ کی سیاست کے علاوہ ایک Maximum Hindu Identity کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب صرف تعصب کو بڑھاوا دینا نہیں بلکہ ایک سیکولر تشخص کا متبادل بھی پیش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بے جا سرمایہ دار ی کی تباہیاں  بالخصوص ہمارے مختلف المعیار معاشرہ میں لازمی ہیں (مثال کے طور پر گجرات میں کسانوں کی تباہ کن صورت حال)۔

 گذشتہ سطور میں میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کے بارے میں جس قسم کی لت اور نشہ کے احساس کا ذکر کیا گیا ہے وہ اب ہماری سوچ کا لازمی جزو بن چکا ہے جسکا تماشہ ہم پچھلے پانچ سالوں سے دیکھتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے کفیل سرمای ہ دار طاقتوں نے ہماری اس سوچ او رہمارے ذرائع ابلاغ کے بے جا شغف سے فائدہ اٹھایا اور یہی نہیں بلکہ بالی ووڈ کی شخصیتوں کو بھی نئی حکومت کی تائید و تبلیغ میں ملوث کرتے رہے۔ چوں کہ ہمارا متوسط طبقہ ٹی وی سیٹلائٹ چینلز اور اخبارات کا بھی دیوانہ وار شائق ہے لہٰذا ان کی بھی عمدہ طریقے سے ذہن سازی کی گئی۔ ان افراد کے لیے بھی سرمایہ داروں نظام کے ہرکاروں نے خوب زمین ہموار کی تھی جو جنسی آزادی اور Porn کے مارے تھے، ان کے سیاسی شعور میں بھی مودی حکومت کے عفریت کو سرایت کیا گیا تھا۔ مثال کے طور  ۲۰۱۴ میں سنی لیونی اور شانتی ڈائنامائٹ اور دیگر  پورن اداکارائوں نے بھی مودی کی مدح سرائی کی تھی اور ان کا جھنڈا بلند کیا تھا۔

اس کے علاوہ ہندوستان کی علمی دنیا کا ایک بڑا حصہ مودی کا عرصے سے موئد رہا تھا۔ جبکہ مودی کے مخالفین مودی حکومت کی ترغیبات کو Crony capitalism سے تعبیر کرتے تھے۔ اب کسی بھی عام آدمی کو اس بات کا اظہار کرنے میں دقت نہیں ہوگی کہ جس قسم کی تہذیب  وزیر اعظم مودی ہندوستان کی خیرخواہی میں پروان چڑھا چکےہیں اس میں اور حقیقی ہندوستانی معاشرے میں کافی  فرق تھا۔ مودی کی تہذیب کا جنون، ان کا دیکھا ہوا خواب اور عوام کے ایک بہت بڑے حصے میں ان کا سرایت کیا  گیا نشہ آ ج کے ہندوستان کی حقیقت بن چکا ہے۔ جناب وزیر اعظم مودی کی کامیابی واقعتا ہندتو کے لیے اہم ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے اسی منطق سے اپنے  متشدد چہرے کو چھپا دیا تھا جس منطق سے یورپ کی کچھ نسل پرست  قوموں نے اپنی جہالت پر مبنی تمدن کی تاریخ کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر معاشرے کو توڑنے والی سوچ کتنے ہی عمدہ اور خوبصورت نعرے لائے، خواب دکھائے اس کی اصلیت کھلتی ضرور ہے۔  خواب کی سوداگری میں جیسے ہی بد نیتی داخل ہوتی ہے، سوداگری ٹھپ پڑ جاتی ہے اور خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔