ایک پیغام: دینی تعلیم سے بیزار یونیورسٹی کے خواہش مند طلبہ کے نام
عبد الرحمن عالمگیر
دورِ حاضر تخصص کا زمانہ ہے ؛یعنی کسی ایک فن یا چند فنون میں مہارت و دسترس حاصل کرنا، اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں کچھ نمایاں کردار ادا کرنے کے لیے امتیازی مہارت درکار ہوتی ہے، اسی لیے علومِ دینیہ کے منتسبین افراد معاشرہ میں بہترین نمائندگی کے لیے اسی اصول زریں پر عمل کرتے ہیں۔ بعض لوگ اختصاص فی العلوم الاسلامیہ کے لیے بیرونی ممالک کا قصد کرتے ہیں اور بعض طلبہ ہندوستان کے حکومتی یونیورسٹیوں میں مواقع تلاش کرتے ہیں، مدارس کے طلبہ جو یونیورسٹی میں اعلی تعلیم کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ ابتدائی مراحل ہی سے تعلیم برباد کرنے کے مشن پر لگ جاتے ہیں، اگر اس مسئلہ پر امہات المدارس کے تناظر میں گفتگو کی جائے تو شاخ کے توسط سے آنے والے طلبہ کے سرپرست حضرات دینِ اسلام کی خدمت کے لیے کسی مرکزی دانش گاہ سے ملحق مدرسہ میں داخلہ کروا دیتے ہیں اگر ان نونہالانِ ملت کو اللہ نے توفیق بخشی تو مرکزی دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پھر یہ خوش نصیب طلبہ بدنصیبی کا بیج جامعہ میں آنکھ کھولنے کے معاً بعد بونے لگتے ہیں کیوں کہ عالمیت کے دو سالہ کورس میں ایک ہوا چلتی ہے جسے مہذب الفاظ میں ’’ بادِ علیگ ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ دراصل طالبانِ علومِ نبوت کے لیے ’’بادِ جنون ‘‘ بروزن ’’بادِ سموم ‘‘ ہے۔ اس سم قاتل کے اجزائے ترکیبی کچھ مغربیت کی کشمکش سے ہیں اور کچھ مدارس کی بدنظمی سے وجود میں آئے ہیں۔
بدیہی طور پر کسی مہم کو سر کرنے کے لیے محنت و جستجو اور ممکنہ تیاری کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس لیے یونیورسٹی کے خواہش مند طلبہ مدرسہ میں آنے کا اصل مقصد پس پشت ڈال کر یک بارگی تین چار اداروں میں نامزد کروا لیتے ہیں، بعد ازاں مقررہ خارجی امور کی تکمیل میں شب خیزی اور بسا اوقات دوران درس تپائی کے نیچے کتب برائے معلوماتِ عامہ کا ورد جاری رہتاہے، مزید برآں شب و روز کے تگ و دو سے ان کا کوزۂ ذہن بھر پور تیاری سے چھلکنے لگتا ہے جس کا اثر نمایاں طور پر بالوں کی ہیئت، داڑھی کی تراش و خراش، پتلون کی طول و وسع، طرزِ تخاطب کی یگانگی اور پوشاک کے انوکھے پن میں دکھنے لگتا ہے۔
اگر بفضل اللہ ان حضرا ت کو یونیورسٹی میں حصولِ تعلیم کا سنہرا موقع میسر ہو جائے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، مدرسہ کی آٹھ، دس سالہ زندگی جو ان کا سر چشمۂ حیات اور پایۂ استحکام ہے ہیچ مداں دکھنے لگتی ہے، مدرسہ کی چہار دیواری کے مقابلے میں یونیورسٹی کی وسیع وعریض میدان، بلند وبالاعمارت، عطر بیز و مشک ریز زلفِ گرہ گیر کی صحبت، جدت پسندی اور من چاہی آزادی دیکھ کر بوکھلاجاتے ہیں اور مدارس کے خلاف ہفوات بکنے لگتے ہیں۔
طالب علمانہ ذہن سے اس کی بنیادی وجہ اسلامی فکر پر خارجی مطالعہ کا فقدان، دوسو سالہ سامراجی محکومیت کے بعد مغربی تصورِ حیات کی بالادستی، وارثینِ انبیاء کی رِفعت ومنزلت سے ناواقفیت اور تعلیمی ایام میں لاپروائی ہے یہی وہ سب سے خطرناک پہلو ہیں جہاں سے فکری دیوالیہ کی ابتداء ہوتی ہے، علوم شرعیہ کی کنجی عربی زبان سے بے اعتنائی فہم کتاب وسنت میں روڑے اٹکاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہنرورانِ نقد ایک صفحہ عربی عبارت حل کرنے کی تاب نہیں رکھتے اور دینی معلومات کے لیے اسکول و کالج کے فارغین کی طرح غیر عربی ذیلی کتابچوں کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مدرسے میں رہ کر صرف انگریزی پر توجہ دینے سے بہتر تھا کہ کسی انگریزی دانش گاہ سے کسبِ فیض کرتے اور متعلقہ میدان میں عالم گیر کامیابی حاصل کر کے ملک و ملت کا نام روشن کرتے۔ لیکن یہ کیا کہ مدرسہ میں ’’مفت کی روٹی، ٹوٹی چٹائی، بے مزہ سالن اور غیر منظم انتظامیہ‘‘ کی سرپرستی میں رہ کر شخصیت کی تعمیر کی جائے پھر جس تھالی میں کھائے تھے اسی تھالی میں چھید کیا جائے۔
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب ان جیسے طلبہ والدین سے ماہانہ فیس کے نام پر پیسے ایٹھ کر انگلش دانی پر صرف کرتے ہیں اور مدرسہ کی فیس یا جرمانہ کی ادنی سی رقم پر واویلا مچاتے ہیں، پھر یہی حضرات یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر مدارس والوں کو ”خیراتی، چندہ خور، شکم پرور” اور نہ جانے کن کن القاب سے ملقب کرتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اعلی تعلیم کے لیے عصری دانش گاہ کا رخ نہ کیا جائے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ فارغینِ مدارس صرف مساجد و مدارس کو اپنا محور و مرکز بنالیں بلکہ ہم شدت سے یہ ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ ہر اسکول و کالج میں کم ازکم ایک عالم ہو جو طفلانِ دبستان کی دینی تربیت کا بیڑہ اٹھائے، درسی کتب کے بین السطور میں چھپی باطل فکر کی تردید کرے، مادہ پرستی میں ڈوبے نصابِ تعلیم کا نعم البدل پیش کر سکے، ترقیاتی امور میں غیروں کی مقابلہ آرائی کرے، مغرب کی چمک دمک اور اس کی بناوٹی دنیا سے نوجوان نسل کو ابدی قیام گاہ اور دائمی کامیابی وکامرانی کی طرف بلائے۔ در حقیقت یہ بہت مشکل اور اہم کام ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے اس کے لیے سب سے پہلے مدارس کی مجلس انتظامیہ کو جدیدیت کے ڈھلوان سڑک پر لڑھکتی نئی نسل کے ہاتھ تھامنے ہوں گے ورنہ اس کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی چلی جائے گی پھر اس جماعت کو بے قابو ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا، نیز مدارس کی تحریر و تقریر کی محدود غیر نصابی دائرے کو وسعت دینا ہوگا، انگریزی کو اجنبیت کے خانے سے اور ہندی کو کفریہ خیمے سے نکالنا ہوگا ساتھ ہی طلبہ کی ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ دنیا کے کسی بھی محفل میں جائیں تو ان کے افکار ونظریات سے متاثر ہو نے کے بجائے خود انہیں اسلام کا ثناخواں بلکہ گرویدہ بنا دے۔
یاد رکھیں! دہائیوں سے یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ مدارس میں ایسا ہو نا چاہیے، ان کا نصاب ویسا ہونا چاہیے، اس مسئلے کو لے کر سیکڑوں سیمینار اور کانفرنسیں بھی ہوئیں لیکن سب اپنی اپنی بولی بول کر چلے گئے اور مدارس کا حال جوں کا توں رہا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دسیوں سال پہلے دیکھے گئے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جائے اور سادے خاکوں میں رنگ بھرا جائے تو اس کی شروعات خود آپ کو کرنی ہوگی جس طرح یونیورسٹی جانے کے لیے ہزار پابندیوں کے باوجود انگریزی سیکھنے اور بورڈ امتحانات دینے کے مواقع تلاش کر لیتے ہیں بعینہ ملت کی سرفرازی کی راہیں خود نوخیز طلبہ کو ڈھونڈنی ہوں گی پھر ان شاء اللہ دھیرے دھیرے اساتذہ ومربیان کا بھی ساتھ ملے گا۔
اگر ایسا کرنے میں طلبہ کامیاب ہو گئے تو یہ ’’بادِ علیگ ‘‘ ’’بادِ اسلام ‘‘ بن کر ہندوستان کے ہر شعبے میں اپنی خوشبو بکھیرے گا اور اسلام اسلامک لٹریچر سے نکل کر لوگوں کے طرز عمل میں دکھنے لگے گا۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔