جوانانِ ملت کے نام مخلصانہ پیغام

اشفاق پرواز

آج گلو بلا یزٔیشن کے اس دور میں نو جوانوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی کامیابی کا سکہ جمادیا ہے یوں کہا جایٔے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آج  کے بڑے بڑے اور انتہایٔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا دار ومدار  اس ملک کے نو جوانوں پر ہے۔ جوانوں کے اسی عزم و حو صلے اور استقداد کو دیکھتے ہوے بزرگوں   نے غلط نہیں کہا ہے کہ اگر کسی قوم یا ملک میں انقلاب لانا  ہو تو وہ اس قوم یا ملک کے نو جواں ہی لاسکتے ہیں۔ یہی وہ نوجواں ہوتے ہیں جوکسی بھی انقلاب کی اساس وبنیادہوتے ہیں۔ یہ بات اورہے کہ وہ انقلاب قوموں کے حق میںمفید ثابت ہوتا ہے یانقصان دہ اس کے با و جود ہر دور کے نوجوانوں کی  طرح اس دور کے نوجواں بھی ایک غلطی کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان موجودہ ترقی، وسایل و اسباب اور عیش و آرام کو کامیابی اور ترقی کا اعلیٰ ترین مقام تصور کرتے ہیں۔ اور تھوڑی مقدار میں بھی اُن کے حصول کے بعد اطمنان سے بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم نے کا میابی کی سب سے بلند چوٹی کو سر کرلیا ہے۔ لیکن یہ اندازہ سراسر غلط ہے ترقی ایک ایسا عمل ہے جو ہمیشہ جاری وساری ہے۔ اور ہمیشہ جاری رہے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان آج تعلیم سے زیادہ اعلیٰ  قسم کے موبایٔل، گاڑیاں اور موٹر سایٔکل خریدنے کی مسابقت کرتے نظر آتے ہیں۔ او ر استاد کے لیکچر سے زیادہ فلموں کے گانے اور پاپ سانگ سُننا پسند کرتے ہیں۔ اور  یہیں سے نوجوانوں کے نہ صرف اخلاق کا بلکہ یقینا کہیں نہ کہیں مادی ترقی کا بھی زوال شروع ہوتا ہے۔

بقولِ علامہؒ:

  جوانوں  کو  مری   آہ   سحر     دے  

پھر  ان  شاہیں بچوں  کو بال و  پر دے

   خدایا     آرِز و    میری    یہی    ہے

میرا   نورِ   بصیرت  عام     کر  دے

اگر ہم اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمارے اسلاف ایسے نوجوان نظر آتے ہیں جنہوں نے اسلام کی سر بلندی اور کا مرانی کے لییٔ اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا، اسلامی تاریخ کے اوراق پر نگا دہرایٔ جایٔے تو  جہاں  ابو بکرصدیقؓ اور عثمانِ غنیؓ جیسے معمر حضرات کی خدمات کا ذکر ملتا ہے۔ وہیں شانہ بہ شانہ ہمیں   حمزہؓ ، علیؓ، بلالؓ، عمارؓ جیسے نوجواں بھی صفوں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ کسی کو ایمان کی  خاطر گھربار، نو کر چاکر اور عیش و آرام تک چھوڑ دینے  پڑے جبکہ دورِ جاہلیت میں ا نکا شمار مکہ کے سب سے بڑے ریسٔوں میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی نوجوان تھے جنہوں نے حضرتِ محمدﷺ کی تشریف آوری کی راہ ہموار کردی اور آگے چل کر اسلامی علم سمبھالتے ہوے غذؤہ احد میں جام ِ شہادت نوش کیا۔ ہم حضرتِ علیؓ کوکیسے فراموش کر سکتے ہیں جنہوں نے  دس بارہ سال کی عمر میں آپؐکا ساتھ دینے کی حامی بھری تھی۔ جبکہ تمام  قبیلہ قریش نے آپؐ کو جھٹلایاتھا۔ یہ فہرست کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ جن میں رافعؓ اور سمرہؓ جیسے نوجوان جو اسلام پر مٹنے کیلیٔ کو شان تھے شامل ہیں۔

آج کے نو جوانوں کا عالم یہ ہے کہ مغربی تہذیب سے بر سر پیکار ہونے کے بجایٔے یہ اسکی نقل کو مُہذب قوموں کی لازمی علامت تصور کرتے ہیں۔ لوگوں کو اسلام سے روشناس کرانے کے بدلے اُلٹا اپنے اعمال وکردار سے لوگوں کو اسلام سے بد ظن کرنے کا گھناونا فعل انجام دے رہے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ سے ایک عہد کریں۔ اپنے مقاصد کو متعین کر لیں۔ اور اُن کے حصول کے لییٔ ہرممکن کو شش کر ڈالیں۔ پھر یقینا ہمیں غربت،بھکمری،جہالت اور کرپشن جیسے پیچیدہ مسایٔل سے سابقہ پیش نہیں آے گا۔ مختلف مذاہب کے لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔ محنت و ایمانداری جیسے مثبت اقدار کے سا تھ ساتھ لوگ ایک بار  پھر پرُسکون زندگی گذاریں گے۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ جوانوں کے دلوں کو اسطرح گرماتے ہیں  ؎

  آہ!کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

   کانپتا د ل تیرا اندیشۂ طوفان سے کیا

ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، مساحل بھی تو۔

نوجوان طبقہ کو گمراہ کرنے کی خاطر شیطان کے پاس ایک جان لیوا ہتھیار ہے۔ جو جوانوں کو اپنے کام کے آغاز سے پرے رکھتا ہے وہ ہے ڈر، خوف اور وسایل کی کمی کا بہانہ۔ لیکن ان تمام خدشات سے نوجوان طبقہ کو چھٹکارا پانا ہوگا۔ جوانوں کو نہ صرف اپنے کام کا آغاز کرنا ہے بلکہ اسے صیح انجام تک پنہچانا ہے۔ جسکے لییٔ جوانوں کو کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا ہے۔

   آیٔے! آج ہی عہد کریں کہ اس انقلاب کی بنیاد دیں بھی ہم نوجوان ہی ڈالیں گے۔

’’جوانوں کو مری آہِ سحر دے ‘‘ کی صداوں سے دنیا کے کونے کونے میں انپا پیغام پنہچایں گے۔ واضح رہے عزِم صمیم سے بڑا کوییٔ ہتھار نہیں ہوتا۔ یہ اگر ہمارے پاس ہے تو منزل تک فاصلہ  قدم دو قدم کا رہ جاتا ہے۔ اگر ہم نے ایسا  نہ کیا تو ہمارا  حشر بھی و ہی ہوگا۔ جو پچھلی قدموں کا  ہو چکا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ اگر تم منہ موڑو گے تو اﷲتمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آییٔ گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے ‘‘ (محمدؐ :۳۸)

بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں ہیں انسان اگر انہیں شمار کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ یہ نعمتیں انسا نی زندگی میں آرام و آسایش اور سہولیت و اطمنان فراہم کرتی ہیں زندگی کو مسّرت اور آسودگی عطا کرتی ہیں۔ دوسری طرف یہ نعمتیں انسان کی ذمہ داریوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ ایک سوچنے والے سنجیدہ زہن کو اس کا منصبی فریضہ یاد دلاتی ہیں اور آزمایش کا سبب بھی بنتی ہیں۔ جس طرح انسانی زندگی کے لمحہ لمحہ کا حساب خداے￿ تعالیٰ روزِ قیامت میں لے گا اسی طر ح ان نعمتوں کا محاسبہ بھی کرے گا۔

 قومی اور ملی سطح پر آکر اگر دیکھا جاے تو قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کا نوجوان طبقہ ہے۔ ملکی اور ملی ترقی کے تمام پروگرام، نشانات اور منصوبے جو نافذکیے جاتے ہیں وہ نو جوانوں کی ہی کوششوں کا ثمرہ ہوتے ہیں۔ قوم و ملک کی آزادی کی تحریک ہو یا دین اور نظریہ کی تبلیغ اور نشر و اشات کا مرحلہ ہو، ان کی آبیاری میں نوجوان خون ہی ہمیشہ کام آیا ہے۔

 اسلامی تحریک جو مکّہ سے اٹھی اور مدینہ پہونچ کر سارے عالم پر چھاگی وہ ایثار و قربانی، مسلسل جد و جہد اور ابتلا   وآزمایش کی ایک داستان ہے۔ اس تحریک کی نشو نما اور آبیاری میں اس دور کا نوجوان ہی پیش پیش رہا ہے۔ اخلاص اور عمل کی دولت سے سرشار و مالا مال نوجوان۔

جب یہ نو جوان طبقہ ایمان و عمل کی دولت سے سر شار آگے بڑھا تو کفر کے ایوانوں میں ذلزلہ آگیا۔ قیصر و کسریٰ کو اپنی حکومتوں کا مستقبل خطرہ میں نظر آنے لگا۔ دنیا سے ظلم و بربریت اور بدی کا خاتمہ ہوگیا اور امن و انصاف اور نیکی کا چلن عام ہوا۔ یہ سب کچھ نوجوانوں کی ہی کشمکش، جد و جہد اور قربانی کا نتیجہ تھا۔ نوجوان ملت کا ستون ہیں۔ شرافت و عزت کی بنیاد ہیں، ترقی اور بلندی کا نشان ہے اور مستقبل کا معمار ہیں۔

یہ دور جس میں آج کا مسلم نوجوان سانسیں لے رہا ہے کشمکش کا دور ہے۔ باطل حق سے نبرد آزما ہے۔ اخلاقی قدریں بکھر رہی ہیں۔ غلط نظام تعلیم اور خدا بیزار معاشرہ صالح مسلم نوجوانوں کے لیے ایک چلینج کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں قومیںہر قید سے آزاد ہوکر ایک اندھے راستے پر دوڑتی چلی جارہی ہیں۔ مسلم ملت بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں مسلم نوجوانوں کی اصل ذمہ داری کیا ہے اور کس طرح وہ عہد جدید کے چلینج سے عہدہ بر آہوسکتے ہیں۔ ہمارے اسلاف کے دینی اور اخلاقی آثار اور علمی فتوحات ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ یہ ہمارے لیے آج بھی روشنی کا منارہ ہیں۔ یہ دین اسلام رسول اللہ ﷺ  اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ  کی کوششوں سے پھیلا اور سلفِ صالحین کی معرفت ہم تک پہنچا۔

دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا اسباب تھے کہ مخالفتوں اور شدید کاوٹوں کے با وجود یہ دین سارے عالم میں پھیل کر رہا اور آج بھی اس کو باقی  رکھنے، زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لے بنیادیں کہاں سے فراہم کی جاسکتی ہیں۔

  قرآن و حدیث، سیرت ِپاک ﷺ اور صحابہ کرام ؓاور سلفِ صالحین کی زندگیوں کے مطالعہ سے جو بنیادیں فراہم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:-

(ا)  اللہ پر کامل، راسخ اور غیر متز لزل ایمان۔

 (۲) کذب دریا سے نا آشنا اخلاص اور صداقت قلبی۔

(۳) خوف اور سود و زیاں سے نا واقف عزیمت اور کردار کی مالک۔

(۴) تھکن سے خالی مسلسل اور مستقل جدوجہد۔

(۵) حصول مقصد تک مسلسل قربانی، یہاں تک کہ اسی راہ میں موت واقع ہو جاے۔

  انہی بنیا دوں پر اسلام کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئ۔ یہی اوصاف آج کے مسلم نوجوان کی ضرورت ہیں اور وقت کا تقاضہ بھی ہیں۔ قدیم و جدید، ہر زمانہ میں نوجوانوں کو مستقبل کی امانت، کل کا معمار اور قوم و ملت کی طاقت و قوت کا سر چشمہ سمجھا گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں کا ان اوصاف سے مزّین ہونا۔ از بس ضروری ہے۔

ملک و ملت کا نوجوان طبقہ اللہ تعالیٰ کی امانت بھی ہے اور نعمت بھی۔ اس کی حفاظت، اس کے اخلاق و سیرت کی تعمیر، اس کی ذہنی اور فکری نشونما کی ذمہ داری پوری ملت کا فریضہ ہے۔ اگر یہ امانت   ضایع ہوگئ تو نقصان و خسارے سے ملت بچ نہ سکے گی،دنیا میں بھی اور آخرت کی جواب دہی سے بھی۔

نوجوان طبقہ سے درد مندانہ اور مخلصانہ گزارش ہے کہ  ؎

اُٹھو اب  وقت آیا  ہے کہ  شمع  دل  جلا دیں  گے

   یہ راہیں پھر سے زینت ہوں انہیں ہم گل کھلا دیںگے        

رہے نہ  کوئ  اسیر نفس  خدا  کی اس  انجمن  میں

جو بربادی  لگے  ہم  ایسی  رسمیں  اب  جلا دیں گے

تبصرے بند ہیں۔