اورہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

عبدالکریم ندوی گنگولی

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کو ساڑھے پانچ سوسال کی مدت گذرچکی تھی،اب سطح زمین نورانیت کے فیض سے یکسر محروم،معرفت الہٰی سے کوسوں دورجاچکی تھی،دشت وصحراء کی جلتی وتپتی ہوئی زمین کا ذرہ ذرہ تشنہ لبی کی شکایت کررہاتھا،چشم فلک نے طویل مدت سے موسم بہار کا نظارہ نہ دیکھا تھا،عالم انسانیت پر رات کی سیاہی چھائی ہوئی تھی،افق عالم پر نفس پرستی، ہوس رانی، شکم پروری اوربدکاری جسے گناہوں کے بادل منڈلارہے تھے، خاص طورپر سرزمین عرب کی تباہ کاریاں وتیرہ بختیاں سارے عالم کے لئے ایک نمونہ ٔ عبرت بن چکی تھیں اور وادیٔ غیر ذی زرع کا ذرہ ذرہ آفتاب رشد وہدایت کے طلوع ہونے کا بے پناہ منتظر تھا۔

اسی وادیٔ غیر ذی زرع میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی مسیحائی، روحانی بارشوں کی ارزانی اور ان کی دستگیری کے لئے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا،آپ کی آمد باسعادت سے اجڑے ہوئے باغات سرسبزوشاداب اور افسردہ چمن فرحت وانبساط کے گن گانے لگے، مزید اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ آخری کلام ’’قرآن مجید‘‘بھی نازل فرمایا،جس کی اصل اور بنیاد یہ کہ وہ انسانیت کے حق میں ہدایت نامہ ہے، دستور حیات ہے اور مکمل ومفصل نقشۂ زندگی وسرچشمۂ رحمت ہے، یہ وہ کلام الہٰی اور نسخہ ٔ کیمیاء ہے کہ جس نے اس آب وگل میں نفس پرستی وخدافراموشی کی طویل شب دیجور کو ختم کرکے عجیب وغریب اور بے نظیر روحانی انقلابات رونما کردئیے،کل تک جن کی زندگیاں خون کی پیاسی، فسق وفجور کی عادی،فحش گوئی و شراب نوشی اور بے حیائی ودولتمندی کے نشہ میں چورچور تھیں، آج اتنے بلند ومقدس مقام ومرتبہ تک پہنچ گئے کہ صداقت وپاکیزگی ان کی طرف اپنی انتساب کو باعث صدافتخار سمجھتی ہے،تاریخ کے صفحات اور آسمان میں چمکتا دمکتا آفتاب اس کے بین گواہ ہیں کہ انہوں نے قرآن مجید کے مقصد کوسمجھا اور اپنی زندگی کوعملی میدان میں اسی کی روشنی میں ڈھالتے چلے گئے،جس کے نتیجے میں دنیا کی سرداری ان کے ہاتھوں میں تھمادی گئی، جس راہ سے بھی گذرے کامیابی قدم چومتی رہی، حیوان ناطق ہی نہیں ؛بلکہ غیر ناطق نے بھی ان کی جلوۂ ایمانی کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے، زوال وانحطاط کی پستیوں سے نکل کر ترقی واقبال کی چوٹی تک پہنچ گئے،افسوس صد افسوس!آج اسی قرآن مجید کو امت مسلمہ نے صرف خوبصورت غلافوں میں سجاکر طاقوں کی رونق اور جسمانی وباطنی بیماریوں کے لئے سامان شفاء سمجھ رکھا ہے اور اس کے علاوہ ان کا قرآن سے کسی بھی قسم کا کوئی رشتہ نہیں۔

ہائے افسوس !مسلمانوں کی پسماندگی ودرماندگی پر، جو کسی دور میں عالم کی قیادت وسیادت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے، اللہ کے بندوں کو اس کی وحدانیت کی طرف بلارہے تھے، امت مسلمہ کو جادۂ اتحادواتفا ق سے ہٹنے اور ان کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچارہے تھے، اصلاحِ معاشرہ کے نام سے جاں گداز جد وجہد سے سرزمین دنیا میں امن وسلامتی پھیلانے میں سرگرداں تھے، تعلیماتِ قرآنی، احکاماتِ الٰہی اور سنت ِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوکر لوگوں کو اس کی دعوت دے رہے تھے، شرک وبدعت کا پرچم ہٹاکر توحید ورسالت کا پرچم لہراتے نظر آرہے تھے، لیکن ایک طویل مدت سے وہ ایمانی صدائیں دب چکی ہیں، چیدہ چیدہ دینی احکام وفرائض اسلام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے،دعوت الی اللہ کی سرگرمیاں کمزور پڑتی جارہی ہیں، بڑا ہی افسوس کا مقام ہے بلکہ ’’چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی بات ہے‘‘۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان دنیا کی خرمستیوں اور سرمستیوں میں مگن ہے، دنیا کے گلزار عیش وعشرت میں رہ کر دن رات اسی کی نغمہ سنجی کررہا ہے، جس کے آسمانِ دل پر نور ِ ایمانی کی روشنی تھی اب وہ بھی ماند ہ پڑھ چکی ہے، سورج کی کرنوں کے مانند آنے جانے والے مال پر فریفتگی ووارفتگی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، نتیجتاً اب امت اسلامیہ کی مساجد کو نذرِ آتش کرنے، آثارِ قدیمہ کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے، تعلیماتِ قرآنی اور سنت ِ نبوی کو قصہ ٔ پارینہ کہنے، اسلامی معاملات وعبادات کو فرسودہ قرار دینے میں دشمنانِ اسلام ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں حتی کہ ان کے نوکِ قلم سے اسلام کے خلاف سیکڑوں کتب ورسائل منصہ شہود پر آچکے ہیں اور مسلمان خس وخاشاک کی طرح اس بلاخیز سیلاب میں بہتے جارہے ہیں، اس کو امت مسلمہ کی حرماں نصیبی کہئے یا محرومی!لیکن قرآن کریم ان کی بے چارگی ودرماندگی اور شکست خوردگی پر صادق آتا ہے، ارشاد ربانی ہے ’’ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی النا س لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون‘‘(روم:۴۱)تری اور خشکی میں فساد کا نزول انسانوں کے (برے)اعمال کی وجہ سے ہے، تاکہ ان کے کئے ہوئے کا مزہ چکائے شاہد کہ وہ (اپنی برائیوں سے )با ز آجائیں۔

مسلمانوں کی حالت ِ زار دیکھ کرعلامہ اقبالؒ کا وہ شعر دل کی بے چینی واضطرابی کیفیت میں اضافہ کرتا ہے، جو انہوں نے خدا کی بارگاہ میں الفاظ کو شعری سانچے میں ڈھال کرشکوہ کیا تھا اور پھر خود ہی جوابِ شکوہ لکھا، جن اشعار میں انہوں نے پستی وتنزلی کی تاریخ کے اسبا ب واضح فرمائے تھے، وہ لکھتے ہیں :

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر   

اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ امت مسلمہ جن گوناگوں مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہے اور جن فسادات وخرافات کی چکی میں پسی جارہی ہے اور ظلم واستبداد کے جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن اور اس کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر اس پر عمل پیرا نہ ہوناہے جس قرآن پر عمل کرکے صحابہ کرام ؓ نے ساری دنیا میں علم ِحکومت لہرایا تھا، کافروں اور مشرکوں کے پرخچے اڑادئیے تھے، ان کی طاقت وقوت کو تہ وبالا کردیا تھا اور ظلم وزیادتی کو امن وشانتی میں تبدیل کردیا تھا، جہنم کے دہانے پرکھڑی ہوئی انسانیت کو جنت کا مزہ چکھایا تھا، غرض یہ کہ جو انسانیت حیوانیت وبہیمیت کے کرادر کو اپنا کر گناہوں اور جرائم کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر زندگی کے شب وروز گذارہی تھی، اس انسانیت کو انسانیت کا سبق دے کر، دنیائے فانی کی رنگینیوں اور آسائشوں سے نکال کر، دین ِ اسلام کا پیغام سنا کر سب کو ایمان کی مضبوط ومستحکم لڑی میں پرودیاتھا،لیکن افسوس کہ وہی امت آج پھر از سر نو زمانہ ٔ جاہلیت کے گن گا رہی ہے، اس کے طرزِ زندگی کو اپنا طرزِ زندگی سمجھ بیٹھی ہے، وہی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں جو اس زمانہ میں تھیں بلکہ اس سے دوچارقدم بڑھ کرہیں، جس کا مشاہدہ ہم آئے دن اخبارات کی سرخیوں میں تو کبھی ٹی وی کے نیوز چینلوں میں کرتے ہیں، کبھی رونما ہونے والے حیرت انگیز حادثات ودردناک واقعات کو اپنی نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو کبھی مصیبت زدہ انسانوں کی درد بھری زبانوں سے سنتے ہیں۔

اب زمانہ اس بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان اپنے افقِ دل کو نورِ ایمانی سے روشن کریں، قرآنی پیغامات پر عمل زندگی کا جزء لایتجزی حصہ بنائیں، اعمال ِصالحہ کا جامہ زیب تن کرکے اعمال ِسیئہ کا قلادہ گردن سے اتاردیں اورظفرمندی وسربلندی کے حصول کے لئے احکامِ الٰہی وسنت ِنبوی پر عمل پیرا ہوجائیں، اللہ ہمیں عمل کی توفیق سے نوازے(آمین)۔

تبصرے بند ہیں۔