انسان اور زمین کی حکومت (قسط 69)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت الیاس علیہ السلام نے خفا ہو کر قوم پر قحط سالی کی دعا کی- تب ان کی بددعا سے تین برس تک پانی نہیں برسا ملک میں قحط نازل ہوا- چنانچہ کھانے بغیر اونٹ، بیل بکری دنبے اونٹ گھڑے گائے سب مرنے لگے- لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم پر یہ آفت الیاس کی وجہ سے آئی ہوئی ہے کہ وہ ہمارے خدا بعل کو برا بھلا اور کذاب کہتا ہے پس جہاں الیاس کو پاو اسے قتل کر دو-

چنانچہ حضرت الیاس وہاں سے ایک بڑھیا کے مکان پر گئے کہ وہ حضرت کی ماننے والی تھی اور آپ پر ایمان لائی تھی- اور اس کا ایک بیٹا تھا نام اس کا الیسع تھا- چنانچہ بڑھیا نے اپنے بیٹے کو حضرت الیاس  کیساتھ روانہ کیا- آپ اسے ساتھ لیکر شہر بدر ہوئے اور عرصہ تین برس تک شہر شہر پھرتے رہے- پس بعد تین برس کے حضرت الیاس واپس اپنے شہر میں لوٹے اور اس بادشاہ سے کہ نام جس کا طیفور تھا آ کے فرمایا کہ آج تین برس ہوئے کہ تم قحط اور بھوک کی تکلیف اور مصیبت میں پڑے ہوئے ہو- سو لازم ہے کہ جس کی تم پوجا کرتے ہو سوا اللہ کے اس سے کہو کہ تمہیں اس مصیبت سے نجات دے اور تم پر بارش برسائے تاکہ قحط ختم ہو اور دوبارہ سے کھیتیاں لہلہائیں اور تمہارے جانور اور لوگ جو بھوکوں مر رہے ہیں دوبارہ سے خوشحال ہو جائیں- اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر عبادت کرو اس اللہ کی جو خالق ہے زمین کا اور آسمانوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا اور وہی رب ہے سچا میرا تمہارا اور ہمارے اگلے پچھلوں کا- پس اگر تم ایمان لے آو اللہ پر اور بتوں کی پرستش کرنا چھوڑ دو تو یقینا وہ تم پر اپنی مہر سے خوب پانی برسائے گا اور تم دوبارہ خوشحال ہو جاو گے-

پس انہوں نے جب یہ کلام سنا تو دوڑے ہوئے گئے اپنے بتوں کے پاس اور اس اے اس مصیبت سے نجات طلب کی لیکن کچھ جواب نہ پایا- تب واپس حضرت الیاس کے پاس آئے اور آ کر عرض کی کہ آپ ہمارے واسطے اپنے رب سے دعا کریں کہ ہمیں اس مصیبت سے خلاصی دیوے- پس اگر تو سچا ہے تو ہم ضرور تجھ پر ایمان لے آئیں گے- تب حضرت الیاس نے بارگاہ الہی میں ان کے واسطے دعا مانگی- پس آپ کی دعا سے اسی شب خوب بارش برسی اور زمین سیراب ہوئی- کچھ ہی دنوں میں زمین سے گھاس اور ترکاری اور غلہ وغیرہ اگنے لگا اور قحط جاتا رہا- اور آسمان سے مزید پانی برسا اللہ کے حکم سے- تب حضرت الیاس نے ان کو ایمان لانے کو کہا تو پھر مکر گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو ہماری دعا سے ہوئی جو ہم نے بعل سے مانگی تھی اور گمراہی  میں پڑے رہے اور بتوں کی پرستش کرتے رہے-

مروی ہے کہ جب حضرت الیاس نے ان کے لیے دعا کی تو وحی نازل ہوئی کہ اے الیاس تیری بددعا سے میرے بہت سے بندے اس قحط سے مر گئے- تب آپ نے دعا کی کہ الہی تو نے میری بددعا سے ان پر قحط نازل کیا سو اب میری دعا سے ان سب کا بھلا فرما-

القصہ جب حضرت الیاس نے دیکھا کہ کافروں نے سرکشی اور بت پرستی کو نہ چھوڑا اور نہ ایمان ہی لائے- تب حضرت الیسع کو اپنا خلیفہ مقرر کر کے اس قوم سے نکل گئے یا انتقال فرمایا- بعد آپ کے اللہ نے حضرت الیسع کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور قوم کو زندگی لمبی عطا کی کہ ان پر موت نہ آتی- الغرض حضرت الیسع نے ایک عرصہ تک قوم کو دعوت کی اور راہ حق بتائی لیکن کوئی بھی شخص ایمان نہ لایا اور سب مردود رہے- بعد ایک مدت کے الیسع نے انتقال فرمایا- مروی ہے کہ الیسع کے بعد سات سو برس تک اللہ تعالی نے اس قوم پر کوئی نبی مبعوث نہ فرمایا صرف علماء و فضلاء تھے جو قوم کو راہ حق بتاتے لیکن کوئی نہ سنتا- بعد اس کے خنظلہ علیہ السلام کو اللہ نے ان پر نبی بنا کر بھیجا۔

چنانچہ حق تعالی نے حضرت حنظلہ علیہ السلام کو قوم بنی اسرائیل کیطرف نبی بنا کر مبعوث کیا کہ لوگوں کو دعوت حق پنہچاو اور اللہ کا پیغام سناو- کہ وہ لوگ بت پرستی چھوڑ کر ایک اللہ کی پرستش کریں- تب حضرت حنظلہ اللہ کے فرمانے سے ہر روز شہر کے چاروں طرف کے دروازوں پر جا کر بنی اسرائیل کو پکار کر کہتے، اے لوگو ! اللہ کو واحد جانو اور اسی کی عبادت کرو- اور یہ کہ بت پرستی چھوڑ دو بیشک شیطان نے ہی تمہیں اس راہ غلط پر لگایا ہوا ہے- پس اللہ سے ڈرو وہی حقیقی رب ہے-

قوم نے کہا کہ ہمارا تو یہی رب ہے جسے ہم پوجتے ہیں اور اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں ماننے کے اور اسی کو ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے- حضرت نے فرمایا اے قوم تمہارے باپ دادا ان بتوں کو ہرگز نہیں پوجتے تھے سو تم کیوں پوجتے ہو اور ان پر افتراء باندھتے ہو کہ وہ بھی انہیں پوجتے تھے اور یہ کہ تمہیں شرم نہیں ایسی بات سے اور تم نہیں ڈرتے اللہ سے کہ تمہاری پکڑ کرے اور پکڑ اس کی سخت ہے- اور تم پر بھی عذاب اور بلائیں نازل ہوں جیسے کہ تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل ہوئے بسبب ان کی سرکشی اور گمراہی کے- اور تم ہرگز عذاب خدا برداشت نہیں کر سکو گے-

ہرچند کہ حضرت حنظلہ نے ان کو سمجھایا اور خوف دلایا اللہ کے عذاب کا لیکن سرکش قوم نے آپ کی بات نہ مانی اور اپنی ضد پر اڑے رہے اور ان کو مار ڈالنے کو مستعد ہوئے- اس شہر کا بادشاہ کہ نام اس کا طیفور بن طفیانوس کہ بارہ ہزار غلام اس کے اور املاک بےحد اور لشکر بےشمار اس کا تھا- اس مردود نے حکم کیا کہ حنظلہ کو پکڑ کر مار ڈالو اس سے پہلے کہ تم پر اس کی وجہ سے کوئی آفت نازل ہو-

ادھر حضرت حنظلہ علیہ السلام دن کو شہر کے ہر دروازے پر اور بازاروں میں ہر جگہ لوگوں کو دعوت حق پنہچاتے اور رات کو بام قصر پر چڑھ کر پکارتے اور اللہ کی طرف بلاتے- الغرض آپ کے دن رات کے پکارنے اور دعوت سے بنی اسرائیل بےآرام ہوتے اور سو نہ پاتے- چنانچہ انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ حنظلہ کو یا تو شہر بدر کر دو یا قتل ہی کر دیا جائے- چنانچہ جس رات وہ یہ ارادہ کر رہے تھے اسی شب کو حضرت حنظلہ نے انہیں پکار کر کہا اے قوم اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم اپنے ارادوں سے باز نہ آئے اور بت پرستی و شرک کو چھوڑ کر اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان نہ لائے تو کل کو تم پر وہ ایک بلا نازل کرے گا- اور یہ کہ تم پر مرگ مفاجات آوے گی-

چونکہ وہ لوگ موت سے بےخبر تھے کہ موت کیا ہوتی ہے اور کیونکر آتی ہے نہیں جانتے تھے- کیونکہ اللہ تعالی نے زندگی ان کی بڑھا دی تھی اور سات سو برس سے ان میں کوئی آدمی نہیں مرا تھا- پس اسی سبب حنظلہ کی بات کا اعتبار نہ کیا اور بےفکر ہوئے رہے- پس دوسرے دن عذاب الہی نازل ہوا- جب وہ حضرت حنظلہ کو قتل کرنے کی سازش میں مصروف تھے کہ ایک ہوا چلی جس سےہزاروں آدمی واصل جہنم ہوئے- باقی جو لوگ بچ رہے سوختہ دل ہو کر بادشاہ کے پاس گئے اور کہا، اے بادشاہ حنظلہ کی بات سچ نکلی اور آج ہماری قوم کے ہزاروں آدمی مرگ مفاجات سے مر گئے ہیں-

طیفور بادشاہ بےعقل نے کہا کہ نہیں یہ مرگ مفاجات سے مرے نہیں ہیں بلکہ یہ تو حنظلہ کے رات دن کے پکارنے سے تم لوگ سو نہیں پاتے ہو سو کثرت بیداری سے گرمی نے غلبہ کیا ہے- اور یہ موت نہیں بلکہ صرف بیہوشی کا عالم ہے- پس وہ مرے نہیں اور اگر تم آزمانا چاہتے ہو تو ان کے سیخ چبھو کر دیکھ لو آپ سے ہی جب بیہوشی ٹوٹے گی تو اٹھ کر بیٹھ جائیں گے-

چنانچہ طیفور مردود کے کہنے سے ان گمراہ لوگوں نے ایسا ہی کیا- پھر جب ان کے سیخیں چبھوئیں تو بھی کوئی حرکت ان میں نہ پائی- تب دوبارہ واپس آ کر طیفور سے کہا کہ جیسا تم نے کہا تھا سو ہم نے کر دیکھا مگر کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور ویسے ہی بےحس و حرکت پڑے ہوئے ہیں۔

چنانچہ ان لوگوں نے آ کر طیفور سے کہا کہ ہم نے تمہارا کہا بھی کر دیکھا لیکن ان میں کوئی حرکت نہیں ہوتی- تب طیفور خود ان لوگوں کیساتھ گیا اور ہر چند ان کو جگانے اٹھانے کی کوشش کی لیکن مردے بھی کبھی اٹھتے ہیں- تب مردود نے اپنی قوم سے کہا کہ سچ ہے یہ لوگ تو واقعی مردے ہیں-

تب اس کو ڈر پیدا ہوا کہ اب مجھے بھی موت آئے گی- چنانچہ موت کے ڈر سے اس نے اپنے بالا خانے میں ایک کوٹھڑی خالص تانبے سے بنوائی اور اندر اس کے سنگ مرمر لگوایا اور تخت اپنا اس کوٹھڑی میں رکھوایا اور نعمتیں ہر طرح کی اس گنبد میں رکھ لیں- اور باہر گنبدوں کے اور بالا خانے کے دروازہ تمام بند کروا دئیے اور ہر دروازے اور گنبد وغیرہ پر پہرے دسر مقرر کر دئیے کہ ننگی تلواریں لیے کھڑے رہو اور اگر موت اندر آئے تو اس تلواروں سے کاٹ ڈالو-

پس مردود یہ تمام انتظام موت سے بچنے کے کر کے اس کوٹھڑی میں موجود تحت پر جا بیٹھا- اور کہنے لگا اب بھلا موت مجھ تک کیسے پہنچے گی کہ اول تو محل میں ہی داخل نہ ہو سکے گی کہ دروازے تمام بند ہیں- اور اگر کسی طرح اندر آ بھی گئی تو میرے پہریدار اسے تلواروں سے ذبح کر دیں گے- اگر ان سے بھی بچ گئی تو اس کوٹھڑی میں داخل نہ ہو پاوے گی کہ کہیں سے بھی کوئی راہ کسی مکھی مچھر اور ہوا تک کے داخل ہونے کا بھی نہیں ہے-

چنانچہ یہی سب سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اچانک ایک مرد ہیبت والا درمیان اس کوٹھڑی کے کہ جہاں اس کا تحت تھا اس کے پاس کھڑا ہوا دیکھا- پس اسے دیکھ کر مارے ڈر کے چونک اٹھا اور جان نکلنے کے قریب ہو گئی- اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہ کہ یہاں اندر کس طرح سے آئے ہو- اس نے کہا میرا نام عزرائیل ہے اور میں مالک الموت ہوں- طیفور نے پوچھا یہاں کیوں آئے ہو- فرمایا تیری جان قبض کرنے کے واسطے آیا ہو- طیفور نے کہا آج کے دن مجھے مہلت دے دو کل جو چاہے سو کیجئو- چونکہ اس کی زندگی ایک دن مزید تھی سو مالک الموت چلے گئے- بعد اس کے طیفور اس کوٹھڑی سے باہر نکلا اور غلاموں کو مارنے لگا کہ کیوں تم نے عزرائیل کو یہاں آنے دیا اور کیوں نہ اسے روکا اور مار ڈالا- پہریدار قسم دینے لگے کہ انہوں نے کسی شخص کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا-

پس انہیں چھوڑ کر واپس کوٹھڑی میں آیا تو دیکھا ایک چھوٹا سا سوراخ موجود ہے- مردود نے سمجھا کہ یہاں سے آئے ہوں گے- پس اس سوراخ کو بند کیا اور بےفکر ہو کر بیٹھ رہا- اور کوئی نہیں معلوم کر سکتا تھا کہ اس کا دروازہ کس طرف ہے- پھر جب دوسرا دن ہوا حضرت عزرائیل کو وہیں کھڑا دیکھا جہاں کل دیکھا تھا- چونک کر پوچھا کہ تم اندر کیسے آئے- عزرائیل نے کوئی جواب نہ دیا اور بڑھ کر مردود کی جان قبض کی اور ایک ہی پل میں ان سب غلاموں کی جان بھی قبض کر لی جو پہرے پر تھے- بعد اس کے ایک ایسی آواز کی کہ نہ وہ قصر رہا اور نہ گنبد نہ مالک نہ حشم نہ صغیر نہ کبیر رہا سب کے سب جہنم واصل ہوئے- اور پانی تمام دریاوں اور چشموں کے سوکھ گئے- قوم میں سے باقی بچ جانے والے لوگ یہ حالت دیکھ حیرت میں پڑ گئے- نہ ملک رہا نہ حشم نہ پانی سب کا سب ویران ہو گیا-

تب حضرت حنظلہ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر تم خدا پر ایمان لے آو اور میری نبوت کا اقرار کرو تو اس عذاب سے نجات پاو گے- تب کہنے لگے کہ یہ سب بلائیں اور آفتیں ہم پر تمہاری بدخواہی کی وجہ سے آئی ہیں- اگر تم ہم میں نہ ہوتے تو یہ مصیبتیں ہم پر نہ آتیں پس اس سے پہلے کہ کوئی اور مصیبت ہم پر پڑے ہم تمہیں قتل کر دیں گے- یہ کہہ کر دست درازی کرنا چاہتے تھے کہ حضرت حنظلہ ان کے بیچ میں سے نکل گئے۔

تبصرے بند ہیں۔