رات کالی ہے، فلک پہ کوئی تارا بھی نہیں 

جمیل ارشد خان

رات کالی ہے، فلک پہ کوئی تارا بھی نہیں

دردِ فرقت ہے گراں، اور سہارا بھی نہیں

کیوں نہ ہم کوچ کریں، کوچہء جاناں سے کہ اب

کوئی جلوہ بھی نہیں، کوئی اشارا بھی نہیں

جلوہء یار کا، ارمان بہت ہے لیکن

 سچ یہی ہے کہ ہمیں، تابِ نظارہ بھی نہیں

 اسکا بس ایک ہی چارہ ہے، کہ باہم ہوجائیں

میں بھی تنہا ہوں بہت، کوئی تمھارا بھی نہیں

حوصلہ ہارنے والوں کو، بتائے کوئی

عزم کرلیں، تو بہت دور کنارا بھی نہیں

شیخ فردوس کا ارمان لئے بیٹھے ہیں

جادہء خیر پہ، لوگوں کو پکارا بھی نہیں

ہر تونگر کو، ودیعت نہیں دریا دل کا

حاملِ جود و سخا، سَطوتِ دارا بھی نہیں

جل گیا، راکھ ہوا، جذبہء ملّت ارشد

کشتہء جاں میں نہاں، کوئی شرارا بھی نہیں

1 تبصرہ
  1. جمیل ارشد کہتے ہیں

    جی ہاں

تبصرے بند ہیں۔