رات کالی ہے، فلک پہ کوئی تارا بھی نہیں
جمیل ارشد خان
رات کالی ہے، فلک پہ کوئی تارا بھی نہیں
دردِ فرقت ہے گراں، اور سہارا بھی نہیں
…
کیوں نہ ہم کوچ کریں، کوچہء جاناں سے کہ اب
کوئی جلوہ بھی نہیں، کوئی اشارا بھی نہیں
…
جلوہء یار کا، ارمان بہت ہے لیکن
سچ یہی ہے کہ ہمیں، تابِ نظارہ بھی نہیں
…
اسکا بس ایک ہی چارہ ہے، کہ باہم ہوجائیں
میں بھی تنہا ہوں بہت، کوئی تمھارا بھی نہیں
…
حوصلہ ہارنے والوں کو، بتائے کوئی
عزم کرلیں، تو بہت دور کنارا بھی نہیں
…
شیخ فردوس کا ارمان لئے بیٹھے ہیں
جادہء خیر پہ، لوگوں کو پکارا بھی نہیں
…
ہر تونگر کو، ودیعت نہیں دریا دل کا
حاملِ جود و سخا، سَطوتِ دارا بھی نہیں
…
جل گیا، راکھ ہوا، جذبہء ملّت ارشد
کشتہء جاں میں نہاں، کوئی شرارا بھی نہیں
جی ہاں