محمدعظیم کی موت: مسلمانوں اور اہل مدارس کے لیے لمحۂ فکریہ

عبد الکریم ندوی گنگولی

ہندوستانی منظر نامہ پر امت مسلمہ کی زبوں حالی، شکستہ خوردی کی داستان دردوکرب سے سسکتے بلکتے نظر آرہی ہے، معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی دردبھری چیخ وپکار، مرجھائے ہوئے حسین وجمیل چہرے، آگ کے شعلوں میں جھلستے نرم ونازک جسم آنکھوں کو خیرہ اور کانوں کے پردوں کو چاک چاک کر رہے ہیں، مسلم نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری وبے آبروئی کی ننگی تصویریں، زخموں سے چور، خون میں لہولہان بے یارومددگار صدائیں زمین کو لرزہ خیز کررہی ہیں، انسانی خون کی بہتی ندیاں، ویرانی وتاریکی میں تبدیل بستیاں، دہگتی آگ میں جلتی ہوئی جھونپڑیاں جسم کے رونگٹے کھڑے کررہے ہیں اور روح کو مضطرب کرچکے ہے، ستم ظریفی کے واقعات، ہولناک وخون آشام مناظر حکومت کی ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی بے توجہی ولاپرواہی کی بین اور واضح دلیل ہیں، ہائے اللہ ! تیری زمین پر یہ کیسا ظلم وستم کابلاخیز طوفان بپا ہے جس کہ رو میں امت مسلمہ خس وخاشاک کی طرح بہتی جارہی ہے، ظالم وسفاک، سنگ دل وبے حیا حکام کی وجہ سے موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہے، لاکھوں کی تعداد بے گھر اور خیموں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔

 حالیہ دنوں میں دہلی کے مالویہ نگر بیگم پور میں قائم مدرسہ جامعہ فریدیہ کا ایک طالب محمد عظیم ولد محمد خلیل شرپسندوں کی بھینٹ چڑگیا، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جنہوں نے یہ انسانیت سوز اور اخلاق سوز شیطانی کھیل رچاہے، درحقیقت وہ سفاک وخونخوار بھڑئیے اور درندوں سے بھی بدتر ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ میں ظلم وبربریت، حیوانیت وشیطانیت کی ایسی بدترین تاریخ رقم کی ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، اور ان کی پشت پناہی میں مشغول ظالم لوگوں کی ستمگری وجفاطرزی، دھوکہ دہی ودغابازی کمزور ونہتے مسلمانوں پر ایسے کوہ ظلم وستم ڈھارہی ہے کہ جس سے کوہستان بھی ریگستان میں تبدیل ہوجائے، افق عالم پر ستارے حیران وششدر رہ گئے کہ لوگ انسانیت کے نام پر خود انسانیت کا خون چوس رہے ہیں اور ماہتاب وآفتا ب بھی ان کی چیرہ دستیوں، ستم رانیوں اور ریشہ دوانیوں پر انگشت بدنداں ہیں کہ یہ لوگ حکومت کے تخت پر جلوہ افروز ہوکر، اکژیت کاڈھنڈورا پیٹ کر، حکومتی اصول وقوانین کو بالائے طاق رکھ کر اور عدل وانصاف کی چادر چاک کرکے مسلمانوں کانام ونشان تک جریدۂ عالم سے مٹانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں جس سے چشم فلک بھی آنسو بہانے پر مجبور ہے اور آسمان پر اندھیرا سا چھاگیا ہے اور زمین پر خود انسانیت سرمشار ہوچکی ہے۔

 وہ معصوم پھول جو ابھی کھلنے ہی والا تھا، جس کی نگاہوں نے دنیا کی رنگینیوں اور قدرت کے پرلطف بہاروں کانظارہ نہیں کیاتھا، مذہب کے نام پر نفرتوں وعداتوں کی آگ اگلنے والی سیاست کی گرم بازاری سے نابلد تھا، زندگی کے موسم الم وفصل بہاراں اورفانی زیست کے نشیب وفراز سے ناواقف تھا، اس کا معصوم دل خزاں رسیدہ چمن میں گل سرسبد بننے کاخواہش مندتھا، دنیا ومافیہا کی عظیم دولت قرآن مجید کواپنے دل معصوم میں بسارہاتھا، اس کی آیتوں سے اپنے آپ کو سنواررہاتھا اور والدین کے لئے سرمایۂ آخرت بننے والاتھا لیکن سرکش آندھیوں، نفرت کی آگ میں جلنے والے انگاروں، سفاک وخونخوار بھیڑیوں اور خوفناک درندوں کے پروردہ نووارد ظالموں نے اسے اپنے پیروں تلے روندیا اور اس پھول کو مسل کررکھ دیا جب کہ محمد عظیم کی قوم مسلم کا رویہ ساری دنیا میں آشکارا ہے، جو کسی ایک کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دی ہے اور امن ومحبت کا پیغام سناتی ہے اور ببانگ دہل یہ کہتی ہے کہ

ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھواہے اکثر  

لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں

محمد عظیم کی شہادت کا دلخراش سانحہ جیسا بھی رونماہواہو، وہ صرف امت مسلمہ ہندیہ کے لئے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے رونگٹھے کھڑے کرنے والااور بالعموم ہندوستانی مسلمانوں اور بالخصوص مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے، ان کے قوم کا بہلوخان، محمد جنید، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا کیا ذکر ؟، اب ان کے اپنے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں، بلکہ ان پربھی آسمان سے تعصب پرستی کے شعلے برس رہے ہیں اور زمین نفرتوں کی آگ اگل رہی ہے، گویا زعفرانی طاقتیں یک جٹ ہوکراسلام کے قلعے دینی مدارس کی بنیادیں کمزور کرنے اور ہندوستان سے اسلام کو مٹانے کے لئے مختلف النوع اذیتیں اور قیامتیں ڈھارہی ہیں، قریہ قریہ، شہر شہر، بستی بستی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، ایک عجیب خوف و دہشت کا تعفن زدہ ماحول تیارکیاجارہاہے، ان نازک حالات میں مسلمانوں کو اتحاد کے بندھن میں یک جٹ ہوکر، کاندھے سے کاندھا ملاکر چلناچاہئے اور اہل مدارس کو ایسا کوئی ٹھوس اقدام اٹھانا چاہئے، جس سے سرزمین ہند میں ان کا وجود باقی رہ سکے اور مدارس میں دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے والے تمام تر خطرات ونقصانات سے محفوظ رہ سکے اور ان بچوں اور ان کے والدین کے دلوں میں احساس کمتری وکہتری کے بادل نہ منڈلاسکیں، کیوں کہ محمد عظیم کی معصوم سے جان جاتے جاتے یہ کہہ گئی ہے کہ غم وآلام کی تاریک رتوں میں حوادث سے ٹکرانے اور سینہ سپر ہونے والے جاں باز اہل وفا کا ایک قافلہ جلوہ گر ہوگااور یہ کارواں جذبۂ جنوں سے سرشار، ایمانی طاقت سے لبریز جادہ پیما ہوگا اور یہ بزم گل ضرور درخشاں ہوگی

شاید ہمارے بعد درخشاں ہو بزم گل        

   ہم تو ہیں ایسے پھول جو صحرا میں جل گئے

محمدعظیم کی شہادت میں امت مسلمہ ہندیہ کے لئے یہ پیغام پنہاں ہے کہ وہ بھی میدان کارزار میں علماء کے شانہ بہ شانہ اور قدم بہ قدم چلیں، کیوں کہ صرف وہ کسی ایک کا بیٹا نہیں بلکہ ساری قوم کا فرزند تھا، بلکہ وہ مستقبل میں حافظ ومولانا کا لقب پاکر ساری انسانیت کا رہبر ورہنما بن کر افق عالم میں سماجانے والا روشن ستارہ تھا، اور بلاکسی مبالغہ اور تردد کے کہاجاسکتا ہے کہ وہ ان علماء میں شامل ہوتا جو علم کے زیور سے سنور کر آپ کے نونہالوں اور معصوم بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے ہیں، اسلام کے بنیادی احکام اور والدین کی خدمت، ادب واحترام سکھاتے ہیں، جو دیہاتوں، بیابانوں اور شہروں میں بسنے والے مسلمانوں میں اسلام کے ٹمٹماتے دیے کے لئے اپنے لہوکا تیل فراہم کرتے ہیں اور آج سرزمین ہند میں مسلمان تمام اسلامی شعائر کی زندہ تعبیروں کت ساتھ موجود ہیں، یہ سب انہیں علماء کرام کی بدولت ہے، ورنہ یاد رکھئے، ان کی آواز حق کی آواز اور حکم خداوندی کی ترجمان ہوتی ہے ورنہ تاریخ اسلامیہ پر نظررکھنے والے جانتے ہیں کہ علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کے کردار سے محروم کی جانے والی اندلس کی بدنصیب سرزمین میں غرناطہ کی عبرت گاہوں اور اسلامی تہذیب کے نقوش کہن کے سوا آج کچھ نظرنہیں آتا، قرطبہ کے وادی الکبیر سے شای یکتائی رکھنے والے کتنے ہی کارواں گذرے ہیں، آج جن کے نقش قدم بھی نہیں ملتے، لیکن اسے ہند وستان کی خوش نصیبی کہیے کہ یہاں کے بوریہ نشیں علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کی بدولت اسلام اور مسلمان اپنے تمام تر تشخصات کے ساتھ تابندہ ودرخشاں ہے۔

 اگر بچشم غور عالم اسلام پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو سارا بلاد اسلامیہ ظلمت آگیں وناگفتہ بہ اور جاں گسل حالات سے دوچار ہے اور امت اسلامیہ کا ہر فرد بے چین وبے قرار ہے، ان کے چہروں پر مایوسی وناامیدی کا گرد وغبار پڑا ہواہے، ان کے ماتھے ذلت ورسوائی سے داغدار ہیں، ان کے سروں پر ناامیدی ومجبوری کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، مختصر یہ کہ آج یہ امت انتہائی سنگین وآزمائشی دور اور ایسے کربناک والم ناک حالت سے گذررہی ہے کہ تاریخ نے اپنی پوری زندگی میں اب تک ایسے حالات کا سامنا کیا ہے اور نہ آئندہ کرے گی۔

 ان نامساعد حالات، شکست خوردہ وہزیمت یافتہ جذبات واحساسات کی حالت زار کا سبب اگر صرف زمانے کی چیرہ دستیوں اور دشمنوں کی جعل سازیوں کو قرار دیا جائے اور عالم اسلام دشمن واستعمار پسند طاقتوں کی فریب کاریوں کا ماتم کیا جائے تو یہ بزدلانہ اور بے وقوفانہ رویہ ہونے کے ساتھ مردہ قوموں کا شعار لگتا ہے کیوں کہ ہم سے ایسے اعمال وافعال سرزد ہورہے ہیں جن سے ہماری ایمانی کمزوری ودینی لاچاری، بے بسی وبے حسی، کم علمی وکم ظرفی کی جھلک صاف نظر آتی ہیں۔ آئیے !اپنے غفلت کے دبیز پردوں کو اتار پھینکئے، نرم ونازک بستروں اور بادصبا کی خنک ہواؤں سے لطف اندوز ہونا بند کیجئے، مقصد حیات کو سامنے رکھ کر جمود وتعطل، سرد جذبات، دلوں پر چھائی افسردگی اور تعفن زدہ معاشرہ کو ایمانی ماحول میں بدل دیجئے۔

 ان فرصت کے اوقات کو غنیمت سمجھئے، دعاؤں کی کثرت کیجئے، پوری امت کو آپ کی آہ سحر گاہی اور دعائے نیم شبی کی سخت ضرورت ہے، اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائیے، معصوم بچوں کی طرح روئیے، بلبلائیے، درستیٔ حالات کی بھیک مانگئیے، امت مسلمہ پرسایہ فگن ظلم وستم اور غم واندوہ کے بادل اور پژمردگی کے آثار ختم ہونے کے لئے دست دعادراز کیجئے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کی طرح دن کے شہسوار اور رات کے عبادت گذار بن جائیے اور یہ سلسلہ صرف آج ایک دن کی حد تک نہ ہو بلکہ پوری زندگی پر محیط ہو۔ پھر دیکھئے حالات کس طرح رخ بدلتے ہیں اور کامیابی وکامرانی کیسے انگڑائی لیتی ہے اور کھوئی ہوئی سرفرازی وسربلندی، امن وشانتی کیسے میسر ہوتی ہے۔

اٹھ !کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق ومغرب میں ترے دور کا آغاز ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔