بھاجپا کو پھر رام کا سہارا

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

 رام مندر بنانے کو لے کر سادھوؤں کی بھوک ہڑتال کے بعد موہن بھاگوت نے رائے دے ڈالی کہ سرکار قانون بنا کر رام مندر تعمیر کرائے۔  بی جے پی کے کئی لیڈر اور سنگھ پریوار کے سادھو سنت بھی ان کی بولی بول رہے ہیں۔  بھاگوت جی کو اس سے قبل 2012 میں رام مندر کی یاد آئی تھی۔  اس وقت تک بی جے پی نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آئندہ انتخاب کس بنیاد پر لڑا جائے گا ؟ انہوں نے بی جے پی کی ہوا بنانے کے لئے ہی رام مندر کا شوشہ چھوڑا تھا۔  2013 میں نریندرمودی نے رام مندر کے بجائے بد عنوانی، مہنگائی اور روزگار پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر ان کی قیاس آرائی پر پانی پھیر دیا تھا۔  اسی منصوبہ کے تحت اچھے دن کے خواب دکھائے گئے اور وکاس کا نگاڑا بجایا گیا۔  بدلے ہوئے حالات کو دیکھ کر ہی چھ سال بعد انتخاب سے محض چھ ماہ قبل بھاگوت جی نے رام کو یاد کیا ہے۔  ان کی تقریر کو سن کر وہ عوام کا نعرہ یاد آگیا ‘ جب جب چناؤ آتے ہیں مندر وہیں بناتے ہیں’۔

کہا جا رہا ہے کہ مرکز اور پندرہ ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی اقتدار میں ہے، اگر اب بھی مندر کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہوا تو کب ہوگا ؟ آواز اس لئے بھی اٹھ رہی ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک 2019 کے انتخاب کا ایجنڈہ طے نہیں کیا ہے۔  29 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کی سنوائی جنوری 2019 تک ٹالنے سے مندر کے پیروکاروں کو جھٹکا لگا ہے۔  آر ایس ایس اور بھاجپا رام جنم بھومی کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو ہندؤں کا نمائندہ دکھانا چاہتے ہیں۔  کیونکہ یہی وہ مسئلہ ہے جس نے بی جے پی کو ملک کے اقتدار تک پہنچایا ہے۔  1989 میں بھاجپا کے اس تنازع میں شامل ہونے سے بابری مسجد رام جنم بھومی کا مقامی قضیہ ملک کی سیاست کے مرکز میں آگیا۔  1984 سے پہلے ایودھیا کے لوگوں کی اس تنازع میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔  وہ اسے عام حق ملکیت کا معاملہ سمجھتے تھے۔  1984 میں جب وشو ہندو پریشد نے تالے میں بند رام کی آزادی کے نعرے کے ساتھ سیتامڑھی سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی۔  اور 1986 میں حکومت نے متنازعہ مقام کا تالا کھولنے کی اجازت دے دی تو ایودھیا اور فیض آباد کے لوگ اس کا پر امن حل تلاش کرنے کے لئے سرگرم ہو گئے۔

مقامی حضرات نے ایودھیا گورو سمیتی بنائی جس کے صدر نرتے گوپال داس اور سکریٹری مقامی روزنامہ کے ایڈیٹر شیتلا سنگھ تھے۔  اس میں فیض آباد کے سابق ممبر پارلیمنٹ نرمل کھتری، ایودھیا کے راجہ وملیندر موہن پرتاپ مشر سمیت سارے سادھو سنت شامل تھے صرف رام ولاس داس اور ونے کٹیار کو چھوڑ کر۔  ونے کٹیار باہر کے ہونے کے ناتے اس کے ممبر نہیں بن سکتے تھے۔  پرم ہنس رام چندر داس کے دگمبر اکھاڑے میں دونوں فریقین کی نرتے گوپال داس کی صدارت میں میٹنگ ہوئی۔  اس میں اتفاق رائے سے طے ہوا کہ متنازع مسجد کو چاروں طرف سے اونچی اونچی دیواروں سے گھیر دیا جائے۔  اس سے منسلک رام چبوترے پر مندر تعمیر کیا جائے۔  اس فیصلے سے گورکھ ناتھ مٹھ کے مہنت اودے ناتھ، پرم ہنس رام چندر داس،  جسٹس دیوکی نندن اگروال، نارائن چاری اور رام ولاس داس ویدانتی جیسے ہندو لیڈران کے ساتھ سید شہاب الدین، صلاح الدین اویسی اور ابراہیم سلیمان سیٹھ بھی اس سے متفق تھے۔  مسلمانوں کی صرف یہ شرط تھی کہ ہندوؤں کی جانب سے یہ دعویٰ نہیں کیا جائے گا کہ ان کی جیت ہوئی ہے۔  یا انہوں نے متنازعہ جگہ پر قبضہ پا لیا ہے۔  آر ایس ایس کے ترجمان پنچ جننے و آرگنائزر نے دسمبر 1986 میں خبر شائع کر اعلان کیا تھا کہ ایودھیا تنازعہ ختم ہو گیا ہے۔

 اشوک سنگھل نے بھی اس کا استقبال کیا تھا۔  لیکن بعد میں سنگھ کے وشنو ہری ڈالمیا نے خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی ایودھیا گورو سمیتی ٹرسٹ کے ٹرسٹی بننا چاہتے ہیں۔  جب انہیں بتایا گیا کہ اس میں صرف ایودھیا اور فیض آباد کے لوگ ہی شامل ہو سکتے ہیں۔  تو انہوں نے اس فیصلے کا جائزہ لینے کے لئے دہلی میں سنگھ کی میٹنگ بلائی۔  اس میں اشوک سنگھل کی فیصلہ کا استقبال کرنے کے لئے ڈانٹ لگائی گئی اور کہا گیا کہ ملک میں رام کے مندر تو بہت ہیں۔  اس کی فکر چھوڑ کر اس تحریک سے جو بیداری آئی ہے اس کا فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔  اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک رام مندر ہندو جزبات ابھار کر محض ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے 30 ستمبر 2010 کے اپنے فیصلے میں تین دعووں کو ہی اصل مانا اور متنازعہ زمین کو ان کے بیچ تقسیم کرنے کی تجویز دی تھی۔  سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے، جو مندرجہ بالا فیصلہ کے خلاف اپیل کی سنوائی کر رہی تین ججوں کی بینچ کے صدر بھی تھے، واضح کر دیا تھا کہ وہ اسے جائداد کے تنازعہ کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں۔  جزبات، سیاست، آستھا اور عقیدہ کی نظر سے نہیں۔  ان سے قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے کہا تھا کہ تنازع کے فریقین عدالت کے باہر سمجھوتہ کا راستہ نہیں اپنائیں گے تو عدالت اپنے ڈھنگ سے فیصلہ کرے گی۔  عدالت نے یہ بھی صاف کر دیا ہے کہ مقدمہ میں جو کامیاب ہوگا اسے بڑا حصہ ملے گا، اور جو ناکام اسے چھوٹا۔  واضح رہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کے بعد 7 جنوری 1993 کو ایودھیا مخصوص علاقہ تحویل اراضی آرڈننس آیا تھا۔  بعد میں پارلیمنٹ نے اسے قانون میں تبدیل کر دیا۔  اس کے بعد 24 اکتوبر 1994 کو آئنی بینچ کے پانچ ممبران نے اس جگہ پر رام مندر، مسجد، لائبریری، کانفرنس ہال، میوزیم اور زائرین کی سہولیات والے مقامات تعمیر کرنے کو کہا تھا۔

جسٹس جے ایس کھیہر کی تجویز کے بعد سنگھ اور اس کے حلیفوں نے مسلمانوں سے بات کرنا شروع کیا۔  مصا لحت کی گفتگو میں بار بار کہا گیا کہ اگر مل کر ایودھیا کا کوئی پر امن حل نہیں نکالا گیا تو ملک میں بڑی تعداد میں فساد ہونے اور ہزاروں لوگوں کی جان جانے کا خطرہ ہے۔  اور یہ کہ اس کا حل عدالت نہیں کر سکتی۔  اگر عدالت کا فیصلہ مندر کے حق میں نہیں آیا تو اسے نہیں مانا جائے گا۔  کئی دور کی بات چیت ہوئی لیکن بات نہیں بنی۔  غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کورٹ میں معاملہ مندر مسجد کا نہیں بلکہ حق ملکیت کا ہے۔  دوسرے اس تنازع کو خود ہندو عدالت لے کر گئے ہیں، اور وہ خود ہی عدالت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں وہ بھی عدالت کے باہر۔  تیسرے پارلیمنٹ اپنے اختیارات کو استعمال کرکے کسی قانون کو ختم یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے، لیکن کسی آرڈننس سے نہیں۔  پھر پارلیمنٹ ایک ہی معاملہ کے لئے دو طرح کے نظام نہیں بنا سکتی۔  اگر وہ کوئی قانون بنائے گی بھی، تو اس کے درست ہونے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہوگا۔

بابری مسجد رام جنم بھومی معاملہ میں دشواری ہے کہ عدالت کی گائیڈ لائن کے مطابق کوئی مقدمہ جیتے یا ہارے اس 71 ایکڑ اراضی میں مندر اور مسجد دونوں ہی بنانے ہوں گے۔  اب کیونکہ سنگھ پریوار نہیں چاہتا کہ مسلمان مقدمہ ہار کر بھی مسجد کے لئے زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس لئے وہ مندر تعمیر کے نئے قانون کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔  مطالبہ کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ 1993 کا یہ قانون ان کی سیاسی جماعت بی جے پی کی حمایت سے بنا تھا۔  بات یہیں ختم نہیں ہوتی، فیصلہ کے بعد یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ مندر یا مسجد کون بنائے گا؟ سیکولر ملک ہونے کے ناتے حکومت یہ کام کر نہیں سکتی اور تحویل اراضی قانون کے مطابق وہ اس کے لئے پابند ہے کہ تحویل میں لی گئی زمین انہیں کے حوالے کرے جو اس کے حق دار ہیں۔  ہندوؤں کے حق میں فیصلہ آنے کے باوجود بھی وشو ہندو پریشد سمیت سنگھ پریوار کی کسی تنظیم کی مندر بنانے میں حصہ داری ممکن نہیں۔  اس سے اندیشہ ہے کہ فیصلے کے بعد مندر یا مسجد بنانے کی دعویداری کے نئے تنازعات کھڑے ہو جائیں اور ان کی سنوائی میں مزید وقت لگے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ پوری قواعد اس مدے کو سیاسی طور پر گرم بنائے رکھنے کی ہے۔  کیونکہ بی جے پی کے ترقی، روز گار، کالی دولت، بد عنوانی، قانون کی حکمرانی اور مہنگائی کم کرنے کے دعووں کی ہوا نکل چکی ہے۔  اس کا نیو انڈیا کا سلوگن بھی عوام کو متاثر نہیں کر سکا ہے۔  پھر آئنی اداروں کو مفلوج بنائے جانے کے عمل نے عوام پر منفی اثر ڈالا ہے۔  بھاجپا کے پاس 2019 میں بتانے کے لئے کچھ ایسا نہیں ہے جو پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔  یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو ایک بار پھر اپنی کامیابی کے لئے رام پر بھروسہ ہے۔  رام مندر مقدمہ کی سماعت کو جنوری تک ملتوی کئے جانے کے بعد سنگھ اور بی جے پی کے لیڈران کے بیانات تو یہی بتا رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔