زخموں کا تسلسل

سیدہ تبسم منظور

چار پانچ دن سے ہمارے گھر پر بچوں کے اسکول کے پروگرام کی پریکٹس چل رہی تھی۔دس بچوں نے حصہ لیا تھا اس میں ہماری بیٹی بھی تھی۔اتفاق سے جو ٹیچر بچوں کو سیکھا رہے تھے وہ ہمارے گھر سے بلکل قریب تھے تو سارے بچے اور ان کی مائیں اسکول کے بعد ہمارے گھر جمع ہوتے ۔پانچ دن ہوگئے راہل کی ماں ایک بار بھی نہیں آئی۔ سبھی بچوں کے ماں یا باپ کوئی نا کوئی آتا۔۔۔ راہل اسکول سے کسی بچے کی ماں کے ساتھ آتا اور لینے کے لئے کوئی لڑکا آتا۔ اتنے دن میں ہماری ایک یا دو بار راہل کی ماں سے فون پر بات ہوئی تھی۔ دس دن کی پریکٹس تھی۔پانچ دن بعد  ٹیچر کی ِفیس دینی تھی ہم اور دوسری مائیں بچوں کو کھلا پلا کر کلاس بھیجنے کی تیاری میں ہی تھے کہ اسی وقت راہل کی ماں سیما نے ہمارے گھر میں قدم رکھا۔

  "ارے راہل کی مما آپ اتنے دنوں میں ایک بار بھی نہیں آئیں ۔۔۔۔ نا اس کے پاپا آئے بس آپ دونوں پیسے کمانے میں لگے ہو کبھی بچے کے اسکول میں کیا ہورہا وہ بھی دیکھا کرو۔”

 ہمارا اتنا کہنا تھا کہ ان کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے۔ اور سبھی مائیں بھی ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ ہمیں بڑا افسوس ہوا اور برا بھی لگ رہا تھا کہ آخر ہم نے ایسا کیا کہہ دیا۔

کیا بات ہے راہل کی مما آپ اتنی اداس کیوں ہوگئی۔ اور آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں چھلک گئے ایک اور لڑکے کی ماں نے پوچھا۔

 ہم نے کہا پہلے بچوں کو چھوڑ آتے ہیں پھر آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

پھر ہم واپس سیما سے مخاطب ہوئے، "سیما ہمیں معاف کر دیں سوری۔ اگر ہم نے آپ کے دل کو آزر پہنچایا ہے تو۔ پر ہم سب جاننا چاہتے ہیں کے ایسی کیا بات ہے۔ شاید ہمیں بتانے سے آپ کا درد ہلکا ہو۔۔۔ہم سب کو اپنا دوست سمجھو۔ ہمیں لگتا ہے کوئی گہرا زخم چھپا ہے آپ کے دل میں۔۔۔پلیز ہم سے اپنا درد بانٹ لو۔”

   ہاں سیما بتول کی مما صحیح کہہ رہیں ہیں۔سبھی مائیں ایک آواز ہوکر بولی۔

 سیما نے آنسوؤں کو صاف کرکے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

    کیا کہوں میں آپ لوگوں سے۔۔۔۔۔میں اپنے درد کو لفظوں میں بیان کر بھی دوں۔۔۔پر اس درد کا کوئی مداوا نہیں۔۔۔ ان زخموں کا کوئی انت نہیں۔۔۔۔پھر بھی آپ کو سننا ہے تو سنئے۔۔۔میرا کالج  میں پہلا دن تھا۔ میں کار سے اتر کر کالج میں داخل ہورہی تھی کہ اچانک ایک شخص  بھاگتا ہوا آیا اور مجھ سے ٹکرا گیا۔۔۔۔

سوری مس سوری کہتے ہوئے اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھا دونوں کی نظریں ایک ہوئی۔۔۔۔۔ پہلی ہی نظر میں دھڑکنیں بے قابو ہونے لگیں۔۔۔۔ اور یہ احساس میرے تن من کو آبشار کے ننھی شبنمی بوندوں کی مانند بھیگونے لگا۔۔۔۔۔ اس کے لمس سے میرا روم روم مہکنے لگا۔۔۔۔ اور جب محسوس ہوا کے اُس کے نظروں کی تپش میرے جسم کے آر پار ہونے لگی تو میں نے شرما کے نظریں جھکالی۔۔۔۔۔پھر کیا تھا آہستہ آہستہ ہماری ملاقاتیں بڑھنے لگی۔..۔۔ہم ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔ دیپک ایک میڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ اور میں ایک امیر باپ کی اکلوتی بیٹی۔۔۔۔۔تین بھائیوں کی اکیلی بہن۔۔۔۔دھن دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔۔۔نازوں سے پلی بڑی تھی۔

     شرم وحیا کی زنجیریں ایک لڑکی کو اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہیں۔ لیکن محبت وہ خوبصورت احساس ہے جو لاکھ زنجیروں میں قید کر لیا جائے۔۔۔سمندر  سے اُٹھتی ہوئی لہروں کو چاہے جتنا روکنے کی کوشش کی جائے۔۔۔ ہوا کے جھونکوں پر کتنا بھی پہرا لگا دیا جائے۔۔۔مگر پھر بھی پل بھر میں  طوفان آجاتا ہے۔۔۔۔۔اسی طرح محبت کا یہ احساس بھی ہم  دونوں کےدلوں میں طوفان کی طرح آہی گیا۔۔۔۔پر طوفان تو آتے ہیں اور آکر چلے جاتے ہیں۔ پر یہ طوفان تو ہر وقت ہم دونوں کو ایک دوسرے کے تصور میں کھوئے رہنے اورہر وقت ایک دوسرے کے ذکر کے ساتھ بڑھنے لگا۔

   فون پر ہم گھنٹوں باتیں کرتے جو کبھی ختم نہ ہوتی۔۔۔۔دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں اور میہنے سال میں کس طرح بدلنے لگے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ ہمارے پیار کے چرچے ہونے لگے۔اور یہ بات جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔۔۔۔اور ہم دونوں کے گھر تک پہنچ گئی۔ پر ہم دونوں عشق کے مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔آس پاس کیا ہورہا ہے۔۔۔اس سے بلکل لا پروا بے خبر ہوگئے۔

 میرے گھر جب یہ بات پہنچی تو مجھ پر پابندیاں لگنے لگی۔ ممی ڈیڈی اور بھائیوں کو دیپک اور اس کا گھرانہ بلکل پسند نہیں تھا۔۔۔۔ممی ڈیڈی نے بہت سمجھایا بہت روکا۔۔۔۔پر پیار اندھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔کہا کچھ دیکھائی دے رہا تھا اور سمجھ رہا تھا۔۔۔جیسے تیسے ہم دونوں کے ایم اے کے فائنل ایکزام ختم ہوئے۔ میں نے اپنےگھر میں سب کو بہت منایا پر کوئی بھی راضی نہیں ہوا۔ہمارے ملنے پر بات کرنے پر پابندی لگنے لگی اور ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں رہ پا رہے تھے۔محفلوں اور اپنوں کے بیچ رہ کر بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگے۔ دیپک کی محبت میں گرفتار ہوکر اسے ہی اپنا سب کچھ مان لیا۔۔۔۔ ماں باپ کا سمجھنا بھی برا لگتا اور یہ محبت جنون بن گئی۔ دیپک کی محبت کے آگے پوری طرح سے کمزور ہوگئی ۔ ماں باپ بھائیوں کے  لاکھ کوششوں کے باوجود خود کو روک نہیں پاتی اور اُسکی آغوش میں اپنے جسم کے ساتھ روح کو بھی سونپ کر اپنے وجود کو ہار گئی۔ہم دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کرلی۔ ڈیڈی کا شہر میں بہت نام تھا۔۔۔۔میں نے اپنے ماں باپ کی عزت کی پروا کئے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔ شادی کے بعد ہم دونوں نے واپس جانا چاہا پر ہمارے لئے گھر کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ اس غم کو میری ماں برداشت نہیں کرسکی اور ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔۔۔ماں کے بعد سال بھر میں ڈیڈی بھی اکلوتی بیٹی کا دکھ دل میں لئےچھوڑ گئے۔

    شادی کے بعد دیپک بےفکر ہو گیا۔کیونکہ اب اس کو اس بات کا یقین ہوچکا کہ اب یہ پوری طرح سے میری ہے. یہیں سے دو پیار کرنے والے میاں بیوی بن جاتے ہیں تو اصل امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ ایک سال تک دیپک کا رویہ ٹھیک تھا۔ کسی طرح میں اپنے آپ کو دیپک کے چھوٹے سے گھر میں ایڈجسٹ کررہی تھی۔ پر نہ جانے دیپک کے دل میں کیا تھا اسے مجھ سے اور میرے گھر والوں سے کیا توقع تھی۔ اس کا برتاؤ آہستہ آہستہ بدلنے لگا اور بدلتا ہی گیا تب تک میری گود میں راہل آچکا تھا۔ پھر ہر روز بات بات پر غصہ لڑائی جھگڑا شروع ہونے لگا۔ جوکبھی میری ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا تھا۔۔۔اب مجھ سے دور بھاگنے لگا۔۔۔اب اس کو میرے انتظار۔۔۔ میری تڑپ۔۔۔میرے جذبات کا احساس ہی نہیں رہا اور دو تین سال میں ہی محبت کی دنیا سے دور ہوتے ہوئے اپنی زندگی کی مادی ضرورتوں میں مصروف ہونے لگا۔ اس کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی کہ پہلے پہل ایک ایک دو دو دن گھر پر نہیں آتا۔ اور ایک دن ایسا آیا کہ وہ مجھے اور راہل کو اس بھری دنیا میں بھٹکنے کے چھوڑ کر چلا گیا۔ اور گھر سے بھی نکل جانے کے لئے کہہ دیا۔یہ تکلیف میرے روح میں اتر گئی۔ وہ رشتہ توڑ کر چلا گیا۔۔۔۔اور وہ رشتے جو دل میں کہیں مر جاتے ہیں۔۔۔۔ان کی رشتوں کی لاش کو ادھر ادھر لٹکاے پھرنے کا کوئی فائدہ نہیں..۔۔۔اسے دفن کر دینا ہی بہتر ہے۔۔۔کیونکہ مردہ رشتے…۔مردہ انسانوں سے بھی زیادہ تعفن دیتے ہیں۔

اس نے میرے دل کو قبرستان بنا دیا۔۔۔۔یہ محبت ایسی ہوتی جہاں بس خوشیاں دیکھائی دیتی ہے لیکن اصل میں یہ کانٹوں کی سیج ہے۔۔۔ شاید میرا انجام یہی ہونا تھا۔۔۔ کیونکہ محبت کی چاہ میں خود ہی نے اپنے ماں باپ بھائیوں کی عزت کی پروا کئے بغیر گھر کو چھوڑ کر اپنے جسم اور روح کو دیپک کے حوالے کیا تھا۔۔۔۔دیپک کو پانے کی خاطر میں اپنا سب کچھ کھو چکی تھی۔ اب میرے لئے یہ زندگی بہت اذیت بھری تھی تین سال کا ننھا بچہ اسے لے کر کہا جاتی۔۔۔۔ماں باپ تو پہلے ہی میری اس حرکت کی وجہ سے میرا دکھ سینے میں لئے چل بسے تھے۔ بھائیوں کے پاس پہنچی بہت معافی مانگی ہاتھ پیر پکڑے۔۔۔۔بہت روئی بہت گڑ گڑائی۔۔۔۔میں نے  اپنے بچے کے ساتھ رہنے کے لئے بس تھوڑی سی  چھت مانگی۔۔۔۔۔۔ پر بھائیوں نے کہا کہ

” ماں نے مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کے تمہیں گھر میں نہ لیا جائے۔۔۔تم پہلے ہی ہمارے لئے مر چکی ہو ۔۔۔۔اس دروازے پر پھر کبھی قدم نہیں رکھنا اور نہ ہم سے کوئی امید رکھنا”۔

میں اتنا سا منہ لے کر وہاں سے چلی آئی کچھ دن ایک سہیلی کے گھر پناہ لی اور جاب ڈھونڈنا شروع کی۔ بہت جلدی جاب بھی ملی۔پھر میں نے ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لیا۔ راہل کو بےبی سیٹنگ میں چھوڑ کر افیس جاتی ہوں۔۔۔ وہی سے وہ اسکول آتا جاتا  ہے۔ آفیس سےلوٹتے وقت میں ساتھ لے جاتی ہوں۔دو سال ہوگئے دیپک نہ ہمیں دیکھتا ہے نا پوچھتا ہے۔اس نے دوسری شادی کی ہے دونوں کے الگ الگ پوز کے فوٹو مجھے بھیجتا ہے۔ اور میں ہر روز مرتی ہوں ہر روز اس بچے کے لئےجیتی ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔