اے ابنِ اضطراب، دلِ ناصبور صبر
افتخار راغبؔ
اے ابنِ اضطراب، دلِ ناصبور صبر
تکلیف میں ہے باعثِ کیف و سرور صبر
…
چھٹ کر رہے گی تیرگی اک دن گریز کی
پھوٹے گا التفات و محبت کا نور صبر
…
آنکھوں میں تیرتے ہیں ابھی تک کئی حروف
لکھا تھا اُس نے اشک سے بین السطور "صبر”
…
میں کیا کروں کہ تم کو نہ ہو برہمی کبھی
کس طرح دل کو آئے تمھارے حضور صبر
…
تم سے تھا دور دور تو صابر تھا سخت تھا
شیشے کی طرح پل میں ہوا چور چور صبر
…
دونوں ہی اعتدال پہ راغبؔ نہ رہ سکے
تھا میرا اضطراب تو اس کا قصور صبر
تبصرے بند ہیں۔