نازش ہما قاسمی
آزادی کی مبارک باد دیتا ہوں ان لٹے پٹے، گھسٹے پٹے، ہندوستانی باشندوں کو جو آزادہند میں اپنے کرپٹ لیڈران، ظالم وجابر کے زیر نگیں ہوکر غلامی سے بدتر زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ جشن آزادی مبارک ہو ان کسانوں کو جو اپنی فصل کے مناسب دام نہ ملنے سے خودکشی کررہے ہیں۔ جشن آزادی مبارک ہو ان اقلیتوں کو جو آئے دن ہجومی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جشن آزادی مبارک ہو ان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کوجو روزگار کی آس میں امید لگائے بیٹھے ہیں۔
جشن آزادی مبارک ہو ان دلتوں کو جو ہزارہا سال سے برہمنوں کی غلامی کررہے ہیں۔ ہندوستان برطانوی سامراج سے آزاد تو ہوگیا؛ لیکن حقیقی آزادی یہاں کے باشندوں کو آج تک میسر نہیں ہوئی۔ گوروں کے ظلم واستبداد کے شکار عوام یہاں کالے انگریزوں کے دام میں پھنس گئے۔ ۱۹۴۷ میں برسوں کی محنت کے بعد یہ ہندوستان آزاد ہوا تھا۔ لاکھوں ہندوستانیوں نے اپنے خون سے اس چمن کو سیراب کیا، تب جاکر یہ خوشی کا دن میسر ہوا؛ لیکن اس ملک کی باگ و ڈور ۷۲ سالوں میں کسی ایسے فرد کے ہاتھ میں نہیں آئی جو حقیقی معنوں میں عوام کو آزادی کا معنی سمجھا سکے۔ جو حقیقی معنوں میں انہیں آزادی کی خوشی دے سکے۔ اسی آس اسی امید میں ہندوستانی جی رہے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں ’دن آتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی‘۔ دو دن بعد تمام دفاتر بند رہیں گے۔ ترنگا پرچم پوری آن بان شان سے لہرا رہا ہوگا؛ لیکن دبے کچلے عوام فکر معاش میں ہوں گے، اس دن ان کے گھر چولہا بھی نہیں جل سکے گا۔ وہ بھوکے ہوں گے پھر بھی وطن کی محبت میں ترانہ آزادی گنگنا رہے ہوں گے۔ بر خلاف اس کے جو ترنگے کی توہین کرتے ہیں۔ جو عدلیہ کی عمارت پر لہرا رہےپرچم ِترنگا کو اتار کر بھگوا لہرا دیتے ہیں وہ شکم سیر ہوں گے اور نعرہ لگا کر خود کو سب سے بڑا محب وطن ٹھہرائیں گے۔
خیر! ہم آزاد ہیں بایں معنی کہ ہم نے انگریزوں کو اس ملک سے بھگا دیا… ہم آزاد ہیں کہ اپنا ایک ملک رکھتے ہیں جسے ہندوستان کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ! ہم آزاد ہیں کیوں کہ ہم نے جب آنکھیں کھولیں تو مغلوں کے تعمیر کردہ ہندوستان کی شان لال قلعہ پر برطانیہ کانہیں ؛ بلکہ شہیدوں کے خون سے لبریز ترنگا لہرا رہا تھا۔ ہم آزاد ہیں؛ کیوں کہ ہمارے اسلاف نے آزادی وطن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی تھیں جن کے صلہ میں ہمیں 15اگست 1947کا عظیم اور آزاد دن نصیب ہوا۔ ہندوستان کو آزاد ہوئے ۷۲ سال ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کا جس طرح آزاد ہندوستان میں استحصال ہوا ہے ایسا معاملہ تو ملک کے دلتوں کے ساتھ بھی پیش نہیں آیا ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس ملک کا مسلمان دلت سے کہیں زیادہ بدتر حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔ مسلمانوں کا قتل عام، معاشی ترقی سے دوری، بھاگلپور فساد کے بعد تو ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا… اور ملک کا شاید ہی کوئی ایسا صوبہ ہو جہاں معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی گئی ہو۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیا گیا… انہیں ہر اعتبار سے مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے اسلاف کی قربانیوں کو رائیگاں کرتے ہوئے ان مقدس اسلاف کی اولادوں کے لئے ملک میں جینا دوبھر کردیاگیا۔ گجرات سے لے کر مظفر نگر تک اور کشمیر سے لے کر آسام تک مسلمانوں کو فسادات کا ایسا ناسور دیاگیا کہ آج تک وہ اپنے رستے زخم سے پریشان ہیں اور اس پریشانی کے عالم میں بھی وہ ملک عزیز کے تئیں وفادار ہیں ؛ لیکن افسوس اسے اپنی وفاداری کا سرٹیفکیٹ آر ایس ایس اور دیگر ملک دشمن تنظیموں سے لینی پڑ رہی ہے وہ ان کا امتحان لے رہے ہیں کہ واقعی مسلمان وفادار ہیں یا نہیں۔ ہمارے مدرسوں پر ترنگا لہرایا جارہا ہے تو ہم وفادار ہیں … ہمارے ہاتھوں میں ترنگا ہوگا جبھی ہم وفادار ہیں؛ لیکن ناگپور میں آر ایس ایس کا جھنڈا ہی لہرایا جائے گا … ان کے ہاتھوں میں ترنگا کے بجائے ترشول ہی ہوں گے؛ کیوں کہ زمام اقتدار انکے ہاتھوں میں ہے، اقتدار کی باگ ڈور یہی لوگ سنبھالے ہوئے ہیں اور ہمیں وفاداری کا سرٹیفکیٹ الاٹ کرنے والے یہی لوگ ہیں یہ جو بھی کریں ملک موافق ہوگا … ہم لاکھ جھنڈے لہرائیں … لاکھ ترنگے کو سلامی دیں … ہماری وفاداریاں مشکوک رہیں گی۔ کیا یہی آزادی ہے… کیا اسی کا نام آزادی ہے؟ کیا اسی آزادی کیلئے نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان نے جام شہادت نوش کیا تھا… کیا اسی آزادی کے لئے شیخ الہند نے مالٹا کو اپنے شرر ہائے نفس سے آباد کیا تھا … کیا اسی آزادی کے لئے پانی پت کی لڑائی لڑی گئی تھی؟ … کیا اسی آزادی کے لئے اسماعیل شہید نے بالا کوٹ کی پہاڑی پر اپنی جان جان ِ آفریں کے سپرد کی تھیں … کیا اسی آزادی کے لئے ایک ایک دن میں اسی اسی علما پھانسی کے تختے پر جھول گئے تھے… کیا اسی آزادی کیلئے شاملی کے میدان میں علماء انگریزوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے تھے…کیا اسی آزادی کے لئے بھاگلپور کو اجاڑا گیا تھا… کیا اسی آزادی کے لئے ہاشم پورہ کا معاملہ پیش آیا تھا… کیا یہی آزادی ہے کہ محض مسلمان ہونے کے جرم میں گجرات کو جلایا گیا… کیا یہی آزادی ہے کہ مظفر نگر کو بدتر نگر بنا دیا گیا… کیا یہی آزادی ہے کہ پورے ملک میں ہجومی تشدد کا قہر برپا ہے اور حکومت لگام لگانے سے قاصر ہے، کیا یہی آزادی ہے مظفر پور سے لے کردیوریا تک خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔
ہمارے اسلاف نے جس آزادی کا خواب دیکھا تھا یہ وہ آزادی تو نہیں ہے… کل ہندوستانی گورے انگریزوں سے پریشان تھے اور آج انہیں کالے انگریزوں سے خوف ہے… جس طرح گوروں نے بانٹو اور حکومت کرو کا نعرہ لگایا تھا آج انہیں کے نقش قدم پر ان کے گرگے یہ کام انجام دے رہے ہیں …! ہم ہر سال آزادی کا جشن مناتے ہیں؛ لیکن ہمیں آزادی کی سچی خوشی نہیں ملتی ہے… 15 اگست کو بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں، اخوت و بھائی چارے کا درس دیا جاتا ہے، جیو اور جینے دو کا فلسفہ پڑھایا جاتا ہے، ملک کی خاطر جان دینے کی بات کی جاتی ہے، سماج دشمن عناصر سے وطن کو پاک صاف کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے، لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے، جب 15 اگست کو پورا ملک آزادی کے نغمے گارہا ہوگا تو اس وقت کشمیر کی کوئی ماں اپنے بیٹے کو سینے سے چمٹا کر بلک بلک رورہی ہوگی، اخلاق کے اہل خانہ رو رہے ہونگے، نجیب کی ماں اپنے لخت جگر کا راستہ تک رہی ہوگی، جنید کی ماں انصاف ملنے کی امید لگا رہی ہوگی۔ افرازل کی بہنیں بھائی کو ڈھونڈ رہی ہوںگی۔ آصفہ کے اہل خانہ معصوم کو یاد کررہے ہوں گے، نربھیا کی والدہ انصاف کی منتظر ہوں گی، اکبر خان کے چھوٹے معصوم بچے والد کا انتظار کررہے ہوں گے اور وہ اپنے اوپر ہوئےآزاد ملک میں مظالم کو کوس رہے ہوں گے اور اپنے اسلاف کی روحوں سے یہ سوال کررہے ہوں گے کیا ہم واقعی آزاد ہیں …؟
سچ تو یہ ہے کہ آزادی تو ہمیں ملی؛لیکن ہم پھر سے غلام بن گئے، ہماری ذہنیت غلام بن کر "چانکیہ کی برہمنی ملحدانہ سوچ کی نذر ہوکر رہ گئی ہے۔ ہمیں ہمارے وہ حقوق نہیں ملے جن کے ہم حقدار تھے، ہم اس سرزمین کے حقدار ہیں؛ لیکن ہمیں کرایہ دار بنا دیا گیا۔ ہمیں ذات واد سے آزادی چاہئے … ہمیں وہ آزادی چاہئے جن کے خواب ہمارے اسلاف نے دیکھے تھے۔ ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کے لئے مالٹا آباد کیاگیا تھا۔ ہمیں وہ گنگ و جمن والا ماحول چاہئے جس کے لئے ہندو مسلم متحدہ قوم بن کر انگریزوں سے سینہ سپر ہوئے تھے۔ ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کے لیے بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا، ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کے لیے منگل پانڈے نے بغاوت کی تھی۔ ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کے لیے مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے منبر سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا "تمہیں یاد ہے جب میں نے تمھیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ دی، میں نے قلم اٹھایا تو تم نے ہاتھ کاٹ ڈالے، میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے اور میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی ” اتنا سننا تھا کہ میرے پاؤں جم گئے اور پھر ہم پر مصائب و شدائد کی مشق ستم ایجاد کی سنتیں تازہ کی جانے لگیں ؛ لیکن پھر بھی اسی ہندوستان کو” نگار جہاں خویش ” قرار دیا، ہمیں وہی ہندوستان اور وہی آزادی چاہیے جس کے لئے مولانا آزاد نے ہمیں ہجرت سے روکاتھا؛ کیوں کہ ہم اس عظیم دھرتی کے برابر کے حصہ دار ہیں، ہمارا ہی خون چمن زار گلستاں کو شاد رکھے ہوا ہے، ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کا نعرہ کنہیا کمار نے جے این یو میں لگایا تھا۔ کہ ہم لے کر رہیں گے آزادی۔
ہمیں منوواد سے چاہیے آزادی، ہمیں افلاس سے چاہیے آزادی، ہمیں بھوک سے چاہیے آزادی، ہمیں منافرت سے چاہیے آزادی، اور ہمیں تشدد سے چاہیے آزادی، ہمیں وہ بھارت چاہیے جس کا خواب گاندھی سے لیکر سرحدی گاندھی نے دیکھا تھا، ہمیں جنت نشان بھارت چاہیے کہ جس کی فضاؤں میں نفرت، تشدد اور اشتعال نہ ہوں ؛ بلکہ بوئے ختن فضا کو بدمست کر رہی ہو۔
تبصرے بند ہیں۔