ہاں میں دین دیال اپادھیائے ہوں!

نازش ہما قاسمی

جی میں پنڈت دین دیال اپادھیائے ہوں۔ ۔ ۔ آر ایس ایس رہنما۔ ۔ ۔ منوواد کاحامی۔ ۔ ۔ بھارتیہ جن سنگھ کا سابق صدر۔ ۔ ۔ میری پیدائش 25؍ستمبر 1916کو غلام بھارت کے نگلا چندربھان متھرا یوپی میں ہوئی۔ میرے والد کا نام بھگوتی پرساد اپادھیائے تھا اور والدہ کا نام رام پیاری۔ محکمہ ریلوے سے میرا پرانا رشتہ رہا ہے۔ میرے والد جلسیر روڈ اسٹیشن پر معاون اسٹیشن ماسٹر تھے۔ میرے نانا چنّی لال شکل دھنکیا میں اسٹیشن ماسٹر تھے اور میری مشکوک موت بھی مشہور ریلوے اسٹیشن مغل سرائے کے پاس ہوئی۔

میں نے اپنی تعلیم پلانی، آگرہ اور دیگر جگہوں سے حاصل کی، بی ایس سی، بی ٹی کرنے کے بعد بھی میں تدریس کے پیشے سے وابستہ نہیں ہوا؛ بلکہ 1942میں عین جوانی میں ہی راشٹریہ سوم سویک سنگھ کا کارکن ہوگیا۔ کالج چھوڑنے کے بعد پرچارک بن گیا۔ میں پڑھنے میں انتہائی ذہین تھا، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ میں صحافی بھی تھا اور مفکر اور رائٹر بھی۔ میں نے ہفتہ روزہ ماہنامہ اخبار بھی نکالے۔ میں ہندوستانی سیاست کو ہندوتو کی جانب لے جانا چاہتا تھا اورپوری زندگی اسی مشن کے تحت گزار دی۔ میں نے کئی کتابیں تصنیف کی جن میں سے مشہور ’’دویوجنائیں‘‘، ’’سیاسی ڈائری‘‘، ’’بھارتیہ ارتھ نیتی کا اومولین‘‘، ’’سمراٹ چندرگپت‘‘، ’’راشٹریہ جیون کی دشا‘‘، ’’ایک پریم کتھا‘‘ وغیرہ ہیں۔ 1951میں جب ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد ڈالی تو میں یوپی کا پہلا جنرل سکریٹری بنایاگیا۔ میرے بارے میں میرے گرو شیاما پرساد نے کہا تھا کہ اگر میرے پاس دو دین دیال ہوتے تو میں ہندوستانی سیاست کی شبیہ کو بدل سکتا تھا۔ ہاں میں وہی دین دیال اپادھیائے ہوں جس کے اقوال ہندوتو کے ماننے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ہاں میں وہی دین دیال اپادھیائے ہوں جس نے مسلمانوں کے تعلق سے کہا تھا کہ ’’ وہ اپنی ہندوستانیت ثابت کریں۔ وہ ہندوستان کے ہیں ان میں ہندوستانیت ہے۔ ہندوستان میں جو آبادی رہ گئی ہے وہ مشکوک ہے، اس لیے ان کو اپنی وفاداری ثابت کرنی چاہیے‘‘۔

میرا عفریت سوسال کے بعد بیدار کیاگیا ہے؛ کیوں کہ میں راشٹریہ سوم سیوک کا وفادار تھا اب جب کہ ہندوستان میں راشٹرسوم سیوک کی ذہنیت والے افراد کی حکومت ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ مجھے خراج عقیدت پیش کریں گے۔ مجھے مہاتما گاندھی سے بڑا رہنما بنایا جارہا ہے۔ میرے نام پر کالج ویونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں۔ حالانکہ میں غلام بھارت میں پیدا ہوا تھا؛ لیکن غلامی سے نکلنے کےلیے میں نے کوئی جدوجہد نہیں کی، کسی قسم کی قربانی نہیں دی۔ پھر بھی مجھے ماننے والے مجھے بہترین فلاسفر، قومی رہنما بنا چکے ہیں۔ میں مسلم مخالف رہنما تھا میں ہندوستان میں اقلیت کو نہیں رہنے دینے کا حامی تھا اور اسی پر میرے ہمنوا عمل پیرا ہیں۔ آپ نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ جب سے میرے ماننے والوں کی حکومت قائم ہوئی ہے اقلیتوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ مظالم کا سلسلہ ان پر درازسے دراز تر ہوگیا اور یہ ہوتا رہےگا؛ کیوںکہ یہ نظریاتی جنگ ہے اس میں میرے ماننے والوں کو کامیابی ملنی یقینی ہے۔ جب تک اقلیت کے قائدین اور خود اقلیت ہوش میں آئیں گے تب تک ہندوستان اکھنڈ بھارت ہندوراشٹر میں تبدیل ہوچکا ہوگا جو کہ میرا خواب تھا وہ شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ ہاں میں وہی دین دیال اپادھیائے ہوں جس نے ’منفرد انسانیت‘ کا فلسفہ دیا۔ منفرد انسانیت کا فلسفہ ہندوراشٹر میں ہی ممکن ہے۔

میں وہی دین دیال اپادھیائے ہوں جس نے علی گڑھ کے راشٹریہ سویم سیوک کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’ہندوستان کو سیکولر ملک اعلان کرنے سے ہندوستان کی روح پر حملہ ہوا ہے۔ ایک سیکولر ملک میں تو پریشانیوں کا پہاڑ کھڑا رہتا ہے۔ حالانکہ راون کی لنکا میں واقع مذہب سے عاری ریاست میں بہت سارا سونا تھا، مگر وہاں رام راج نہیں تھا‘۔

جس طرح میں نے ملک کی آزادی، اس کی تعمیر وترقی کےلیے کچھ نہیں کیا اسی طرح میرے ماننے والوں نے کچھ نہیں کیا۔ جن لوگوں نے اسے ترقی دی، اسے دنیا میں اہم مقام دلایا۔ ہندوستان کی شناخت دلائی۔ تمام مذہب وملت کا ہند کو گہوارہ بتایا ان کی تاریخ مسخ کرکے میرے نام سے منسوب کررہے ہیں۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ مغلوں نے ہندوستان میں تاریخ مرتب کی ہے؛ لیکن میرے ماننے والے اس تاریخ میں ترمیم کررہے ہیں۔ اس تاریخ کو مسخ کررہے ہیں؛ لیکن شاید وہ لوگوں کے اذہان سے ان باتوں کو محو نہ کرسکیں؛ کیوں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا رول رہا ہے۔ گاندھی و نہرو کا کردار رہا ہے، گوڈسے و اپادھیائے کا نہیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں مغلوں کا سرمایہ لگا ہے۔ انہوں نے ہی ہندوستان کو جنت نشاں بنایا تھا گوالکرواپادھیائے نے نہیں۔

خیر میرے مرنے کے بعد مجھے یہ شردھانجلی دے رہے ہیں سوسال بعد بھکتوں نے خراج عقیدت پیش کرکے مشہور ریلوے اسٹیشن مغل سرائے کو میرے نام سے منسوب کردیا ہے۔ بھکت تالی بجا رہے ہیں کہ میں ان کا مذہبی، ثقافتی، تہذیبی رہنما یہیں(مغل سرائے کے قریب)11؍فروری 1968کومشکوک حالت میں مردہ پایا گیا تھا؛ اس لیے مغل سرائے کو میرے نام سے منسوب کیاجائے اور ملک کےلیے میری خدمات (جوکہ کچھ ہے ہی نہیں) کو سراہا جائے۔ میں بھکتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے خراج عقیدت پیش کرنا ہی تھا تو نیا اسٹیشن بنادیتے میرے نام سے۔ ۔ ۔ کیوں مجھے مغلوں کاجھوٹا، چھوڑا ہو اترن دیا۔ ۔ ۔ ؟ اسٹیشن ماسٹر جب تک اعلان کرے گا کہ فلاں ٹرین دین دیال اپادھیائے اسٹیشن پر آرہی ہے، مسافر حضرات دیکھیں گے کہ وہ ٹرین تو جارہی ہے، آخر اسٹیشن کا اتنا لمبا نام رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟لوگ باگ پس مرگ مجھے ہی گالی دینگے۔ ۔ ۔ خیر! پھر بھی میں خوش ہوں کہ اس اسٹیشن کو میرے نام سے منسوب کردیا نہیں تو دوسری برہمنی پارٹی اسے لال بہادر شاستری کے نام سے منسوب کرنے والی تھی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔