بنگلہ دیش میں پھانسیاں۔۔۔ سزا ہی صرف پاکستانیت کی

ایک اور وفادار پاکستانی پھانسی چڑھ گیا۔ اُسے سزا ہی صرف پاکستانیت کی دی گئی۔ مطیع الرحمان امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش تھے نہ صرف پاکستان کے وفادار تھے اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والوں میں شامل نہ ہوئے بلکہ 1971 کے مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان کی حفاظت کے ہراول دستے میں شامل رہے وہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مکتی باہنی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ڈٹے رہے۔ شیخ مجیب اور اس کے ساتھی غداروں کو لیڈر ماننے سے انکار کیا اور حکومتِ وقت اور افواج مملکت کی مدد کی۔ بد قسمتی سے ان محب وطن پاکستانیوں کی قربانیاں بھی رنگ نہ لائیں اور غدار مجیب اور اس کا ٹو لہ کامیاب ہو گیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ یہ محب وطن پاکستانی ظاہر ہے کہ غدار مجیب اور اس کے ٹو لہ کے زیر عتاب آئے، شیخ مجیب نے جماعت اسلامی کی سیاست پر پابندی لگادی۔ یہ سارے محب وطن پاکستانی بنگلہ دیش چھوڑ کر چلے گئے اور سات سال تک باہر رہے۔ انہی محب وطن پاکستانیوں میں الشمس کے مطیع الرحمان بھی تھے جب جنرل ضیاالرحمان کی حکومت آئی تو ان رہنماوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔ یوں یہ لوگ 1978 میں واپس وطن آگئے، جماعت اسلامی کی سیاست پر سے پابندی اٹھالی گئی اور یہ لوگ پھر سے بنگلہ دیش کی سیاست میں سر گرم ہو گئے۔ نہ ملک کے خلاف کوئی سازش کی نہ ایساالزام ہی ان پر لگا بلکہ یہ ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر بھی بنے اور حکومت میں بھی شریک رہے۔ مطیع الرحمان نظامی بھی انہی لوگوں میں شامل تھے یہ پبنا سے تین بار پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے وزیر زراعت بھی رہے اور وزیر صنعت بھی2001 تا 2003  وزار ت زراعت اور 2003 تا 2006 وزارت صنعت کا قلمدان ان کے پاس رہا۔ اس دوران انہوں نے دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدے بھی کیے اور اپنے ملک میں بھی کئی منصوبے شروع اور مکمل بھی کیے۔ اسی دوران بنگلہ دیش یورپی یونین کو گارمنٹس برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک بھی بنا تو کیا یہ سب بھی ملک سے غداری تھی۔ مسئلہ غداری اور ملک دشمنی کا نہیں بلکہ شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کا ہے جس کے خون میں پاکستان دشمنی شامل ہے اور جس نے برسر اقتدار آکرچالیس بیالیس سال بعد جنگی جرائم کے نام پر اُس وقت کے وفادار پاکستانیوں اورآج کے محب وطن بنگلہ دیشیوں پر مقدمات چلائے اور انہیں پھانسی چڑھایا۔ ایسا کرنے کے لیے کسی کا مجرم ہونا اہم نہیں تھا بلکہ زیادہ اہمیت اس بات کی تھی کہ ان لوگوں نے کسی زمانے میں جب وہ پاکستانی تھے پاکستان کے دشمنوں سے جنگ کی تھی جبکہ شیخ حسینہ کا باپ ان دشمنوں کا سر غنہ تھا۔ مطیع الرحمان سے پہلے وہ اسی ذاتی دشمنی، بغض اور عناد کے بھینٹ عبدالقادر ملا، قمرالزمان، علی احسن مجاہد اور صلاح الدین چوہدری کو چڑھاچکی ہے۔ اس نے آٹھ ایسے افراد پر یہ مقدمات قائم کیے جن میں جناب مطیع الرحمان نظامی جماعت اسلامی کے اُس وقت کے سر کردہ رہنماءوں میں آخری تھے جنہیں 11مئی 2016 کو پھانسی دے کر حسینہ واجد نے بظاہر اپنا مشن مکمل کر لیااور میرے خیال میں اپنی حکومت اور سیاست کا مقصد بھی حاصل کر لیا لیکن اُس کی پاکستان دشمنی کو اب بھی قرار نہ آیا ہو گا۔ وہ اپنی خواہشات کے حصول کے لیے اب بھی بر سر پیکار رہے گی۔ وہ نہ صرف بنگلہ دیش کے محب وطن پاکستانیوں کو ختم کرنے کے مشن پر لگی ہوئی ہے بلکہ پاکستان میں بھی سازش میں مصروف ہے اور پاکستان میں ہی موجود چند پاکستانیوں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔ ان پاکستانیوں کو شیخ مجیب کے مشن کو آگے بڑھانے پر اُس نے ایوارڈز دیئے جو انہوں نے بڑے فخر سے وصول کیے اور اس کے لیے توجیہہ دی کہ یہ انسانیت کی خدمت اور ’’قتلِ عام‘‘ کے خلاف بولنے پر دیے گئے۔  ویسے سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب یہ ایوارڈ وصول کنندہ انہیں اسی بنا پر واپس کریں گے کہ بنتِ غدار حسینہ واجد نے اپنے ملک میں پاکستا ن کو بد نام کرنے، اس کے خلاف کام کرنے اور اس کا نام لینے والوں کے خلاف زہریلی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اُس نے اپنے باپ کے کیے ہوئے معاہدے کی بھی پرواہ نہیں کی10اپریل 1974کو ہونے والے اس معاہدے کی رو سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کوئی بھی کسی بھی قسم کے جنگی مقدمات 1971 کے حوالے سے قائم نہیں کریں گے۔ لیکن حسینہ واجد پاکستان کے خلاف ایسا دھڑلے سے کر رہی ہے بلکہ اُس کی حکومت نے یہ بھی منصوبہ بنایا ہے کہ پاک فوج کے 195افسران کے خلاف بھی ان کی غیر حاضری میں مقدمات دائر کرے گی جنہوں نے 1971کی جنگ میں اہم عہدوں پر کام کیا اور فوج کی کمان کی۔ اس نے معمر افراد کو پھانسی پر چڑھایا۔ مطیع الرحمان کو تہتر سال کی عمر میں پھانسی دی گئی، عبدالقادر ملا کو پینسٹھ، علی احسن مجاہد کو ستاسٹھ اورقمرالزمان کو باسٹھ سلام کی عمر میں پھانسی دی گئی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ان سزاءوں پر اعتراض اور احتجاج کیا۔ ترکی نے اپنے سفیر کو بنگلہ دیش سے واپس بلایا لیکن ایوارڈ یافتہ گان پاکستانیوں کے ایوارڈ وصول کنندہ اولادوں نے احتجاجاَ کوئی ایوارڈ واپس نہیں کیا کیونکہ یوں انہیں اپنے ملک میں عزت تو مل سکتی تھی ان کے ملک کے دشمن اور ان کی ذات کے دوستوں کی ناراضگی یقینی تھی۔  انہوں نے اسے ہر گز انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں سمجھا شاید وہ اسے دوسروں کے معاملات میں مداخلت سمجھتے ہوں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے ملک کے بارے میں کیا کہا اور کیا جارہا ہے ظاہر ہے کہ یہاں اُن کے ذاتی مفادات پر چوٹ پڑتی ہے اور ملکی مفادات کی اُن کے لیے کوئی اہمیت نہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماءوں کی پھانسی دراصل جماعت اسلامی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی سزا اور پاکستان کے خلاف سازش اور نفرت ہے لہٰذا اس پر پوری پاکستانی قوم اور حکومت کو سخت احتجاج کرنا چاہیے۔ وزارتِ خارجہ میں بنگلہ سفیر کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کرا دینا کافی نہیں حکومت کو حسینہ واجد کو سخت جواب دینا ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ پاکستان میں مو جود بنگالیوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا جائے لیکن کیا پاکستان کے پاس ایسے بنگالیوں کی فہرستیں نہیں جنہوں غیر بنگالی مغربی پاکستانیوں اوربہاریوں کا قتل عام کیا۔ کیا شیخ مجیب پر بعد از مرگ غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا اور اگر بنگلہ دیش 195پاکستانی افسران کے خلاف مقدمہ صرف پاکستان دشمنی میں قائم کرنے کی دھمکی دے رہا ہے تو اُن 203بنگالیوں جنہوں نے مغربی پاکستان میں رہ کر پاکستان کے خلاف کام کیا کے خلاف کیوں نہ پاکستان مقدمہ دائر کرے جیسا کہ اُس وقت بھی کہا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ہر بار پاکستان کو شکست تسلیم کرنا پڑے گی اور بغیر کسی عملی احتجاج کے اپنے ملک کی سبکی پر دو چار جملے بول کر چپ ہو جانا ہو گا۔ کیا اس بار ایسا نہ کیا جائے کہ حسینہ واجد کی حکومت تک بنگلہ دیش کے ساتھ معاملات یا سخت کر دیے جا ئیں یا منقطع کر دیے جائیں۔ تین بار بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آکر کھیلنے کے معاہدے پر عمل نہیں کیا، تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اب کی بار ہم ایسا کر لیں اور انکار کر دیں، آخر اُن سے نہ کھیل کر ہمیں کتنا بڑا نقصان ہو جائے گا، کیا ثقافتی تعلقات بھی منقطع نہیں کیے جا سکتے، کیا اچھا نہ ہو کہ اِن وفادار پاکستانیوں کے لیے حکومتِ پاکستان ہی اعلیٰ ترین سول اعزازات کا اعلان کرکے اُن کا حق ادا کرے جنہوں نے پینتالیس سال پہلے پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑی تھی اور اسی کی سزا میں انہیں بڑھاپے میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا اورکیا حکومت کو اس معاملے کو دنیا کے بڑے بڑے فورمز پر نہیں اٹھانا چاہیے۔ آخر کب تک ہم اپنے قومی وقار پر سمجھوتہ کرتے رہیں گے۔ یاد رکھیے ان رہنماءوں کی پھانسی بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کا معاملہ ہے اور اگر ہم ہر بار پاکستان کے معاملے کو یوں آسانی سے چھوڑتے اور معاف کرتے جائیں گے تو وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا اور نہ ہی ہمیں کسی شکایت کا حق حاصل ہو گا یہی وقت ہے کہ ایک مضبوط قوم اور ریاست کی طرح اپنے قومی وقار کی حفاظت کی جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔