ملک ’’شام‘‘ کے مسلمانوں پرسیکولرحکمران کے مظالم اور شامی مہاجرین کاعالمی انسانی المیہ

سیکولرازم کاتجربہ انسانی تاریخ کا سب سے المناک ترین تجربہ ثابت ہو رہاہے۔ ماضی بعید کی انسانی تاریخ میں بھی یقیناََ اتنے اندوہناک مظالم کی داستانیں نہیں ملتیں جتنی اس سیکولرازم کے ہاتھوں تاریخ نے رقم کی ہیں۔ موجودہ صدی،گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ صدی میں انسانوں کے کشت و خون کے جو بازاراس سیکولرازم کے ہاتھوں گرم ہوئے کہ الامان والحفیظ۔ جمہوریت اورانسانی حقوق کے نام پر پوری دنیا پرغلامی مسلط کرنا اور پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم جیسی تباہیاں انسانوں پر مسلط کرنا اسی سیکولرازم کے شاخسانے ہیں۔ سردجنگ کے نام پرحکومتوں کے درمیان کھنچاؤ، بظاہربڑی خوش دلی سے ملنا، تعلقات استوارکرنا، مذاکرات کی میزیں سجانا لیکن اندرخانے خفیہ ایجنسیوں کے بل بوتے پردیگرریاستوں کی جڑیں کھوکھلی کرنااور ان ریاستوں کے حکمران وعوام کوقتل و غارت گری کاشکارکرنا ان سیکولرحکمرانوں کی اصلیت ہے۔ پس صنعتی انقلاب کے بعد سے سے کھیلی گئی اس خون کی ہولی سے سیکولرازم نے کذب و نفاق کی مکروہ داستان رقم کی ہے اور ہورہی ہے۔ ملک شام کا آغاز اسلام سے ہی مسلمانوں کی تاریخ میں بہت اہم مقام رہاہے، لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے طاغوت کے مسلط کردہ خود ساختہ سیکولرحکمرانوں نے مسلمانوں کے اس ملک کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیاہے۔ شام میں جمہوریت کے نام پر نسل درنسل حکمرانی کر کے دنیامیں آنکھوں میں دھول جھونکنا اس غدارخاندان کا ورثہ ہے۔ شام کے موجودہ حکمران بشارالاسد کے دادا علی سلیمان الاسدنے فرانسیسیوں کو لکھا تھا کہ ہم شامی انتظامیہ کی بجائے فرانسیسی حکمرانوں کے زیرسایہ زندگی گزارناچاہتے ہیں۔ حافظ الاسد جو بشارالاسد کے والد تھے انہوں نے اسرائیل سے بدترین شکست کھائی اوراخوان المسلمون کی کثیرالآبادی بستیوں کی بستیوں پرہوائی جہازوں سے بمباری کراکے انہیں صفحہ ہستی سے نیست ونابود کردیا۔ موجودہ صدر نے بڑے میاں بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اﷲ کے مصداق اپنے باپ اور داداسے بھی چارہاتھ آگے نکل گئے اور اپنی ہی ملک کے ہستے بستے شہروں کو دشمنوں کے ساتھ مل کر مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔
بشارالاسدکے ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے شام کے شہر کے شہر اپنے باسیوں سے خالی ہوتے چلے جارہے ہیں اور علاقے کی بڑی بڑی ہجرتیں وقوع پذیر ہیں۔ لاکھوں کے حساب سے لوگ اپنا گھربارچھوڑ کر پڑوسی ملکوں میں اور مہاجرین کے کیمپو ں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ شامی عوام اب اپنی سیکولرقیادت سے مکمل مایوس ہو چکے ہیں اور حالات کی بہتری کی کوئی صورت دوردورتک نظر نہیں آرہی۔ شامی عوام کی یہ مایوسیاں انہیں دھکیل دھکیل کریورپی ملکوں کی طرف لے جا رہی ہیں۔ قانونی اور غیرقانونی طور پرجیسے کیسے بھی یہ شام کے شہری چاہتے ہیں کہ اپنا وطن کوخیرآبادکہ کر توکسی بھی طرح یورپ کی سرزمین کی طرف سدھار جائیں۔ شام سے یورپ جاتے ہوئے سب سے پہلا یورپی ملک ترکی ہے، پس ترکی اس وقت شامی مہاجرین سے کھچاکھچ بھراجاچکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی قریب کے عرب ممالک میں بھی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے اور ملک شام کی سرحدوں پر شامی مہاجرین جس المناک صورت حال کا شکار ہیں وہ ایک سنجیدہ اور فوری حل طلب انسانی مسئلہ ہے۔ شامی مہاجرین کی ہجرت کے دوران کی بعض ایسی تصاویربھی منظرعام پر آئیں کہ انسانیت دہل کر رہ گئی۔ خاص طور غیرقانونی شامی تارکین وطن کواس سیکولررویے نے جس طرح سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کیا اورشامی خاندان جس طرح اپنی خواتین اور بچوں سے بچھڑکرلٹ پٹ گئے اورساحلوں پر ان کی بے گوروکفن لاوارث لاشوں کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرکے دنیاکے اخبارات میں شائع کیا، وہ واقعی حددرجہ جاںں گسل مناظر تھے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے ان مناظر کی اشاعت کے بعدعالم انسانیت کے بام د و در سے توکہیں کہیں صدائے رحم بلند ہوئی لیکن شام کی مقامی سیکولر ظالم قیادت تب بھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔
مئی 2016تک اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین(UNHCR)نے ساڑھے چارملین سے زائد مہاجرین کا اندراج کیاہے، جب کہ ایک بہت بڑی تعداد نے ہنوزاپنے آپ کا اندراج نہیں کرایا۔ ان میں سے ساڑھے بارہ لاکھ شامی تو صرف اردن میں پناہ گزیں ہیں، گیارہ لاکھ کے قریب لبنان میں قیام پذیر ہیں، سوا لاکھ کے لگ بھگ مصر میں ہیں اورڈھائی لاکھ کے قریب عراق میں موجود ہیں اور اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔ سب سے زیادہ تعداد ترکی میں ہے جوایک اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ سے متجاوزہے۔ مہاجرین کی اکثریت ترکی میں اس لیے مقیم ہے کہ یہاں سے یورپ جانا آسان ہے۔ قانونی یا غیرقانونی طریقے ہوں، ہوائی جہاز، بحری جہاز یا براستہ سڑک، جیسے بھی ہوا، سیکولرازم کے شکار یہ انسان ہرحال میں یورپ پہنچنا چاہتے ہیں اوربہت بڑی کسمپرسی کا شکار ہیں اور کیمپوں میں اور راستوں میں بنیادی انسانی معیارسے کہیں گرے ہوئے حالات کا شکار ہیں۔ مہاجرین کی زیادہ تر تعداد گزشتہ چار ماہ میں شام سے برآمد ہوئی ہے جس کی وجہ شام میں حالیہ روسی جہازوں کی انسانی آبادیوں پر بمباریاں ہیں اور اس تباہ کن بمباری کو شام کے سیکولرحکمرانوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روسی بمباری کے بعد کے مہاجرین کی تعداد تین لاکھ سے متجاوز ہے۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق سیکولرصدربشارالاسد نے مہاجرین کے انخلاء پر خوشی کااظہار کیاہے اور کہا ہے کہ آبادی کم ہونے سے ملکی معیشیت مستحکم ہو گی، ہزاربارلعنت ہو اس قماش کے حکمرانوں پرجواپنی عوام کوہی تہہ تیغ کر کے خوش ہوتے ہوں۔
عرب ممالک میں موجود شامی مہاجرین کے کیمپوں میں اقوم متحدہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق مہاجرین کو طبی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن لبنان سمیت عرب ممالک میں بغیر رشوت لیے دوائیاں فراہم نہیں کی جارہیں، لبنانی حکومت نے شامی مہاجر بچوں کو تعلیمی سہولیات دینے سے بھی عملاََ انکار کیے رکھا ہے اور اب تک بمشکل 30%بچوں کے لیے ہی تعلیمی رہنمائی کاانتظام کیاجا سکا ہے جو کہ اقوام متحدہ کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مہاجرکارڈ کاحصول بھی انتہائی مشکل اور طریقہ کار کو بہت پیچیدہ بنادیاگیاہے جس کے باعث اکثر لوگ یہ کارڈ حاصل نہیں کرپاتے اور انہیں چالیس دنوں کے لیے قیدخانوں میں دھکیل دیا جاتاہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان مہاجرین کو لبنانی ملیشیا اور حزب اﷲ کی طرف سے بھی مسلسل دھمکیاں ملتی رہیے ہیں کہ انہیں واپس شام میں دھکیل دیا جائے گا۔ مصرمیں صدرمرسی کے عرصہ اقتدارمیں شامی مہاجرین کے ساتھ کچھ بہتر سلوک ہوتا تھا لیکن غاصب فوجی حکومت کے دوران ان مہاجرین کے ساتھ اسی طرح بدسلوکی ہو رہی ہے جس طرح لبنان میں جاری ہے، کم و بیش یہی حال کردستان اور دیگرعرب ممالک میں ہے۔ اس کے برعکس ترکی نے اس معاملے میں وسعت قلبی کامظاہرہ کیاہے۔ اس کی واضع اور صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ ترکی اس وقت اسلام پسند حکمرانوں کے زیراثر ہے اور ان حکمرانوں کے سینے میں انسانیت جاگزیں ہے پس وہ ان مہاجرین کا مہمانوں کی طرح استقبال کررہے ہیں۔ ترکی میں مہاجرین کے لیے طبی سہولیات بہت عمدہ ہیں، تعلیمی سہولیات میں زبان کی عدم مطابقت بہت بڑی رکاوٹ ہے لیکن پھر بھی ایک تہائی بچوں کے لیے ترکی حکومت نے تعلیم کا انتظام بھی کررکھا ہے۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ترکی نے ان مہاجرین کے لیے روزگار کے مواقع بھی فراہم کررکھے ہیں۔ سلام ہو ترکی کی عوام کو جنہوں نے بالغ نظری کاثبوت دیتے ہوئے اپنے ملک سے سیکولر حکمرانوں کا بستر گول کیا اور اسلام پسند حکمرانوں کو اقتدارکا موقع فراہم کیا۔ شام سے یہ ہجرت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ شام سمیت کل مشرق وسطی کے حالات سنبھل نہیں جاتے اور حالات تب ہی بہترہوں گے جب مسلمانوں کے اوپر مسلمان قیادت آئے گی۔
مسلمانوں پر جہاں بھی سیکولر حکمران مسلط ہیں انہوں نے دشمن کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں۔ خود وطن عزیز میں ایک سیکولرفوجی حکمران کی کارستانیاں آج تک پوری قوم بھگت رہی ہے جس نے دشمن کی خوشی کے لیے اپنوں کے گلے کاٹے، بنگلہ دیش میں سیکولر حکمرانوں نے اپنے ہم عقیدہ سیکولر بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بزرگ علماء کوپھانسیوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے، صدام حسین کی سیکولرفوج کی طرف بھی ایک گولی بھی امریکیوں پر نہ چل پائی اور نہ ہی پورے عرب کی سب سے بڑی عراقی فضائیہ کاایک طیارہ ہی کسی ہوائی اڈے سے اڑ ان بھر پایا لیکن عراق آج بھی اس سیکولرحکمران کی لگائی آگ میں جل رہا ہے، مصر کے سیکولرفوجی حکمران نے منتخب قیادت کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا اور رمضان جیسے مہینے میں باجماعت نمازپڑھنے والوں پر ٹینک چڑھا دیے اور اسلام پسندوں کو سینکڑوں کی تعدادمیں پھانسیاں سنائی جا رہی ہیں اورفلسطین میں سیکولرقیادت نے فلسطینیوں کا بیڑاغرق کررکھا تھا یہاں تک کہ اسلام پسند حماس والے آئے تو اسرائیل کو کچھ مشکل وقت محسوس ہوئی۔ سیکولرازم پوری انسانیت پر بالعموم اور امت مسلمہ پر بالخصوص قہر بن کر ٹوٹ رہا ہے، لیکن خون صد ہزارانجم سے ہوتی ہے سحر پیدا، ہجرت اور شہادتوں کایہ تسلسل ضرور رنگ لائے گا اور امت مسلمہ کی قیادت سے دورغلامی کے یہ منحوس سائے دفعان ہوں گے۔ اس وقت پوری امت ایک طرف ہے اور سیکولر قیادت اس کے برعکس ہے۔ استعمارکی فوجی طاقتوں نے اس سیکولر حکمرانوں کو مصنوعی تحفظ دے رکھا ہے، بس اب دنوں دنوں کی بات ہے کہ طاغوت کے پاؤں اکھڑنے کو ہیں اور امت مسلمہ پرمسلط یہ سیکولر حکمران اپنے بدترین انجام سے دوچارہوکر تاریخ میں عبرت کا نشان بن جائیں گے،ان شاء اﷲ تعالی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔