آناََ فاناََ مشہور تجزیہ کار بننے کے مجرب نسخے

مضمون کا عنوان دیکھتے ہی آپ نے اسے خشُوع وخضُوع سے پڑھنا شُروع کر دیا ہے تو یہ بالکل درست سمت میں اٹھایا گیا ایک عملی قدم ہے۔ عزت و شہرت وغیرہ پدرمِ سُلطان بود وں کی ذاتی جاگیر تھوڑی ہے! آئینِ پاکستان کی کسی نہ کسی دفعہ کے تحت جنابِ والا کسی بھی عظیم شخصیت کے مساوی حقوقِ مشہوری رکھتے ہی ہوں گے ۔ وہ تو سٹھیائے ہوئے بلکہ سترے بہتّرے وہمی مزاج بُوڑھوں پرمشتمل سرکاری نوکری کمیشن کا غیر عادلانہ بلکہ غیر آئینی فیصلہ تھا جس کے تحت آپ جیسی انگریزی کم بی اے پاس شخصیت کو اسسٹنٹ کمشنر تو کُجا نائب تحصیل دار تک کی نوکری کا بھی اہل نہ سمجھا گیا تھا اور نوکریوں کی بندر بانٹ فرفر انگریزی بولتوں لکھتوں میں کر کے جناب جیسے قومی زبان کے محافظ کےساتھ نوکریانہ انصاف کا خون کیا گیا۔ نوکری کمیشن کی غلامانہ ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت تو یہ ہے کہ فرنگی سامراج کی یادگار زبان کودیس نکالا دینے کی بجائے انگریزی میں لمبے لمبے پرچے حل کرنے کامضحکہ خیز مطالبہ ان محبانِ وطن گریجوایٹس سے کیا گیا جنھوں نے گوری چمڑی والوں کے مقابل خودی کو بلند کرنے کی خاطر مبلغ تین دفعہ انگریزی کے پرچے میں کمپارٹمنٹ لی اور بالآخر ایک "انٹرنیشنل” یونیورسٹی سے” بی اے بغیر انگریزی” کی ڈگری حاصل کر لی۔ یوں بھی بھلا نائب تحصیل دار بن کر کتنی ایک انگریزی بولنے لکھنے کی ضرورت ہوتی جہاں قابل آفیسر کا معیار ہی یہ ہو کہ کون کتنے فحش لطیفے سنا سکتا ہے اور ماتحتوں کو کتنی کھری کھری بلکہ موٹی موٹی سُنا سکتا ہے۔

نوکری کمیشن والوں سے جو اقرباء پروری ہو سکی انھوں نے کر لی۔ مگر دربانی صاحب جیسے باہمت اور ستاروں کے علاوہ کئی قسم کےامتیازوں بلکہ نقدیوں پر کمند ڈالنےوالے سینئر تجزیہ کار کے عزم وحوصلے کی داد دینی پڑے گی ۔ پچھلے دنوں ہم نے اُن کا بلا شرکتِ غیرے قسم کا انٹرویو کیا اور اُن کی "پیشہ ورانہ” کامیابیوں بابت جاننے کی کوشش کی۔ جو کچھ نسخہ جاتِ مشہوری ہمارے ہاتھ لگے بغیر اپنی طرف سے کچھ بھی کمی بیشی کئے "تعلیم یافتہ امیدواروں” کیلئے عرض کئے دیتے ہیں ۔ تو میرے محترم سب سے پہلے تو مُلاؤں کی مسلّط کردہ شرم و حیا کو اتار پھینکئے ۔ آنکھوں میں خوب بے حیائی المعروف خود اعتمادی پیدا کیجئے۔ بچّہ داڑھی مطلب فرنچ کٹ یا مکھّی مونچھ رکھئے یا صفا چٹ کرڈالئے ، کوئی پابندی نہیں۔ چاہے تو لمبی لمبی آزاد خیال قلمیں رکھ لیجئے۔ یوں بھی "داڑھی اسلام میں ہے اسلام داڑھی میں نہیں”۔ آپ صرف پچیس چھبیس سال کے ہیں ، کوئی بات نہیں۔ نصف صدی یا زیادہ عرصے سے علم و ادب کے میدان کی مشہور شخصیات میں سے چند بڑوں کو اپنا تِیس سال پرانا دوست قرار دیجئے۔ مشہوری کیلئے کسی لمبی چوڑی تعلیم و تربیت کی چنداں ضرورت نہیں، لہٰذا گئے وقتوں کے قنوطیوں کی طرح باقاعدہ تعلیم از قسم پی ایچ ڈی وغیرہ کرنے کیلئے میونخ، کیمبرج یا آکسفورڈ تشریف لے جانے کےطویل المدتی منصوبے مت بنائیے۔ آناََ فاناََ ہِیرو ٹیکنالوجی آزمائیے۔

اِس فضول بحث میں الجھے بغیر کہ آخرِ کار ہندو مُسلم اتحاد کے سفیر محمّد علی جناح نے انڈین نیشنل کانگریس جیسی "وسیع البنیاد” سیاسی جماعت کی ممبر شپ کو خیر آباد کہہ کر آل انڈیا مسلم لیگ جیسی "بنیاد پرست "جماعت میں کیونکر شمولیت اختیار کر لی تھی، قائدِ اعظم کو لادین قسم کا سیاسی لیڈر قرار دیجئے ۔ سرسیّد اور اقبال کے دو قومی نظریہ کی بابت مباحث کو گول کر جائیے ۔ آئین میں قرادادِمقاصد اور دیگر "آمرانہ ” نوعیّت کی اسلامی ترمیمات کو شدّت پسندی اور فساد فی الارض کی وجہ بتائیے ۔ سفید بالوں والے سینئر سیاستدانوں کو اپنے تبصروں تجزیوں اور کالموں میں خوب رگیدئیےبلکہ اُن کے واہیات کارٹون بنایئے ۔ کبھی کبھی جب ان میں سے کسی کے ساتھ کسی نشئی قسم کے بھانجے بھتیجے کی نوکری کے حصول کا مطلب در پیش ہو تو بلاجھجک اڑسٹھ سالہ سیاستدان کی خُوبیاں بیان کرتے ہوئے لکھئے کہ اُن کا اور آپ کا تعلّق” نصف صدی کا قِصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں” بلکہ ستر کی دھائی کے آخر میں انھوں نے فلاں معاملے میں بھی آپ کی دانشورانہ راہنمائی سے ہی کامیاب سیاسی فیصلہ کیا تھا۔ خود آپ کی پیدائش بیشک اسّی کی دھائی میں ہوئی ہو، کیا فرق پڑتا ہے اور کسے معلوم! عمومی طور پر البتّہ سیاسی حکومتوں کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے اقدامات پر ہزاروں تنقیدی تبصرےاور ادارئیے لکھ مارئیے تاکہ اچھائی کا پتہ چلے نہ برائی کا ، اور عوام الناس کنفیوژن کا شکار ہو کر ہر شب آپ کے اگلے ٹی وی شو یاہر صبح آپ کے تازہ کالم کے منتظر رہیں اور آپ ہی کو حقیقی مسیحا مان لیں۔ درمیان درمیان میں کسی روز سابق فوجی حکمرانوں اور لازماََسابق پی سی او ججوں کی بابت بھی بڑھا چڑھا کر بہتان تراشی کیجئے اور اُن کی معمولی بشری غلطیوں کو بھی جنگی جرائم کہیئے۔ حاضر سروس اکابرین کی بابت مگر زبان درازی ان کی ریٹائرمنٹ کے دس سال بعد تک روک رکھئیے وگرنہ مولانا حسرت موہانی کی "ہے مشقِ سخن جاری چکّی کی مشقّت بھی” کی تفسیر بننے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔

آپ نے دین کا علم حاصل نہیں کیا، کوئی بات نہیں۔ کھاتے پیتے گھرانوں کے نونہالوں کو کمپیوٹرائزڈ گلوبل ولیج والے جدید علوم سےہی فرصت کہاں! دین پر مولویوں کی اجارہ داری بابت مگرکہاں لکھا ہے؟ آپ ماشااللہ اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں۔ پورے دھڑّلے سے توہینِ رسالت اور حدود آرڈینینس جیسے”آمرانہ” قوانین کی مختلف شِقوں پر کسی مفتیِ اعظم کی طرح بےباک المعروف بولڈ تنقیدی تبصرے کیجئے۔ نام نہاد اکثریت بھلے خود کُشیاں کرتی پھرے، آپ وطنِ عزیز میں اقلیّتوں کی زبوں حالی بابت بڑے بڑے سیمینار منعقد فرمائیے اوراس کارکردگی کی بنیاد پر عالمی امن و سلامتی کے "ذمہ دار” ممالک کے ویزے حاصل کیجئے اگر حصولِ ویزہ میں تھوڑی بہت مشکل درپیش ہو تو مذہب کے خانے میں اندراج کرتے ہوئے وقتی طور پر "بولڈ” فیصلہ کر لیجئے ۔ وگرنہ کسی نیم مُلّا خطرہء ایمان کے سامنے شعائرِاسلام کا” زندہ دلانہ” مذاق اڑا کر رُوبرو کیمرہ اُس سے کوئی تھپڑ گھونسہ کھا لیجئے اور کیمرہ ٹرِک سےصو تی اثرات ڈال کر رپورٹ بنا کر آن ائر کر دیجئے! ویزے ہی ویزے! جہاں دِل کرے تشریف لے جائیے اور تنگ نظر دہشت گرد معاشرے سے دُور خوابوں کے جزیروں میں جا بسئے۔ڈھیروں ایوارڈ اور گٹھڑیوں ڈالرز مِلنے کے روشن امکانات علاوہ از ویزا جات ہوں گے۔رویتِ ہلال کی بابت بزرگ علمائے کرام کے شرعی اختلاف کو ہرانتیسویں رمضان کو خوب اچھال اچھال کر بیان کیجیئے کہ ایک روزہ توکم ہو۔ زمین کے کسی حصے میں ہونے والی دہشت گردی کا کھُرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسے اہلِ محلّہ کی فی سبیل اللہ امداد پر چلنے والے مدرسے کے کسی رضا کار معلّم تک لازماََ پہنچائیے مگر انتہائی پسندیدہ پڑوسی ملک اور امن کے عالمی ذمہ دار وں کا نام مت لیجیئے کہ ایسا کہنا خود آپ کو بھی مشتبہ کالعدموں کی فہرست میں پہنچا سکتا ہے۔ کم سِن بچوں سے درندگی کے واقعات کی علمِ بیالوجی کی روشنی میں ڈاکٹری تحقیق کر کے عوام الناس کیلئے ریلیز کیجیئے تاکہ میڈیا کی آزادی کُچھ دِکھے تو ! دہشت گردی کی واردات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک ایک فقرے دو دو سو مرتبہ” بریک” کیجیئے۔ بیچ بیچ میں پہلےسے ریکارڈ کردہ دھماکوں کی آوازیں ضرور سنوایئے۔ لیجیئے، آپ کی ناموری کے چانس نناوے فیصد روشن ہیں۔ بس ذرہ بنیاد پرستوں سے نظر بچا کے!

تبصرے بند ہیں۔