بلوچستان میں کرپشن نہیں ڈاکہ

چند دن پہلے بلوچستان کے سیکر ٹیری خزانہ مشتاق ریئسانی کے گھر پر نیپ نے چھاپا مارا۔ گھر سے سوٹ کیسوں ، بیگوں، الماریوں اور خفیہ جہگوں سے 73؍ کروڑ مالیت کی ملکی غیر ملکی کرنسی نوٹ بر آمد ہوئی۔ نوٹوں کی گنتی کے لیے مشینیں منگوانی پڑیں۔ 12؍ گھنٹے میں نوٹوں کی گنتی مکمل ہوئی۔ پرائز بانڈ اور سیونگ سر ٹیفکیٹس 1یک کروڑ مالیت کے تھے۔ چھاپے کے دوران 4؍ کروڑ روپے مالیت کا سونا بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ کیونکہ یہ کرپشن کا پیسا تھا اس کو بنکوں میں نہیں رکھا کیا اور اس ہنڈی یا لانچوں کے ذریعے بیرون منتقل کرنے کا پروگرام تھا کہ اچانک پکڑے گئے۔ چیئرمین نیپ نے ہدایات دیں ہیں کہ پورے نیٹ ورک کا پتا چلایا جائے۔ پرنٹ میڈیا اور اخبارات نے خبر لگائی کہ بلوچستان میں 73؍ کروڑ روپے کی کرپشن نیپ نے پکڑی ہے۔ صاحبو! یہ کرپشن نہیں ہے یہ بلوچستان کے مصیبت زدہ عوام کی کمائی پر ڈاکہ ہے۔ ایک ڈاکو کو تو فوراً گرفتار کر لیا گیا ۔اب اس کی نشان دہی پر سابق پبلک سروس کمیشن اشرف مگسی، ایکسین خالق آباد اور سب انجیئنر سی این ڈبلیوطارق علی سمیت 3 ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ معلوم ہوا دو بیٹوں اور ایک دوست کو گریڈ 17؍ کی اسامیوں پر تعینات کرنے کا الزام ہے۔ سابق سیکریٹری خزانہ کے کہنے پر کراچی ڈیفنس میں نیپ نے کاروائی کرتے ہوئے ریئسانی کے ساتھی سہیل مجید شاہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے قبضے سے اہم دستاویزات ملی ہیں جو تحقیقات میں معاون ثابت ہوں گی۔ سہیل مجید نے بیان دیا ہے کہ 26 ؍کروڑ میرا حصہ تھا۔ سیاسی سفارش پر ٹھیکا حاصل کیا تھا۔ ڈیڑھ ارب کے منصوبے سے 4؍ حصے کیے گئے۔ نیپ بلوچستان ٹیم نے کچھ میونسپل کمیٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا اور ریکارڈ کو قبضہ میں لے لیا ہے۔اس میں 2013ء سے 2015ء تک کے تمام ترقیاتی فنڈ کی فائلیں اپنے قبضے میں لے لیں ہیں۔ مشاق ریئسانی نے دوران تفتیش بعض اہم ساتھیوں کے نام بھی بتا دیے ہیں جو کرپشن میں اس کے معاون تھے۔ مشاق ریئسانی نے انکشاف کیا کہ ترقیاتی اسکیموں کا کمیشن اعلیٰ حکام کو بھی بھجواتا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ اور مشیر خزانہ سے تحقیقات شروع ہو گئیں۔ 35؍ موجودہ سابق وزارا و بیروکریٹس کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ اس دوران سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدلمالک بلوچ نے کہا ہے کہ میں کرپشن سے لا علم تھا میں اس پر شرمندہ ہوں۔ میں خود کو احتساب کے لیے ہیش کرتا ہوں۔ مشیرخزانہ نے اپنے عہدہ سے استفٰا دے دیا لیکن اب لاپتہ ہے۔ سینیٹر اور کرپشن سے پاک جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق جو کئی ماہ سے ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ مہم چلائے ہوئے ہیں، نے کہا ہے کہ مشاق ریئسانی کے گھرسے کرپشن کے کروڑوں روپے ملنا لوٹ گھسوٹ کی دیگ کا ایک چاول ہے۔ جہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جہاں تو ایک کروڑ کے پروجیکٹ میں 60؍لاکھ روپے لوٹ مار کی نذر ہو جاتے ہیں۔ چھوٹی مچھلیوں کو پکڑنے اور مگر مچھوں کو چھوڑنے سے احتساب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ شاید ان کا اشارہ وزیر اعظم صاحب کی طرف تھا۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم کی من پسند ٹی او آر ہمیں قبول نہیں۔ حکومت کرپشن کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سیاست دانوں اور بیروکریٹس کی کرپشن سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ کرپشن کرنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے جائیں تاکہ ملک سے کرپشن ختم ہو۔ ان خیالات کا اظہار بلوچستان کے دو روزہ دورے جس میں کرپشن فری کیمپ و دستخطی مہم جاری ہے کے دوران کیا۔ صاحبو!مشتاق ریئسانی کے گھر سے ڈاکے کے روپوں کا یہ پہلا موقعہ نہیں۔ اس سے قبل سندھ میں جاری کرپشن کے خلاف رینجرز کی مہم کے دوران سندھ کے ایک وزیر کی طرف سے کے دبئی بھیجے ہوئے کرپشن کے روپے کی ایک پوری لانچ پکڑی گئی تھی جواب بھی رینجرز کی تحویل میں ہے۔ اس سے بھی پہلے سندھ کے ایک اور سیاستدان کے گھر کے تہہ خانے میں جلے ہوئے ڈالر کے بھی قصے میڈیا میں آئے تھے۔ اس لیے سراج الحق صاحب کہنا صحیح ہے ملک کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں کرپشن میں مشہور ہو گیا ہے اب تو امریکا جوہمیشہ پاکستان کو امداد دیتا ہے کے سیاست دانوں نے کہا ہے کہ ایف سولہ کے حوالے سے جو رقم امریکا نے ایف سولہ بنانے والی کمپنی کو پاکستان کے لیے ادا کرنی ہے نہیں دیں گے۔ کیا اوبامہ حکومت امریکا کے عوام کے ٹیکس کے روپے ایک کرپٹ ملک کو دے گا؟ صاحبو! اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ جو سیاست دانوں ملک کو چلانا کی قسم کھاتے ہیں وہ ملک کو لوٹنے میں مصرف رہتے ہیں۔ سیاست کو ایک نفع بخش کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ الیکشن لڑنے کے لیے ایک لاکھ لگائے اورجیتنے کی صورت میں کروڑوں کی کرپشن کرو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کے لیے اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے ایک فیکٹری کے ماک تھے۔ اقتدار میں رہ کر 28؍ فیکٹریاں بنا لی گئیں۔ ملک سے باہر پیسا بھیج دیا ۔ آف شور کمپنیاں بنائیں گئیں۔ لندن میں مہنگے فلیٹ خریدے گئے۔ سیاست دانوں کی بڑی تعداد جو پارلیمنٹ کے ممبر ہیں انکم ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے۔ بس عوام کا خون چوستے ہیں۔ پورے ملک کے بیروکریٹس کا مسئلہ ایسا ہے کہ ہر ترقیاتی اسکیم میں ان کا ایک پرسنٹیج طے ہوتا ہے جو سب مل کر بانٹتے ہیں۔ ملک کی بہتری کے کوئی منصوبہ نہیں لگنے دیتے کیونکہ سیاست دانوں کی ٹرم پانچ سال بعد ختم ہوتی ہے اور وہ ان کو مشورہ دیتے ہیں کارخانہ لگاؤ گے تو تمھارا ٹرن ہی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے غیر ممالک سے امپورٹ کرو اس سے آپ کو کمیشن ملے گا جس میں سے بیروکرریٹس اپنا حصہ بھی نکال لیتے ہیں اور ملک کی ترقی رکی رہتی ہے اور سیاسات دانوں اور بیروکریٹس کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ملک کے عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ عوام غریب سے غریب تر ہوتی جارہی ہے اور سیاست دان اور بیروکیٹس امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے اثاثے باہر ملکوں میں ہیں۔ ان کے بچے باہر ملکوں میں پڑھ رہے ہیں ۔ان کا علاج باہر ملکوں میں ہوتا ہے۔ ان کے اخراجات شاہانہ ہیں۔ ان کی رہائش گائیں بہترین ہیں۔ عوام کو نہ صحت کی مناسب سہولت مہیا ہے نہ دوائیاں ملتیں ہیں۔ عوام کے بچے بغیر عمارتوں کے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بجلی نہیں ملتی آئے روز لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ ادھرنے مہنگاہی نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ایسے میں عوام کہاں جائیں ان سیاست دانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے عدلیہ اور فوج ہی طرف نظریں اُٹھ رہی ہیں لہٰذا عدلیہ کو فوراً اس پر از خود نوٹس لے کر پانامہ کے مسئلے کو حل کرنا چاہے اور لوٹے ہوئے پیسے وصول کروا کر پاکستان کے خزانے میں داخل کرنے چاہیں اور کرپٹ افراد کو سزا دینی چاہئے تاکہ بلوچستان جیسے واقعات پھر نہ ہو سکیں۔ اللہ ہمارے کو ظالموں کی کرپشن بچائے آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔