سنگھ پریوار میں گاندھی پریوار

ڈاکٹر سلیم خان

للن بجرنگی نے کلن ترنگی سے کہا کہ یار تم لوگ کب ایک  پریوار کی غلامی سے نکلو گے؟

کلن بولا ہم نے ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا ہے۔  یہ  تم کس پریوار کی  بات کررہے ہو؟

مانا کہ تمہاری پارٹی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی لیکن ہندوستان تو سبھاش چندر بوس اور  بھگت سنگھ کے بلیدان سے آزاد ہوا۔

چلو مان لیا کہ سبھاش چندربوس اور بھگت سنگھ کی    کی قربانیوں   سے آزاد ہوا لیکن ان کا تعلق سنگھ پریوار سے تو نہیں تھا۔

نہیں تھا تو کیا  ہوا؟ وہ کانگریسی بھی تو نہیں تھے۔

جی ہاں یہ بات درست ہے لیکن وہ سنگھ کی دشمنی میں  کانگریس سے  بھی زیادہ سخت  تھے۔

وہ کیوں ؟

اس لیے کہ  سنگھ پریوار انگریزوں کا درپردہ ساتھ دے رہا تھا۔

یہ کیسی بات کررہے ہو کلن؟ راشٹر  کی آن بان اور شان کے لیے اپنے پران (جان)  نچھاور کرنے والا سنگھ پریوار یہ کیسے کرسکتا ہے؟

اتہاس پڑھو بلکہ خود سوچو اس وقت ہندو مسلمان مل کر انگریز سے لڑ رہے تھے اور سنگھ ان کو آپس میں لڑا رہا تھا۔  یہ انگریزوں کی حمایت نہیں تو کیا ہے؟

للن سوچ میں پڑ گیا ! پھر بولا لیکن آزادی کے بعد سب گڑ بڑ ہوگیا۔

اچھا وہ کیا ہوا ؟ کلن نے سوال کیا

 تم لوگوں نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بجائے پنڈت نہرو کو پردھان منتری بنا دیا۔

ارے بھائی ولبھ بھائی پٹیل بھی تو کانگریسی ہی تھے۔  سنگھ کی بھلائی اسی میں تھی  کہ پٹیل پردھان منتری نہیں بنے۔

للن نے حیرت سے پوچھا۔  وہ کیسے؟

اچھا یہ بتاو کہ اگر پٹیل وزیراعظم بن جاتے تو پنڈت نہرو کو کون سا عہدہ ملتا ؟

گرہ منتری میرا مطلب ہے وزیرداخلہ کا۔

صحیح کہا تم  نے اور تمہیں  پتہ ہے کہ پٹیل نے گاندھی جی کے قتل کے بعد  آر ایس ایس پر پابندی لگا دی تھی اور ساورکر کو بھی ملزم بنایا تھا۔

جی ہاں معلوم ہے لیکن وہ پابندی اٹھ گئی اور ساورکر رہا ہوگئے۔

یہی تو میں کہہ رہا ہوں چونکہ پٹیل تمہارے ہمدرد تھے اس لیے یہ سب ہوگیا۔  نہرو ہوتے تو تم لوگوں کو دریا برد کرکے ساورکر کو پھانسی چڑھا دیتے۔

للن پھر چکرا گیا۔  اس نے کہا لیکن  یہ بتاو کہ گاندھی پر یوار میں ایسا کیا ہے جو تم لوگوں نے انہیں سر پر بیٹھا رکھا ہے؟

یہ سوال تو میں تم سے بھی کرسکتا ہوں۔

مجھ سے ! ہمارے یہاں کوئی پریوار واد نہیں ہے۔   ہم کسی کے اندھ بھکت  نہیں ہیں۔

مودی بھکتوں کے مکھ سے یہ شوبھا نہیں دیتاخیر یہ بتاو کہ تم لوگوں نے مینکا گاندھی کو اپنی پارٹی میں کیوں لے لیا ؟ وہ بھی تو گاندھی پریوار کا حصہ ہیں ؟

ارے بھائی وہ  تو بہو ہے۔

ویسے تو سونیا گاندھی بھی بیٹی نہیں بہو ہی ہے۔ ان پر تمہیں اعتراض کیوں ہے؟

وہ اٹلی کی رہنے والی ہیں۔

ہیں نہیں تھیں۔  مہابھارت میں کورو کی ماں گاندھاری قندھار کی شہری تھی اور  سیتا نیپال کی رہنے والی تھی ۔

ارے بھائی وہ  جہاں کی بھی تھیں لیکن ہندو تو تھیں نا؟

ویسےسونیا  بھی ہندو وں کی طرح پوجا پاٹ کرتی  ہیں اور مینکا گاندھی سکھ مت کی ماننے والی سردارنی ہیں۔

وہ ٹھیک ہے لیکن ہمارے یہاں مینکا گاندھی کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔

اچھا ؟ یہ بتاو کہ بی جے پی میں کوئی ایک  بھی ماں بیٹا یا باپ بیٹی ایسی ہے جنہیں بیک وقت   لوک سبھا کا ٹکٹ ملا ہو ؟

للن سوچ میں پڑ گیا۔  وہ بولا نہیں ہمارے یہاں جو لوگ بوڑھے ہوگئے ہم نے ان کے بچوں کو ٹکٹ دیا ہے۔

لیکن استثناء اگر ہے تو مینکا گاندھی اور ورون گاندھی۔   کیا تم بتا سکتے ہو کہ ان دونوں کے ساتھ یہ امتیازی معاملہ کیوں کیا گیا؟

یار دیکھو  اس سوال کا جواب تو امیت شاہ جی ہی دے سکتے ہیں۔ ہمیں کیا معلوم کہ کس کو کیوں ٹکٹ دیا گیا اور کس کا کیوں کاٹا گیا۔

لیکن مجھے معلوم ہے۔ ان دونوں کا تعلق اگر گاندھی پریوار سے نہیں ہوتا تو یہ بات  نہیں ہوتی۔ تم لوگ کب کا ان کی بھی  چھٹی کر چکے ہوتے۔

للن بھڑک کر بولا کہ کلن زبان کو لگام دو۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

یہی کہ گاندھی پریوار سے تمہارا سنگھ پریوار مرعوب ہے اور اس سے  ڈرتا ہے۔

یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟

 اب تم ہی دیکھ کو کیا تمہارے  پردھان منتری سے لے  ودوان سنتری تک ہر کوئی  دن رات انہیں   کو کوستا ہے؟  خود سوچو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

تبصرے بند ہیں۔