بچوں میں موبائل فون کے استعمال کے مضر اثرات
ایک سائنسی وسماجی مطالعہ
حکیم نازش احتشام اعظمی
معصوم بچے موبائل فون اور ٹیبلٹ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں ،جنہوں نے بولنا بھی شروع نہیں کیا ہوتا۔ لیکن ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں میں موبائل فون کے استعمال کی صحیح عمر کا تعین کرنا خود ان کے لیے بہت ضروری ہے۔بچوں کی نفسیات کے ایک ماہر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں موبائل اور ٹیبلٹ کا استعمال بچوں کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور وہ بہت سی ایسی جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں میں ٹھیک سے حصہ نہیں لے پاتے جو زندگی کے اس موقعے پر اْن کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ان میں تعلیم و تدریس سے لے کر کھیل کود تک متعدد سرگرمیاں شامل ہیں، جنہیں بچوں کی صحت اور سیکھنے کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ایک ماہرِ نفسیات خاتون ساینسداں کہتی ہیں کہ میرے نزدیک بچوں کے لیے موبائل فون اور ٹیبلٹ کا استعمال شروع کرنے کی صحیح عمر 14 سال ہے، لیکن اس کا انحصار بچوں کے طرزِ عمل اور مختلف چیزوں میں دلچسپی سے ہے۔یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب بچے نو بلوغت میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں اور فطری طور پر اپنے لیے زیادہ آزادی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس بات کا اظہار وہ اپنے رویے اور عادات میں تبدیلیوں کے ذریعے کرتے ہیں۔لہذا بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دینے سے قبل والدین کو لازمی احتیاط کے سلسلے میں معلومات ضرور حاصل کرنی چاہئے۔قابل ذکر ہے کہ موبائل فون کا مسلسل استعمال یوں تو ہر عمر کے افراد کے لیے خطرے کا باعث ہوتا ہے۔ مگر بچوں پر اس کے انتہائی مضراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب جنوبی کورین ماہرین نے بچوں میں مسلسل موبائل فون استعمال کرنے کا ایک ایسا نقصان بتا دیا ہے کہ آپ یقیناًاپنے بچوں کو فون سے دور رکھیں گے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’جو بچے بہت زیادہ موبائل فون استعمال کرتے ہیں، یا فون کو اپنی آنکھوں کے بہت قریب رکھتے ہیں، ان کی آنکھوں میں بھینگا پن آنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ کے کونم نیشنل یونیورسٹی ہسپتال (Chonnam National University Hospital)کے ماہرین نے 7سے 16سال کے 12لڑکوں پر اپنی تحقیق کی۔
ماہرین نے ان لڑکوں کو روزانہ 4سے 8گھنٹے تک فون استعمال کرنے اور فون کو اپنی آنکھوں سے 8سے12انچ کے فاصلے تک رکھنے کو کہا۔دو ماہ بعد ان میں سے 9لڑکوں میں بھینگے پن کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ماہرین نے اپنی تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا کہ مسلسل فون پر نظر رکھنے سے بچوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑنے لگتی ہیں اور بالآخر وہ بھینگے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔بعد ازاں ان بچوں کی موبائل فون کی عادت ختم کروائی گئی، جس سے ان کی بھینگے پن کی علامات بھی ختم ہو گئیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ صارفین کو مسلسل 30منٹ سے زیادہ موبائل فون کی سکرین پر نہیں دیکھنا چاہیے۔موبائل فون کوجہاں ایک نعمت سمجھا جاتا ہے، وہیں اس کے بہت سے نقصانات بھی اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بچوں اورعام لوگوں میں بھی موبائل کا زیادہ استعما فائدہ کم جبکہ بے شمار نقصانات سے دوچار کردیتا ہے۔ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ موبائل وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بنتا جا رہا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ ہم 14 یا15سال کی عمر کے بچوں کو موبائل فون دینا شروع کر دیں۔آج کل لوگ یہ سوچ کر کہ موبائل فون کی بدولت ان کا ان کے بچے سے رابطہ رہے گا ،کم عمری میں ہی موبائل فون ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں جو کہ سائنسی لحاظ سے نقصان کا با عث بنتا ہے۔ایسے کم عمر بچوں سے یا تو موبائل فون چور چھین لیتے ہیںیا پھر وہ خود ہی کہیں انجانے میں چھوڑ آتے ہیں۔ متعدد ایسی خبریں بھی سننے میں آئی ہیں کہ موبائل چوروں نے موبائل فون چوری کرنے کے چکر میں موبائل نہ ملنے پرقتل ہی کر ڈالا۔موبائل فون کے تعلق سے مذکورہ بالا تفصیلات پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موبائل فون کم عمری میں بچوں کو دینا بے وقوفی ہے۔زیر نظر مضمون میں ہم جدید ذرائع ابلاغ کی اس حسین پیش کش یعنی موبائل کے ہمارے نونہا لوں پر طبی نقطۂ نظر سے کس قدر سنگین تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایک سچا مومن اور مہذب ہندوستانی سماج کاحصہ ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے بچوں میں بڑھ رہے اخلا قی زوال پر غورنا ضروری ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ اینڈرائڈانقلاب کے حالیہ دور میں موبائل فون نے جب ہمارے پڑھے لکھے با شعو ر اور سنجیدہ طبقہ کو بھی اپنی تہذیب وتمدن کو فراموش کردیا ہے توسوچا جاسکتا ہے کہ بچوں میں موبائل فون کا چلن ان کی اخلاقی تربیت کی کس قدررکاوٹیں پیداکر سکتا ہے۔موبائل فون کے زیادہ استعمال نے انسان کی شرافت اور تمیز کو ختم کر دیا ہے، آج کل لوگ موبائل فون کی گھنٹیاں اور موسیقی کے استعمال کوخانہ کعبہ، مسجد نبوی، مساجد، خانقاہوں ،دیگرمذاہب کی عقیدت گاہوں،پوجا استھلوں اور پرسکون ماحول میں بھی ترک کرنا گوارا نہیں کرپا رہے ہیں، دنیا میں موبائل فون کے مضر اثرات لوگوں پر اس قدر حاوی ہو گئے ہیں کہ وہ مقدس مقامات پر آتے ہوئے بھی اپنے فون کی گھنٹی تک بندکرنا بھو ل جاتے ہیں، یہ صرف غفلت اورلا پرواہی ہی نہیں بلکہ مقدس مقامات کے تقدس کی پامالی بھی ہے، مساجد میں لوگ نماز کے اوقات میں باہر آکر فون سننے لگتے ہیں، اس فون نے ہماری زندگی کو اتنا متاثر کیا ہے کہ جب ہم خداسے ہم کلام ہوتے ہیں تب وہاں بھی موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگتی ہے ، مساجد میں بڑے بڑے نوٹس بورڈلگے ہونے کے با وجود لوگ موبائل فون بند نہیں کرتے، ہم جب خدا کے کلام سے لطف اندوز ہور ہے ہوتے ہیں اس وقت بھی موبائل فون کی گھنٹی تباہ کن کر دار ادا کررہی ہوتی ہے۔ اس چھوٹے سے آلے نے ہمارے خیالات، اظہار، معاملات، ذہن ، قلب اور سکون سب کو بدل ڈالا ہے۔ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ موبائل فون اور موبائل کمپنیز نے ہمیں کچھ ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل کسی چیز کا خیال نہیں رکھتی اور اپنے آپ کو دنیا سے کچھ الگ سا محسوس کراتی ہے۔موبائل فون کمپنیز کے متعارف کردہ میسج پیکج نے جہاں رابطوں کو فروغ دیا ہے وہاں ہماری نئی نسل کو رات بارہ بجے کے بعدایسے ہی مختلف قسم کے ایزی پیکجز نے تباہی میں مبتلا کر دیا ہے، رات بھر میسجز ہوتے رہتے ہیں اور اس کا سیدھا اثر ہماری نو جوان نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔
موبائل فون اتنی بری چیز نہیں ہے ،موبائل فون کا استعمال اسکو برا یا اچھا بنا تا ہے۔ اگر ہم موبائل فون کو صر ف ر ابطہ کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کریں تویہ ہمارے لیے مفید ہو گا۔اللہ بھلا کرے گراہم بیل کا جس نے ٹیلی فون ایجاد کیا ۔مگر اس نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جس ٹیلی فون کو وہ ایجاد کررہا ہے وہ آنے والے دور میں موبائل کی شکل میں لوگوں کی جیبوں میں ہوا کرے گا۔موبائل فون کے نقصانات کے علاوہ کچھ فائدے بھی ہیں، موبائل فون سے باآسانی چیٹنگ،وائس میل ،ای میل، بجلی کے بل ، کیش منتقلی اورڈیٹا کومحفوظ کیا جا سکتا ہے۔یہ امر بھی محل غور ہے کہ اس موبائل کے کچھ فوائد بھی ہیں،جس نے ہمیں بہت ساری دقتوں سے بچانے میں اپنا کردار خوب نبھایا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس لیے ٹیکنالوجی کے بغیر ہمار ی قوم ترقی بھی نہیں کر سکتی۔ ٹیکناکوجی کا استعمال کیا جائے۔ مگراس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ ٹیکناکوجی کا صحیح طریقہ سے استعمال ہو۔ اگر موبائل فون کو صرف ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے تویہ موبائل فون ہمارے لیے اچھا ثابت ہو گااوراس سے وقت کا ضیاع بھی نہیں ہو گا۔تازہ سائنسی خبروں کے مطابق یونیورسٹی آف ایلبنی اور یونیورسٹی پٹسبرگ کے کینسر کے شعبے کے سربراہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کی قائمہ کمیٹی کو موبائل فون کے نقصانات سے آگاہ کیاہے اور تجویز دی ہے کہ جس طرح سگریٹ نوشوں کو سگریٹ نوشی کے نقصانات سے خبردار کیا جاتا ہے، اسی طرح موبائل فون کے استعمال کرنے والوں کو بھی اس کے مضر اثرات سے خبردار کیا جانا چاہیے۔یونیورسٹی آف ایلبنی کے ڈائریکٹر ہیلتھ ڈیوڈ کارپنٹر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ موبا ئل فون کے استعمال پر مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے کینسر انسٹیوٹ کے ڈائریکٹر رونلڈ ہربرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ ایسی تمام ریسرچ جو یہ کہتی ہیں کہ موبائل فون کے استعمال کا دماغ میں رسولی پیدا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ بات در حقیت بہت پرانی ہو چکی ہیں۔انہوں نے کہا ایسی ریسرچ جو یہ کہتی ہے کہ موبائل کے استعما ل اور کینسر میں کوئی تعلق نہیں وہ ہفتے میں ایک بار موبائل کے استعمال کو ’کثرت استعمال‘ سے تعبیر کرتی ہیں، جبکہ موبائل فون کا استعمال انتہائی بڑھ چکا ہے۔سائنسدانوں نے کہا کہ وہ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ موبائل فون کا استعمال خطرناک ہے، لیکن وہ یہ بھی ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ موبائل فون کا استعمال بالکل محفوظ ہے۔ڈیوڈ کارپنٹر اور ڈاکٹر ہربرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ موبائل فون استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے ایک ایسا ماڈل بھی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقناطیسی شعاعیں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ میں کتنے دور تک گھس جاتی ہیں۔ڈاکٹر ہربرمین نے کہا کہ دنیا میں تین ارب لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر کارپنٹر نے کہا کہ اس وقت تک انسان کو موبائل فون کے مضر اثرات سے متعلق اتنی ہی معلومات ہیں جو تیس سال پہلے سگریٹ نوشی اور پھیپھڑوں کے کیسنرسے تعلق کے بارے میں تھیں۔کیمٹی کو یورپ اور خصوصاً سکینڈنیویا ممالک میں موبائل فون کے استعمال پر ہونے والی ریسرچ سے بھی آگاہ کیا گیا۔ موبائل فون کا استعمال سب سے پہلے ناروے اور سویڈن میں شروع ہوا۔ ان ممالک کی تحقیق کے مطابق موبائل فون سے نکلے والی شعاؤں کا انسان کی صحت سے رشتہ ضرور ہے۔سویڈن میں 2008 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موبائل کے کثرت استعمال سے کانوں کے قریب کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔اسی طرح رائل سوساٹی آف لندن نے ایک پیپر شائع کیا ہے، جس کے مطابق وہ بچے جو بیس سال کی عمر سے پہلے موبائل فون کا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کیسنر کے امکانات ان لوگوں سے پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں، جنہوں نے موبائل کا استعمال بچپن میں نہیں کیا۔
آئیے !اب ہم اختصار کے ساتھ اسمارٹ فونس کی شعاؤں کا سائنسی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔اسمارٹ فون کی اسکرین سے چمکدار نیلی روشنی خارج ہوتی ہے تاکہ آپ انہیں سورج کی تیز روشنی میں بھی دیکھ سکیں۔مگر رات میں یہ روشنی دماغ کو الجھن میں ڈال دیتی ہے کیونکہ یہ سورج جیسی چمک کی نقل ہوتی ہے۔اس کے نتیجے میں دماغ ایک ہارمون میلاٹونین کو بنانا چھوڑ دیتا ہے جو ہمارے جسم کو سونے کے وقت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، اس طرح اسمارٹ فون کی روشنی نیند کے چکر میں مداخلت کرتی ہے اور سونا مشکل تر ہوجاتا ہے۔اس کے نتیجے میں سنگین طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں چند ایک درج ذیل ہیں۔نیچر نیورو سائنسز، ہارورڈ یونیورسٹی اور دیگر جامعات و اداروں کی طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق اسمارٹ فونز سے خارج ہونے والی روشنی نیند کے شیڈول میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے جس سے اگلے دن کی یاداشت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اسمارٹ فونز کی روشنی کے باعث ایک رات کی نیند خراب ہونے سے اگلے دن طالبعلموں کے لیے اپنے اسباق یاد رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، جبکہ طویل المیعاد بنیادوں پر نیند پوری نہ ہونے سے اچھی نیند کا حصول لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے۔اسی طرح کچھ شواہد یہ بھی سامنے آئے ہیں کہ یہ روشنی پردہ چشم کو نقصان پہنچا کر بینائی کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، جبکہ اس حوالے سے تحقیق کی جارہی ہے کہ یہ روشنی کہیں آنکھوں میں موتیے کا سبب تو نہیں بنتی۔مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسمارٹ فونز کی روشنی خارج ہونے سے اگر میلاٹونین کی مقدار متاثر ہو تو نہ صرف ڈپریشن بلکہ موٹاپے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح رات کو اسمارٹ فون کی روشنی اور نیند متاثر ہونے سے مثانے کے کینسر میں مبتلا ہونے کے خطرے کا تعلق سامنے آیا ہے۔ موبائل فونز کے استعمال کا سب سے بڑا نقصان جسمانی بیماریوں میں اضافہ ہے۔ اس حوالے سے ماہرین طب بھی گاہے بگا ہے مختلف مشورے دیتے ہیں اورخطرات سے آگاہ کرتے آرہے ہیں۔ اگر ڈاکٹرز کے مشوروں پر عمل کیا جائے تو موبائل فونز کے بے جا استعمال کی وجہ سے ذہنی دباؤ، پریشانی، دل کی بیماریوں، سردرد، نظر کی کمزوری اور دوسری پوشیدہ بیماریاں سر نہ اٹھائیں۔ مختلف فری کالز اور فری ایس ایم ایس بنڈلز آفرز سے نوجواں نسل ساری ساری رات کالز اور ایس ایم ایس پر لگے رہتی ہیں جس کی وجہ سے نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ موبائل کے استعمال سے تعلیم پر گہرا اثر پڑتا ہے، موبائل کمپنیوں کی طرف سے صارفین کے لئے نت نئے اور دلکش لیکچرز کو دیکھ کر تو نہ چاہنے والا بھی موبائل فون کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہی ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کریں۔ مگر ان پیکجز سے ہماری نوجوان نسل پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پھر ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کثیر تعداد شعبہ تعلیم سے منسلک ہے۔ تعلیم کے لحاظ سے ان کیلئے موبائل کے استعمال سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ کالجز جہاں موبائل کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہیں پابندی نہیں ۔وہاں طلباء دوران لیکچر ایس ایم ایس یا گیم سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔
موبائل فون سے فحاشی اور عریانی میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ آج کل مختلف ملٹی نیشنل اور غیر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے نئے نئے سیل فونز کا تعارف کروایا جا رہا ہے ،جس میں ایک سے زائد سموں کے ساتھ ساتھ کیمرے۔ ایم پی تھری اور فور، انٹرنیٹ سمیت کتنی دوسری چیزیں شامل ہیں۔ جن کا موبائل فون سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مگر نوجوان طبقہ اس ضرورت کی چیز کو غیر ضرورت کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس میں ویڈیوز اور تصاویر بنا کر مطلوبہ افراد کو بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔یہ بات بھی ہمارے نونہالوں کے تعلق تشویش کا باعث ہے کہ موبائل فون کی فراوانی سے کرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ جس میں خاص طور پر اغوا برائے تاوان، راہزنی کی وارداتیں جب کہ موبائل فون چھیننے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ جن کی تعدادگننے میں نہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ موبائل کے طفیل بڑھنے والی جرائم کی وارداتوں میں ہمارے معاشرے نیم بالغ یا نوبالغ بچے زیادہ ملوث پائے جارہے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ موبائل چوری یااس سے متعلق اسکینڈل میں پکڑے جانے والوں میں17-18برس کی عمر کے بچے کی تعداد زیادہ ہے۔ اگرچہ اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کافی حد تک کام کرنا شروع کر دیا ہے، مگر کرائم و جرائم اور خودکشیوں کی بڑھتی وارداتوں میں موبائل فون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اس سے کہیں زیادہ سیکورٹی اداروں اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اداروں کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔
موبائل فون کے حوالے سے اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں کہ جن کو شمار کرنا ابھی باقی ہے۔ مگر یہ نقصانات ہیں جو کہ ہم معاشرے میں دیکھ اور جھیل رہے ہیں، ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدابیر اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کی اس چیز کو استعمال تو کریں مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ بچوں کو موبائل لے کر دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچے کو موبائل کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جا ئے کہ بچے موبائل کا استعمال کس طرح سے کر رہے ہیں؟ کس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟ بچوں کی غیر موجودگی میں ان کے موبائل کو دیکھیں کہ بچے موبائل فونز کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام نوجوان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے وقت کو موبائل کی فضول کالوں اور غیر اخلاقی حرکات سے ضائع نہ کریں۔
ماہرین نے ان لڑکوں کو روزانہ 4سے 8گھنٹے تک فون استعمال کرنے اور فون کو اپنی آنکھوں سے 8سے12انچ کے فاصلے تک رکھنے کو کہا۔دو ماہ بعد ان میں سے 9لڑکوں میں بھینگے پن کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ماہرین نے اپنی تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا کہ مسلسل فون پر نظر رکھنے سے بچوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑنے لگتی ہیں اور بالآخر وہ بھینگے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔بعد ازاں ان بچوں کی موبائل فون کی عادت ختم کروائی گئی، جس سے ان کی بھینگے پن کی علامات بھی ختم ہو گئیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ صارفین کو مسلسل 30منٹ سے زیادہ موبائل فون کی سکرین پر نہیں دیکھنا چاہیے۔موبائل فون کوجہاں ایک نعمت سمجھا جاتا ہے، وہیں اس کے بہت سے نقصانات بھی اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بچوں اورعام لوگوں میں بھی موبائل کا زیادہ استعما فائدہ کم جبکہ بے شمار نقصانات سے دوچار کردیتا ہے۔ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ موبائل وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت بنتا جا رہا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ ہم 14 یا15سال کی عمر کے بچوں کو موبائل فون دینا شروع کر دیں۔آج کل لوگ یہ سوچ کر کہ موبائل فون کی بدولت ان کا ان کے بچے سے رابطہ رہے گا ،کم عمری میں ہی موبائل فون ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں جو کہ سائنسی لحاظ سے نقصان کا با عث بنتا ہے۔ایسے کم عمر بچوں سے یا تو موبائل فون چور چھین لیتے ہیںیا پھر وہ خود ہی کہیں انجانے میں چھوڑ آتے ہیں۔ متعدد ایسی خبریں بھی سننے میں آئی ہیں کہ موبائل چوروں نے موبائل فون چوری کرنے کے چکر میں موبائل نہ ملنے پرقتل ہی کر ڈالا۔موبائل فون کے تعلق سے مذکورہ بالا تفصیلات پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موبائل فون کم عمری میں بچوں کو دینا بے وقوفی ہے۔زیر نظر مضمون میں ہم جدید ذرائع ابلاغ کی اس حسین پیش کش یعنی موبائل کے ہمارے نونہا لوں پر طبی نقطۂ نظر سے کس قدر سنگین تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ایک سچا مومن اور مہذب ہندوستانی سماج کاحصہ ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے بچوں میں بڑھ رہے اخلا قی زوال پر غورنا ضروری ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ اینڈرائڈانقلاب کے حالیہ دور میں موبائل فون نے جب ہمارے پڑھے لکھے با شعو ر اور سنجیدہ طبقہ کو بھی اپنی تہذیب وتمدن کو فراموش کردیا ہے توسوچا جاسکتا ہے کہ بچوں میں موبائل فون کا چلن ان کی اخلاقی تربیت کی کس قدررکاوٹیں پیداکر سکتا ہے۔موبائل فون کے زیادہ استعمال نے انسان کی شرافت اور تمیز کو ختم کر دیا ہے، آج کل لوگ موبائل فون کی گھنٹیاں اور موسیقی کے استعمال کوخانہ کعبہ، مسجد نبوی، مساجد، خانقاہوں ،دیگرمذاہب کی عقیدت گاہوں،پوجا استھلوں اور پرسکون ماحول میں بھی ترک کرنا گوارا نہیں کرپا رہے ہیں، دنیا میں موبائل فون کے مضر اثرات لوگوں پر اس قدر حاوی ہو گئے ہیں کہ وہ مقدس مقامات پر آتے ہوئے بھی اپنے فون کی گھنٹی تک بندکرنا بھو ل جاتے ہیں، یہ صرف غفلت اورلا پرواہی ہی نہیں بلکہ مقدس مقامات کے تقدس کی پامالی بھی ہے، مساجد میں لوگ نماز کے اوقات میں باہر آکر فون سننے لگتے ہیں، اس فون نے ہماری زندگی کو اتنا متاثر کیا ہے کہ جب ہم خداسے ہم کلام ہوتے ہیں تب وہاں بھی موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگتی ہے ، مساجد میں بڑے بڑے نوٹس بورڈلگے ہونے کے با وجود لوگ موبائل فون بند نہیں کرتے، ہم جب خدا کے کلام سے لطف اندوز ہور ہے ہوتے ہیں اس وقت بھی موبائل فون کی گھنٹی تباہ کن کر دار ادا کررہی ہوتی ہے۔ اس چھوٹے سے آلے نے ہمارے خیالات، اظہار، معاملات، ذہن ، قلب اور سکون سب کو بدل ڈالا ہے۔ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ موبائل فون اور موبائل کمپنیز نے ہمیں کچھ ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل کسی چیز کا خیال نہیں رکھتی اور اپنے آپ کو دنیا سے کچھ الگ سا محسوس کراتی ہے۔موبائل فون کمپنیز کے متعارف کردہ میسج پیکج نے جہاں رابطوں کو فروغ دیا ہے وہاں ہماری نئی نسل کو رات بارہ بجے کے بعدایسے ہی مختلف قسم کے ایزی پیکجز نے تباہی میں مبتلا کر دیا ہے، رات بھر میسجز ہوتے رہتے ہیں اور اس کا سیدھا اثر ہماری نو جوان نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔
موبائل فون اتنی بری چیز نہیں ہے ،موبائل فون کا استعمال اسکو برا یا اچھا بنا تا ہے۔ اگر ہم موبائل فون کو صر ف ر ابطہ کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کریں تویہ ہمارے لیے مفید ہو گا۔اللہ بھلا کرے گراہم بیل کا جس نے ٹیلی فون ایجاد کیا ۔مگر اس نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جس ٹیلی فون کو وہ ایجاد کررہا ہے وہ آنے والے دور میں موبائل کی شکل میں لوگوں کی جیبوں میں ہوا کرے گا۔موبائل فون کے نقصانات کے علاوہ کچھ فائدے بھی ہیں، موبائل فون سے باآسانی چیٹنگ،وائس میل ،ای میل، بجلی کے بل ، کیش منتقلی اورڈیٹا کومحفوظ کیا جا سکتا ہے۔یہ امر بھی محل غور ہے کہ اس موبائل کے کچھ فوائد بھی ہیں،جس نے ہمیں بہت ساری دقتوں سے بچانے میں اپنا کردار خوب نبھایا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس لیے ٹیکنالوجی کے بغیر ہمار ی قوم ترقی بھی نہیں کر سکتی۔ ٹیکناکوجی کا استعمال کیا جائے۔ مگراس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ ٹیکناکوجی کا صحیح طریقہ سے استعمال ہو۔ اگر موبائل فون کو صرف ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے تویہ موبائل فون ہمارے لیے اچھا ثابت ہو گااوراس سے وقت کا ضیاع بھی نہیں ہو گا۔تازہ سائنسی خبروں کے مطابق یونیورسٹی آف ایلبنی اور یونیورسٹی پٹسبرگ کے کینسر کے شعبے کے سربراہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کی قائمہ کمیٹی کو موبائل فون کے نقصانات سے آگاہ کیاہے اور تجویز دی ہے کہ جس طرح سگریٹ نوشوں کو سگریٹ نوشی کے نقصانات سے خبردار کیا جاتا ہے، اسی طرح موبائل فون کے استعمال کرنے والوں کو بھی اس کے مضر اثرات سے خبردار کیا جانا چاہیے۔یونیورسٹی آف ایلبنی کے ڈائریکٹر ہیلتھ ڈیوڈ کارپنٹر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ موبا ئل فون کے استعمال پر مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے کینسر انسٹیوٹ کے ڈائریکٹر رونلڈ ہربرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ ایسی تمام ریسرچ جو یہ کہتی ہیں کہ موبائل فون کے استعمال کا دماغ میں رسولی پیدا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ بات در حقیت بہت پرانی ہو چکی ہیں۔انہوں نے کہا ایسی ریسرچ جو یہ کہتی ہے کہ موبائل کے استعما ل اور کینسر میں کوئی تعلق نہیں وہ ہفتے میں ایک بار موبائل کے استعمال کو ’کثرت استعمال‘ سے تعبیر کرتی ہیں، جبکہ موبائل فون کا استعمال انتہائی بڑھ چکا ہے۔سائنسدانوں نے کہا کہ وہ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ موبائل فون کا استعمال خطرناک ہے، لیکن وہ یہ بھی ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ موبائل فون کا استعمال بالکل محفوظ ہے۔ڈیوڈ کارپنٹر اور ڈاکٹر ہربرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ موبائل فون استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے ایک ایسا ماڈل بھی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقناطیسی شعاعیں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ میں کتنے دور تک گھس جاتی ہیں۔ڈاکٹر ہربرمین نے کہا کہ دنیا میں تین ارب لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر کارپنٹر نے کہا کہ اس وقت تک انسان کو موبائل فون کے مضر اثرات سے متعلق اتنی ہی معلومات ہیں جو تیس سال پہلے سگریٹ نوشی اور پھیپھڑوں کے کیسنرسے تعلق کے بارے میں تھیں۔کیمٹی کو یورپ اور خصوصاً سکینڈنیویا ممالک میں موبائل فون کے استعمال پر ہونے والی ریسرچ سے بھی آگاہ کیا گیا۔ موبائل فون کا استعمال سب سے پہلے ناروے اور سویڈن میں شروع ہوا۔ ان ممالک کی تحقیق کے مطابق موبائل فون سے نکلے والی شعاؤں کا انسان کی صحت سے رشتہ ضرور ہے۔سویڈن میں 2008 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موبائل کے کثرت استعمال سے کانوں کے قریب کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔اسی طرح رائل سوساٹی آف لندن نے ایک پیپر شائع کیا ہے، جس کے مطابق وہ بچے جو بیس سال کی عمر سے پہلے موبائل فون کا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کیسنر کے امکانات ان لوگوں سے پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں، جنہوں نے موبائل کا استعمال بچپن میں نہیں کیا۔
آئیے !اب ہم اختصار کے ساتھ اسمارٹ فونس کی شعاؤں کا سائنسی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔اسمارٹ فون کی اسکرین سے چمکدار نیلی روشنی خارج ہوتی ہے تاکہ آپ انہیں سورج کی تیز روشنی میں بھی دیکھ سکیں۔مگر رات میں یہ روشنی دماغ کو الجھن میں ڈال دیتی ہے کیونکہ یہ سورج جیسی چمک کی نقل ہوتی ہے۔اس کے نتیجے میں دماغ ایک ہارمون میلاٹونین کو بنانا چھوڑ دیتا ہے جو ہمارے جسم کو سونے کے وقت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، اس طرح اسمارٹ فون کی روشنی نیند کے چکر میں مداخلت کرتی ہے اور سونا مشکل تر ہوجاتا ہے۔اس کے نتیجے میں سنگین طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں چند ایک درج ذیل ہیں۔نیچر نیورو سائنسز، ہارورڈ یونیورسٹی اور دیگر جامعات و اداروں کی طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق اسمارٹ فونز سے خارج ہونے والی روشنی نیند کے شیڈول میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے جس سے اگلے دن کی یاداشت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اسمارٹ فونز کی روشنی کے باعث ایک رات کی نیند خراب ہونے سے اگلے دن طالبعلموں کے لیے اپنے اسباق یاد رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، جبکہ طویل المیعاد بنیادوں پر نیند پوری نہ ہونے سے اچھی نیند کا حصول لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے۔اسی طرح کچھ شواہد یہ بھی سامنے آئے ہیں کہ یہ روشنی پردہ چشم کو نقصان پہنچا کر بینائی کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے، جبکہ اس حوالے سے تحقیق کی جارہی ہے کہ یہ روشنی کہیں آنکھوں میں موتیے کا سبب تو نہیں بنتی۔مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسمارٹ فونز کی روشنی خارج ہونے سے اگر میلاٹونین کی مقدار متاثر ہو تو نہ صرف ڈپریشن بلکہ موٹاپے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح رات کو اسمارٹ فون کی روشنی اور نیند متاثر ہونے سے مثانے کے کینسر میں مبتلا ہونے کے خطرے کا تعلق سامنے آیا ہے۔ موبائل فونز کے استعمال کا سب سے بڑا نقصان جسمانی بیماریوں میں اضافہ ہے۔ اس حوالے سے ماہرین طب بھی گاہے بگا ہے مختلف مشورے دیتے ہیں اورخطرات سے آگاہ کرتے آرہے ہیں۔ اگر ڈاکٹرز کے مشوروں پر عمل کیا جائے تو موبائل فونز کے بے جا استعمال کی وجہ سے ذہنی دباؤ، پریشانی، دل کی بیماریوں، سردرد، نظر کی کمزوری اور دوسری پوشیدہ بیماریاں سر نہ اٹھائیں۔ مختلف فری کالز اور فری ایس ایم ایس بنڈلز آفرز سے نوجواں نسل ساری ساری رات کالز اور ایس ایم ایس پر لگے رہتی ہیں جس کی وجہ سے نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ موبائل کے استعمال سے تعلیم پر گہرا اثر پڑتا ہے، موبائل کمپنیوں کی طرف سے صارفین کے لئے نت نئے اور دلکش لیکچرز کو دیکھ کر تو نہ چاہنے والا بھی موبائل فون کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہی ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کریں۔ مگر ان پیکجز سے ہماری نوجوان نسل پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پھر ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی کثیر تعداد شعبہ تعلیم سے منسلک ہے۔ تعلیم کے لحاظ سے ان کیلئے موبائل کے استعمال سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ کالجز جہاں موبائل کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہیں پابندی نہیں ۔وہاں طلباء دوران لیکچر ایس ایم ایس یا گیم سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔
موبائل فون سے فحاشی اور عریانی میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ آج کل مختلف ملٹی نیشنل اور غیر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے نئے نئے سیل فونز کا تعارف کروایا جا رہا ہے ،جس میں ایک سے زائد سموں کے ساتھ ساتھ کیمرے۔ ایم پی تھری اور فور، انٹرنیٹ سمیت کتنی دوسری چیزیں شامل ہیں۔ جن کا موبائل فون سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مگر نوجوان طبقہ اس ضرورت کی چیز کو غیر ضرورت کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس میں ویڈیوز اور تصاویر بنا کر مطلوبہ افراد کو بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔یہ بات بھی ہمارے نونہالوں کے تعلق تشویش کا باعث ہے کہ موبائل فون کی فراوانی سے کرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ جس میں خاص طور پر اغوا برائے تاوان، راہزنی کی وارداتیں جب کہ موبائل فون چھیننے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ جن کی تعدادگننے میں نہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ موبائل کے طفیل بڑھنے والی جرائم کی وارداتوں میں ہمارے معاشرے نیم بالغ یا نوبالغ بچے زیادہ ملوث پائے جارہے ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ موبائل چوری یااس سے متعلق اسکینڈل میں پکڑے جانے والوں میں17-18برس کی عمر کے بچے کی تعداد زیادہ ہے۔ اگرچہ اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کافی حد تک کام کرنا شروع کر دیا ہے، مگر کرائم و جرائم اور خودکشیوں کی بڑھتی وارداتوں میں موبائل فون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اس سے کہیں زیادہ سیکورٹی اداروں اور ٹیلی کمیونیکیشن کے اداروں کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔
موبائل فون کے حوالے سے اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں کہ جن کو شمار کرنا ابھی باقی ہے۔ مگر یہ نقصانات ہیں جو کہ ہم معاشرے میں دیکھ اور جھیل رہے ہیں، ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدابیر اور ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت کی اس چیز کو استعمال تو کریں مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جا سکے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری والدین کی ہے کہ وہ بچوں کو موبائل لے کر دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچے کو موبائل کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جا ئے کہ بچے موبائل کا استعمال کس طرح سے کر رہے ہیں؟ کس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟ بچوں کی غیر موجودگی میں ان کے موبائل کو دیکھیں کہ بچے موبائل فونز کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام نوجوان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے وقت کو موبائل کی فضول کالوں اور غیر اخلاقی حرکات سے ضائع نہ کریں۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)
تبصرے بند ہیں۔