مودی کے منصوبوں کے خلاف سرجیکل اسٹرائک

حفیظ نعمانی
ٹی وی کے ’’آج تک‘‘ چینل نے پیر سے ایک بہت اچھا پروگرام شروع کیا تھا جس میں جمعرات تک جو سامنے آیا اس سے توقع تھی کہ وہ اور زیادہ مقبول ہوگا۔ کل جمعہ کو بی جے پی کے ایک مشہور اور تجربہ کار ترجمان کو بھی بلایا گیا۔ حیرت ہوئی کہ وہ نوٹ بندی کی ناکامی پر اور عوام کی آخری درجہ کی پریشانیوں اور سوسے قریب انسانوں کی موت پر ایسے بھڑکے کہ گالیاں دینے لگے اور ایک گھنٹہ کا انتہائی سنجیدہ پروگرام صرف 15 منٹ تین ٹکڑوں میں دکھا کر اور سنا کر ختم کردینا پڑا۔ جن حضرات نے وہ نہ دیکھا ہو ان کے لیے صرف اتنا بتلا دینا شاید کافی ہو کہ ایک صاحب نے کہا کہ وہ سو آدمی جو صرف اپنے روپے لینے میں ناکام رہنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ کم از کم کوئی وزیر ان کے گھر جا کر اتنا تو کہہ دیتا کہ وہ کالے دھن بھرشٹاچار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔ ملک کو ان پر فخر ہے۔
اس کا جواب بی جے پی ترجمان نے یہ کہہ کر ماحول میں آگ لگا دی کہ تقسیم کے وقت نہرو کی وجہ سے جو 6 لاکھ آدمی مرے اس کے لیے کانگریس کے کتنے وزیر ان کے گھر تعزیت کرنے گئے۔ برسوں سے ’’مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ جیسا ہی یہ جواب تھا یا نہیں؟ یہ اپنے نزدیک کہی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے ترجمان تھے جو سب سے زیادہ قابل مانے جاتے ہیں۔ جن کو یہ تک نہیں معلوم کہ ملک کی تقسیم کا مطالبہ مسٹر جناح کا تھا اور ہندو لیڈروں میں سب سے بڑھ کر اسے ماننے والے سردار پٹیل تھے اور سردار پٹیل نے ہی گھنٹوں کی بحث کے بعد نہرو اور گاندھی جی کو تیار کیا تھا اور صرف مولانا آزاد اکیلے رہ گئے تھے جو تقسیم کی آخر تک مخالفت کرتے رہے۔
تقسیم کے نتیجہ میں جتنے بھی ہندو ،سکھ اور مسلمان مرے ان کو ایک دوسرے نے مارا وہ اس نفرت کا شکار ہوئے جو مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں نے ہندوؤں ا ور مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان بھر دی تھی۔ وہ موتیں جتنی بھی ہوئیں اپنا وطن اور اپنا گھر چھوڑنے اور زبردستی چھڑانے کی وجہ سے ہوئیں۔ اپنا وطن اور سیکڑوں برس سے بنے ہوئے اپنے گھر کو بندوق کی گولی سے چھڑانا اور اسے چھوڑ کر ایک نامعلوم علاقہ میں جانے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ بی جے پی کا کوئی لیڈر اور مودی جی کا کوئی وزیر یا ترجمان بتائے کہ وہ جو سو آدمی مرے ہیں انہیں کس نے مارا؟ وہ تو صرف بینک سے اپنا وہ روپیہ نکالنے آئے تھے جو انھوں نے یا ان کے باپ نے یا بیٹوں نے رات دن محنت کرکے کمایا تھا اور اس لیے بینک میں رکھا تھا کہ برے وقت میں کام آئے گا۔اور اب برا وقت آیا تو مودی جی کے حکم سے وہ غیروں کے قبضہ میں چلا گیا۔ اب کوئی کیسے نہ کہے کہ ان کی موت کے ذمہ دار مودی جی ہیں۔
مودی جی نے لوک سبھا کا الیکشن لڑا تب ان کا موضوع کالا دھن تھا مگر وہ پردیس والا تھا اب وہ اپنی حکومت کومضبوط کرنا چاہ رہے تھے تو انھوں نے پھر کالے دھن کی دم پکڑ کر اڑنا چاہا اور چھلانگ لگا کر 22ویں صدی میں ملک کو لے جانا چاہا اور یہ بھول گئے کہ ان کے چاروں طرف انتہائی شاطر اور منجھے ہوئے بے ایمان ہیں۔ انھوں نے قوم سے ہاتھ جوڑ کر50 دن مانگے تھے جس میں سے صرف 30 دن بھی نہیں گذرے تھے کہ اتنا کالا دھن پکڑا نہیں گیا جتنا کالا دھن دو ہزار کے نئے نوٹوں سے بن گیا۔ ملک کے ہر صوبے سے سیکڑوں کروڑ نئے نوٹ گڈیوں میں پکڑے گئے ہیں۔ ان میں گجرات بھی شامل ہے اور وہ ضلع سورت جہاں سے مودی نے الیکشن لڑا تھا وہاں سے بھی نئے نوٹوں کی گڈیاں پکڑی ہیں جو پکڑے گئے ہیں ان میں ایک خوبصورت لڑکی بھی ہے جس کا چہرہ کسی کو نہیں دیکھنے دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مودی کے الیکشن کی کوئی سرگرم ورکر ہو یا اس کی گرفتاری کے بعد دہلی سے فون چلا گیا ہو؟
حکومت کہہ رہی ہے کہ ساڑھے چارلاکھ کروڑ روپے 2 ہزار اور5سو کے نئے نوٹوں کی شکل میں بینکوں کو دے دئے گئے ہیں پھر یہ کروڑوں روپے کیسے باہر آئے؟ اور یہ تو پکڑے گئے ہیں جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ سو چور چوری کرتے ہیں اور پکڑے صرف 10 جاتے ہیں۔ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو ان ساڑھے چار لاکھ کروڑ میں نہ جانے کتنے ہزار کروڑ نوٹوں کا رنگ کالا ہو بھی گیا اور ابھی ۸؍ لاکھ کروڑ اور بینکوں کو دیا جائے گا اور بینکوں کی یہی فیاضی رہی تو جتنے کالے دھن کے خلاف سواسو کروڑ کو لائن میں ۵۰ دن کھڑا کیا تھا اس سے زیادہ نوٹوں کا رنگ کالا ہوجائے گا۔ یہ بینک والے وہی ہیں جن کے قصیدے مودی جی لگاتے تھے کہ وہ جانباز اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس گھنٹے کام کررہے ہیں۔ یہ تو اب معلوم ہوا کہ وہ کتنا سفید نوٹوں کو کالا کررہے تھے اور کتنے کالے نوٹوں کو سفید کررہے تھے۔ اتنے بڑے جرم کی صرف یہ سزا کہ ان میں جو پکڑے گئے ان کو معطل کردیا، جن کی بے رحمی کی وجہ سے سو آدمی مر گئے ان کو پھانسی کیوں نہیں دی؟
مودی جی کو ڈاکٹر منموہن سنگھ سے نفرت ہے لیکن ان کی نفرت سے ان کی قابلیت کم نہیں ہوگی۔ انھوں نے پہلے بھی کہا تھا اور پھر کہا ہے کہ ہندوستانی بہت برے دن کے لیے اپنے کو تیار کرلیں۔ آخر کار سپریم کورٹ کو بھی یہ بولنا پڑا کو حکومت نے کیا سوچا ہے اور کس فائدے کی امید ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی جی نے پنّے کھول دئے اور کہہ دیا کہ یہ صرف میری اسکیم تھی جو میرے گھر میں تیار ہوئی اور اتنی راز داری برتی گئی کہ ہر آدمی صرف گجراتی میں بات کررہا تھا۔ اس سے اندازہ ہوگیا کہ یہ سب نئے گورنر پٹیل کا کھیل ہے اور اس میں صرف گجراتی شریک تھے۔ وہی گجرات جہاں13 ہزار 8سو کروڑ والے مہیش نے جرم قبولا اور سورت میں ایک لڑکی کی مدد سے نئے نوٹوں کی کروڑوں روپے کی گڈیاں پکڑی گئیں۔ اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مودی جی ہتھیار ڈالنے کے امکانات پر غور کرنے لگے ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے جو ملک کو کانگریس مکت بنایا تھا اب اس کانگریس کا نوجوان لیڈر راہل گاندھی ان سے زیادہ زور سے کہہ رہا ہے کہ میں پارلیمنٹ میں بولوں گا تو بھونچال آجائے گا۔ بھونچال آئے نہ آئے لیکن اس کا اتنی زور سے بولنا خود بھونچال ہے۔
مودی جی کو یاد ہوگا کہ آزادی کے چند سال کے بعد اپنے لیڈروں کی ناکامی سے عاجز آکر لوگ انگریزوں کو یاد کرنے لگے تھے۔ اب 32 دن لائن میں کھڑے ہونے کے بعد بھی خالی ہا تھ والے جب ایسے ہنگامی حالات میں بینکوں کی تین دن چھٹی کا اعلان سنتے ہیں تو کہنے لگے کہ اس سے تو کانگریس کا دور ہی اچھا تھا۔ وہ چور تھے، بے ایمان تھے لیکن ہمارے منہ کا نوالہ حلق میں ہاتھ ڈال کر تو نہیں نکالتے تھے۔ مودی نے تو ہمارے گھر کی عورتوں کے برے وقت کے لیے چھپا کر رکھے ہوئے پیسے بھی لے لیے جو وہ اپنے شوہر کو بھی دینے کے لیے آمادہ نہیں تھیں۔ بہرحال اب انتظار کا وقت ختم ہوگیا اور فیصلہ ہوگیا کہ نوٹ بندی سے کالا دھن کم ہونے کے بجائے اور بڑھ رہا ہے۔ نکسلیوں اور ماؤ وادیوں کا پیٹ بھی بھر گیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔