بہار کا سیلاب: عبرت وموعظت کے پہلو
عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
سیلاب نے ایک بار پھر بہار کی عوام کو دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا،ہزاروں لوگ گھر سے بےگھرہوگئے، سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،باہمی روابط کے تمام ذرائع منقطع ہوگئےاورپانی نے ایسی تباہی مچائی کہ پچھلے سارے رکارڈ فیل ہوگئے،معتبر ذرائع کے مطابق اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہو چکی ہے؛بل کہ امارت شریعہ کی تحقیق تویہ ہے کہ اب تک تقریباً ایک کروڑ انسان اس خطرناک سیلاب سے متأثر ہوئے ہیں ،باقی خواتین اوربچے شدیدپیاس،بھوک مری اور مختلف اذیتوں کا شکار ہیں۔
سیلاب،زلزلہ ،طوفان اور وبائی امراض وغیرہ اب کوئی نئی بات نہیں رہی، ان تمام کےتعلق سے سائنس اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہےاور اپنے معیار و کسوٹی کے مطابق اپنے نقطہ نظر کو درست سمجھتی ہے؛مگر ان سب سے قطع نظر قدرتی آفات کے وقوع کا ایک اسلامی نقطہ نظر بھی ہے کہ یہ کیوں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا اس کے صرف سائنسی پہلو پر نظر رکھنی چاہئے یا اس کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی اصلاح اور رب کی طرف رغبت کا مزید اظہار بھی کرنا چاہئے۔
خلیفہ ہارون رشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا،عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی؛لیکن ان میں ہارون رشید کوغیرمعمولی شہرت نصیب ہوئی،اسی ہارون الرشید کے دور میں ایک بارسخت قحط پڑ گیا؛جس کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے، ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں ، غلے کے گودام کھول دئیے،ٹیکس معاف کر دئیے، پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانے قائم کر دئیے اور تمام امراءاور تاجروں کو متاثرین کی مدد کیلئے متوجہ کر دیا لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات ٹھیک نہ ہوئے، ایک رات ہارون الرشید شدید اضطراب میں تھے، انہیں نیند نہیں آ رہی تھی، بے چینی کے اس عالم میں انہوں نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا، یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کےاستاد بھی تھے،انہوں نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی،ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا ”استادمحترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آ جائے“ یحییٰ بن خالدمسکرائے اور عرض کیا ”بادشاہ سلامت میں نےکہیں اللہ کے کسی نبی یاولی کی حیات طیبہ میں ایک داستان پڑھی تھی۔
یہ داستان مقدر،قسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے. آپ اگر ..اجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دہرا دوں “ بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا ”ائے استاد فوراً ارشادفرمائیے.میری جان حلق میں اٹک رہی ہے“ یحییٰ خالد نے عرض کیا ” کسی جنگل میں ایک بندریا سفر کیلئے روانہ ہونے لگِی اس کا ایک بچہ تھا، وہ بچے کو ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کیا”جناب آپ جنگل کے بادشاہ ہیں !میں سفر پر روانہ ہونے لگی ہوں ، میری خواہش ہے آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمے لے لیں ! شیر نے حامی بھر لیِ ،بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کر دیا،شیر نے بچہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا،بندریا سفر پر روانہ ہوگئی، اب شیر روزانہ بندرکے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام کرتا رہتا،ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل نےگھات لگائی، شیر کے قریب پہنچی، بندریا کا بچہ اٹھایا اور آسمان میں گم ہو گئی، شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا، یحییٰ خالدرکے اور انہوں نےلمبی سانس لی اور خلیفہ ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت چند دن بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کر دیا،شیر نے شرمندگی سے جواب دیا،تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے،بندریا کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا:تم کیسے بادشاہ ہو؟ تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکے؟ تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاﺅ گے؟ شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا ”میں زمین کا بادشاہ ہوں ، اگر زمین سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے!۔
یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا :بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے،یہ آسمان کا عذاب ہے، اسے صرف اللہ تعالیٰ روک سکتا ہے چنانچہ آپ اسے رکوانے کیلئے بادشاہ نہ بنیں ،فقیر بنیں ، یہ آفت رک جائے گی“۔
غرض اس واقعہ کو ذکر کرنے کا مقصد صرف عبرت و موعظت ہے کہ ہم بھی اس آسمانی آفت کے موقع پر رجوع الی اللہ کو اپنا شیوہ بنائیں اور متاثرین کی امداد کا سامان کریں ۔
اس سلسلہ میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں ، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس اجاگر کریں ، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں ، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں ، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول بنانے کی فکرکریں ۔
پھرہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں ، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں کہ یہ ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔
کئی تنظیموں اور رفاہی اداروں نے متعدد علاقوں کا دورہ کیا اور تباہی کے خوفناک مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں ، اگرچہ امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقتی مسئلہ نہیں ہے اس پر کئی سال لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے غیر معمولی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوگی۔
ایسے حالات میں انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ حسبِ سہولت و استطاعت خیر خواہانہ جذبہ سے ہمدردی کا ہاتھ دراز کیا جائے اور ان متأثرین کی دل کھول کر مدد کی جائے۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔