تجارت کے سنہری اسلامی اصول

پروفیسر حکیم سید عمران فیاض

سرور کونین فخر موجودات سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیﷺ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ تجارت کے حوالے سے آپؐ کی زندگی ہمارے لئے ایک انمٹ نمونہ ہے۔ آپﷺ صادق و امین تھے۔ ارشادی باری تعالیٰ ہے ’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جاب ون کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ؟ اس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ ‘‘ (مطففین 6-1 )

معاشرہ میں انسانوں کو ہر قد پر دوسروں سے معاملہ کرنا پڑا ہے، خرید و فروخت، مزدوری، ملازمت، شرکت، مزارعت، قرض وغیرہ ان تمام صورتوں میں خیر خواہی باقی نہ رہے اور ایک دوسرے سے ناجائز فائدہ اٹھائے یا خیانت کرے تو یہ معاملہ باطل اور حرام ہو جاتا ہے اور معاشرہ میں اکثر تباہ کاریاں، ناح مال کھانے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ا لسام لین دین، تجارت اور باہمی معاملہ کا جائز طریقہ بتاتا ہے۔ اس میں طرفین کی رضا مندی کو یہ رضا مندی فریب دے کر یا ایک فریق کو تاریخی میں رکھ کر لینا بھی ظلم ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؓ کو بھیجا، اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کرو، آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہون لیکن مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا اور اے برادرانِ قوم ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو، اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تم مومن ہو اور بحر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہو‘‘ (ھود آیت 84 تا 86، پارہ 20 )

اشیاء کی خرید و فروخت کا نام تجارت ہے۔ یہ نہایت ہی عمدہ پیشہ ہے اس کے ذریعہ اسلامی معیشت کو بہت فروغ ملتا ہے۔ حضور ﷺ کے ارشادات گرامی میں اس کی یوں ترغیب دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے ’’حضرت ابو سعیدہ ؓ سے ررویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سچا اور امانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا (ترمذی )۔ حضرت عبید بن رفاعہؓ نے اپنے والد ماجد سے رویت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تاجر قیامت کے روز نا فرمان اٹھائے جائیں گے ماسوائے اس کے جس نے تقویٰ نیکی اور سچائی کو اختیار کیا۔ (ترمذی )

حضرت ابو فتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تجارت میں زیادہ قسم کھانے سے بچو کہ رواج ہو جاتا ہے۔ پھر برکت کو ختم کر دیتی ہے۔ (مسلم شریف)

حضرت حذیفہؓ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پہلے زمانے کے ایک آدمی کے پاس فرشتہ اس کی روح قبض کرنے کے لئے آیا، اس سے کہا گیا کہ تو نے کوئی نیکی کی ہے ؟ کہا میرے علم میں تو کوئی نہیں، کہا گیا کہ پھر غور کرو، کہا کہ میرے علم میں ایسیکوئی چیز نہیں، سوائے اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ تجارت کیا کرتا تھا تو مالدار آدمی کو ڈھیک دیتا اور تنگدست سے در گزر کیا کرتا تھا، بس اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ (مسلم شریف )

حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہ؛ے کہ نمبی کریم ﷺ نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں فرمائے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ حضرت ابو ذرؓ عرض گزار ہوئے، رسول اللہ ﷺ! وہ محروم اور خسارہ پانے والے کون ہیں ؟ فرمایا کہ ازالہ لٹکانے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے مال کو پھیلانے والا (مسلم شریف)۔

حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سودا کرنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہو اگر دونوں نے سچائی اور صاف گئی سے کام لیا تو ان کے سودے میں برکت ڈلا دی جاتی ہے اور اگر انہوں نے چھپایا اور غلط بیانی کی تو ان کی تجارت سے برکت مٹ دی جاتی ہے۔ (بخاری شریف)

ہم معاشرتی زندگی میں اصول و ضوابط پانی مرضی کے مطابق از خود وضع کرتے ہیں جس میں اپنا مفاد ہوتا ہے اور یہی چیز انسان کی ہلاکت اور بربادی کا باعث بنتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔